زندگی کے کسی بھی شعبے میں ، معاشر کے کے کسی بھی موڑ پر
، خاص طور پر دور جدید میں تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا ۔ اسلام نے ہر مسلمان مر د و عورت پر علم حاصل کر نا فرض کیا ہے ۔
مو جودہ سائنسی دور میں تعلیم کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے کیو نکہ پڑھے لکھے
اور تعلیم یافتہ افراد ہی مفید شہری ثابت ہو تے ہیں ۔ پاکستان میں شرح
خواندگی کا تناسب ابھی بہت ہے ، جس کی وجہ سے ہمارا سیاسی ، معاشی اور
اقتصادی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔ پرائمری تعلیم کی اہمیت تعلیمی
پالیسی اور منصو بہ بندی میں تسلیم کی گئی ہے ۔ مگر آج تک مقررہ اہداف پور
ے نہیں ہو سکے ہیں ۔
1951ء میں ہماری شر ح خواندگی 16فیصد ، 1961ء میں ہماری شر ح خواندگی
19فیصد ، 1972ء میں 22فیصد اور 2000ء کے مطابق شر ح خواندگی میں صرف 15فیصد
اضافہ ہوا ہے ۔ اس طر ح کل شر ح خواندگی کا تناسب 22فیصد سے بڑ ھ کر 32فیصد
تک پہنچا جوکہ بہت کم تناسب ہے ۔ اگر اس کا مناسب حل نہ کیا گیا تو شاید
آئندہ چند بر سوں میں شر ح خواندگی کے سو فیصد ہو نے کا خواب شر مندہ تعبیر
نہ ہو سکے ۔ 1947ء میں کراچی میں منعقدہ پہلی تعلیمی کانفرنس میں یہ فیصلہ
کیا گیا کہ عام اور لازمی تعلیم کا ہدف 20سال میں حاصل کر لیا جائے گا۔
1959ء میں قومی تعلیمی کمیٹی نے یہ ہدف حاصل کر نے کے لیے 10سال کا عرصہ
مقرر کیا ۔ 1972ء میں تعلیمی کمیٹی نے یو نیورسل پرائمری تعلیم کا ہدف
لڑکوں کے لئے 1979ء اور لڑکیوں کے لیے1974ء حاصل کر لینے کا اعلان کیا ۔
مو جودہ حکو مت نے یہ طے کیا ہے کہ پرائمری تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے
2006ء تک عام ہو سکے گی ۔ تمام تر کو ششوں اور مادی وسائل کے بعد ہم ابھی
تک پرائمری سطح پر 51فیصد طلبا ء کو پرائمری تعلیم کی سہولتیں مہیا کر سکے
ہیں ۔
اب ذرا ان عوامل کا جائزہ لیجئے کہ ہم پرائمری تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دے
رہے جس کی یہ مستحق ہے ۔ ہم بنیادوں اور دیواروں کو مضبوط بنانے میں مصروف
ہیں ۔ صرف چھتوں کو خو بصورت ، پائیدار اور جاذب نظربنانے میں مصروف ہیں ۔
پرائمری تعلیم پر ہمارا مجموعی بجٹ صرف28فیصد خر چ ہو تا ہے جبکہ مغربی
ایشیا ئی ممالک میں پرائمری تعلیم پر 47فیصد سے لے کر 68فیصد تک خر چ کیا
جاتا ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں پرائمری تعلیم کے تعلیمی بجٹ پر 82فیصد خر چ
کیا جاتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو بچے سکول جانے کی عمر کے ہو تے ہیں ان
کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ تعداد میں نہ تو سکلو ہیں اور نہ ہی اساتذہ ، اس
وقت ہمارے ملک میں 57فیصد بچوں کی بنیادی تعلیمی اور تدریسی سہو لتیں مہیا
ہیں جبکہ 43فیصد بچے تعلیمی سہو لتوں سے محروم ہیں ۔ یو ں ہر سال نا خواندہ
بچوں کی تعداد میں اوسطاً 10لاکھ سالانہ اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے ۔
اس صو رتحال میں ایک اہم ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے
نو نہال کو سکول میں بھیجنے کی طرف از خو د راغب ہوں اور جہاں یہ جذبہ پیدا
نہ ہو سکے تو حکو مت کو قانو ناً والدین کو اس بات کا پابند کر نا چاہیے کہ
وہ اپنے بچوں کو لازمی طور پر سکول میں داخل کروائیں اس پر مؤ ثر عمل در
آمد کر کے لازمی تعلیمی قانون بھی رائج کیا جاسکتا ہے ۔ منصو بہ ساز
پرائمری تعلیم کے لیے وہ سہو لتیں بہم پہنچائیں جن کی ضرورت ہے ۔ سکولوں
اور اساتذہ کی کمی کو پورا کر نے کے لیے حکو مت کی مو جودہ کتب سکیم نہایت
فائدہ مند اور بہر ہ مند نتائج پیدا کر سکتی ہے ۔ ا تعلیمی منصو بے پر خلو
ص نیت سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پرائمری ثانوی سطح پر گر تا ہو ا
معیارِ تعلیم بھی ہر حساس فر د کے لیے سو ہانِ روح ہے ۔ ہمارے ہاں تعلیم کو
ادھور ا چھوڑ جانے والے طلبا کا تناسب 50فیصد ہے ۔ جو تعلیمی معیار میں ایک
تکلیف دہ ریکارڈ ہے ۔ گر تے ہوئے معیارِ تعلیم اور ڈراپ آؤٹ کی سب سے بڑی
وجہ پرائمری سکولو ں میں اساتذہ کی کمی اہلیت اور م�ؤثر معائنے و نگرانی کے
عمل کا فقدان ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری تعلیم پر اعلی تعلیم یافتہ
اساتذہ مامور ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے ۔ گر تے ہوئے معیارِ تعلیم
اور ڈراپ آؤٹ ہو نے کا دوسرا اہم سبب معائنے اور نگرانی کا عمل نہ ہو نا
بھی ہے۔ 1973ء میں محکمہ تعلیم کی تنظیمِ نو سے ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر اور
اسسٹنٹ ایجو کیشن آفیسر ز کی جو سکیم شروع کی گئی وہ سکولوں ، اساتذہ و
طلباکی تعداد ان افسران کی بد انتظامی اور دیگر نااہلیوں کی وجہ سے مطلوبہ
نتائج پیدا نہ کر سکی ۔ معمولی طورپر ایک اسسٹنٹ ایجو کیشن آفیسر کے پاس
معائنے اور نگرانی کے لیے 60سکولوں کا معیار مقرر ہے ، جبکہ اس وقت تقریباً
ان کی تعداد 160ہے جبکہ ضلع بھر کے پرائمری ، مڈل اور ہائی سکولوں کے مسائل
اس قدر زیادہ ہیں کہ ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر شاید ہی کبھی نگرانی اور
معائنے کے لیے وقت نکا ل سکیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اختیارات کی مر کز یت ختم کر کے معائنے اور نگرانی
کے عمل کو مؤثر بنایا جائے ۔ اساتذہ کے مسائل حل کر نے کے لیے تحصیل سطح پر
ایسے ایجو کیشن افسران مقرر کیے جائیں ۔ جن کاکام ، معائنہ اور نگرانی ہو ۔
ا سکی روشنی میں طلباء اور اساتذہ کی تر بیت کے لیے ان کی بہتر مشاعرت کی
جائے ۔ تعلیم کو عام کر نے اور والدین کے دلوں میں تعلیم کی اہمیت بڑھانے
کے لیے اخبارات ، رسائل ، ٹی وی ، ریڈیو اپنا کردار ادا کریں ۔ تب جاکر اس
ملک میں تعلیم عام ہو گی اور لو گ تعلیم کی اہمیت و افادیت سمجھتے ہوئے
سکولوں کی طرف راغب ہو ں گے ۔
|