غیر ملکی کھلاڑی اور پی ایس ایل فائنل

پاکستان سپر لیگ 2017ء کے فائنل نے پورے ملک اور دنیائے کرکٹ میں دھوم مچا رکھا ہے۔ چونکہ پاکستان میں کھیلوں کے میدان کافی عرصہ سے ویرانی کے عالَم میں پڑھے ہوئے تھے۔اسلئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ساتھ کرکٹ شائقین بھی ملک میں کرکٹ کی بحالی کیلئے ترس رہے تھے۔شارجہ اور دبئی میں پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کے میچز ہوئیں۔فائنل لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں شیڈول ہے جوکہ پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔بحالی کی اس کوشش میں فرنچائز مالکان کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔عرب کے صحراؤں میں ایسے ایونٹس کا انعقاداور دیسی تماشائیوں کو اس کی جانب راغب کرنا ایک بڑی کامیابی ہے۔

فائنل کے پاکستان میں انعقاد کے فیصلہ کو جہاں سابق کرکٹرز اور شائقین نے خوب سراہا۔وہاں کئی سابق کرکٹرز کی جانب سے پی سی بی اور حکومت کے اس فیصلے پرکھڑی تنقید ہوئی۔ساتھ ہی مہنگے داموں خریدے گئے غیر ملکی کرکٹرز نے لاہور جانے پر خدشات کا اظہار کیا۔سابق کرکٹر عمران خان کا کہنا ہے۔کہ اگر ملک میں ایمرجنسی لگا کر کرکٹ کھیلنا ہے۔تو ایسے ایونٹس کا انعقاد عراق میں بھی ہو سکتا ہے۔گویاعمران لاہور میں سیکیورٹی کے موجودہ صورتِ حال کا عراق سے موازنہ کرتے ہے۔سابقہ لیگ اسپنر عبدالقادر کہتے ہیں۔کہ اگر ہزاروں کی تعداد میں بیٹھے ہوئے تماشائیوں یا کئی سالوں بعد ملک میں آئے ہوئے ایک غیر ملکی کرکٹر کو خدانخواستہ کچھ ہوتا ہے۔تو پھر ملک میں ایک عشرے تک کوئی بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کاسوچ بھی نہیں سکے گا۔دونوں کے خدشات اور بیانات اپنی جگہ درست ہیں۔لیکن شاید فرنچائز مالکان دبئی اور شارجہ سے فائنل ملکی میدانوں میں لے جانے پر بضد تھے۔اُن کو خالی گراؤنڈ میں میچز دیکھنا گوارہ نہیں تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ان مقابلوں میں صرف پشاور زلمی کی ٹیم کے مقابلوں کیلئے تماشائیوں کی تعداد زیادہ رہی۔اور ان میں بیشتر مقابلے جمعہ کے دن شیڈول ہوئے تھے۔دوسری حقیقت پیپسی شربت کی وہ تحریک تھی۔جس نے "Catch a crore" کے نام سے لوگوں کو لاکھوں کے کیچزپکڑنے پرسٹیڈیمز کی راہ دکھا دی۔چیئرمین پی ایس ایل نجم سیٹھی کوشاید فرنچائز مالکان کی دلچسپی کم ہونے کا خوف تھا۔اُن کی یہ کوشش تھی۔کہ اگر لیگ کا انعقاد اپنی ہی ملکی میدانوں پر ہوتو اس کی مقبولیت کو چارچاند لگ جائیں گے۔یوں اگلی ایڈیشن میں ٹیموں کی تعداد بھی زیادہ ہو جائے گی۔ ملکی کرکٹ کے ساتھ بورڈکو بھی مالی فوائد حاصل ہونگے۔اور نئے ٹیلنٹ کیلئے بھی کرکٹ کے میدان آباد ہوجائیں گے۔

پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن میں ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیو ں کو پانچ کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا تھا۔جس میں پلاٹینم کیٹیگری کی قیمت ایک لاکھ ڈالرز رکھی گئی تھی۔اس کیٹیگری میں کئی غیر ملکی کھلاڑی جن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کے کیون پیٹرسن، اسلام آباد یونائیٹڈ کے شین واٹسن ،پشاور زلمی کے آئن مورگن،لاہور قلندر کے میک کولم اورسنیل نارائن، کراچی کِنگز کے کرس گیل اور کیرون پولارڈ شامل ہیں۔ڈائمنڈ کیٹیگری میں ہر کھلاڑی کی قیمت 70000 ڈالرز لگائی گئی تھی۔جن میں پشاور زلمی کے ڈیرن سیمی اور شکیب الحسن ،کراچی کِنگز کے روی بوپارہ اور کماراسنگاکارا،کوئٹہ گلیڈی ایٹرکے لُک رائٹ ،اسلام آباد یونائیٹڈ کے سیموئیل بدری شامل ہیں۔ان مہنگے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں لانے کیلئے ایک ترغیب بھی دی گئی۔اور وہ یہ کہ لاہور میں فائنل کھیلنے کی صورت میں ان کو بیس ہزار ڈالر اضافی رقم ملے گی۔ کرکٹ شائقین اپنے ہی میدانوں پر میچز دیکھنے کیلئے کافی عرصہ سے بے چین ہیں۔وہ بھی یہاں کے غیر آباد میدانوں کو دوبارہ آباددیکھنے کے خواہش مند ہیں۔لاہور کے تاریخی قذافی سٹیڈیم میں 27000 تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ان میں ٹکٹو ں کی خریداری پر بھی لوگ آپس میں گتھم گتھا رہے۔ساری ٹکٹیں ہاتھوں ہاتھ بِک گئی ۔پھر بھی لوگ بینکوں کے سامنے قطار در قطار کھڑے رہے۔الغرض پاکستانی میڈیااور کرکٹ شائقین میں اس فائنل کے حوالے سے کافی جوش پایا جاتا ہے۔وزیر اعظم ،آرمی چیف ،چاروں صوبوں کے وزارائے اعلیٰ کی بھی شرکت متوقع ہیں۔ اب سوال یہاں پر یہ بنتا ہے۔کہ اگر 27000 انسانوں کا جمِ غفیر سارے خطروں کی پرواہ کیے بغیرکھیل اور کھلاڑیوں کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔تو غیر ملکی کھلاڑی بھی انسان ہونے کے ناطے اس میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟فیڈریشن آف انٹرنیشل کرکٹ ایسوسی ایشن(فیکا) کو بھی اس بڑے کراؤڈ کے جذبات کا احساس کرنا چاہئیے ۔

کوئی بھی کھلاڑی اس کھیل کے پرستاروں کی محبت سے ہیرو بنتا ہے ۔زندگی تو ہر ذی روح کو عزیز ہے۔پھر موت نے اگر کسی کو آنا ہے۔تو وہ تو آسٹریلوی بلے باز فلِپ ہیوز کو سر پر بال لگنے سے بھی کوئی نہ بچا سکا۔آخر 27000 گراؤنڈ میں بیٹھنے والے لوگ اور کروڑوں کی تعدادمیں گھروں کے اندرٹی وی کے سامنے کہن دراز بھی انسان ہیں۔اگر دھماکوں اور دہشت گردی کی بات ہے۔ دھماکے تو انڈیااور ترکی میں اس سال پاکستان سے زیادہ ہوئیں۔اگرغیر ملکی کھلاڑی موت کے ڈر سے نہ بھی آئے۔فائنل تو ملکی کرکٹرز سے بھی کروایا جائے گا۔لیکن اس سے کرکٹ لاورزکی حوصلہ شکنی اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
باری تعالیٰ اس دھرتی کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

Hafiz Abdul Rahim
About the Author: Hafiz Abdul Rahim Read More Articles by Hafiz Abdul Rahim: 31 Articles with 19852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.