بھینس کی حلت :
بھینس قرآن و حدیث کی روشنی میں حلال ہے ۔
قرآن کی دلیل :
اللہ تعالى کا ارشاد ہے :أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا
مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ (الأنعام :1)
ترجمہ: تمہارے لیے تمام تر چرنے والے جانور حلال ہیں , ما سوا ان جانوروں
کے جو تمہیں بتا دئے گئے ہیں .
دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ
مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ
دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا
أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ
فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.(الانعام:145)
ترجمہ: آپ فرما دیں کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے اس میں تو میں کسی (بھی)
کھانے والے پر (ایسی چیز کو) جسے وہ کھاتا ہو حرام نہیں پاتا سوائے اس کے
کہ وہ مُردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیو نکہ یہ ناپاک ہے
یا نافرمانی کا جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام بلند کیا گیا ہو۔ پھر
جو شخص (بھوک کے باعث) سخت لاچار ہو جائے نہ تو نافرمانی کر رہا ہو اور نہ
حد سے تجاوز کر رہا ہو تو بیشک آپ کا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
قرآن کی پہلی آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قاعدے کی رو سے سارے جانور حلال ہیں
سوائے ان کے جن کی حرمت کے بارے میں وحی کردی گئی ۔ اور دوسری آیت میں وحی
کے ذریعہ حرام کردہ جانور کی نشاندہی کردی گئی جن میں سے بھینس نہیں ہے ۔
اس لئے قرآن کی رو سے بھینس حلال ہوئی ۔
حدیث سے دلیل : قرآنی قاعدے کی طرح احادیث سے بھی اس قاعدے کی صراحت ملتی
ہے کہ بری اور بحری سارے جانور حلال ہیں سوائے جن کی حرمت کا اعلان کردیا
گیا۔ خشکی کے جانوروں میں کچلی دانت والے جانور کی ممانعت ہے ۔ اسی طرح وہ
جانوربھی حرام ہے جس کے قتل کرنے یا نہ کرنے کا نبی ﷺ نے حکم دیاہویا جسکی
حرمت خود نبی ﷺ نے واضح کردی ہو۔ مردار کھانے والا جانور بھی منع ہے ۔جانور
کی ممانعت کے ان اصول کے تحت بھینس نہیں آتی جس کی بنیاد پر بھینس بھی حلال
ٹھہری ۔
اجماع سے دلیل :
الموسوعہ الفقیہ ، الاجماع اور المغنی وغیرہ میں بھینس کی حلت پہ اجماع نقل
کیا گیا ہے اور اجماع بھی شرعی دلیلوں میں سے ہے ۔
حوالے کے لئے دیکھیں :(الموسوعة الفقهية:5 / 134، الاجماع لابن المنذر:48،
المغنی لابن قدامہ 9/327)
بھینس کاگوشت: جو جانور حلال ہے ، اس کا گوشت کھانا حلال ہے ۔
بھینس کا دودھ : حلال جانور کا دودھ پینا جائز ہے ،جیساکہ گائے کادودھ ۔
بھینس کا گوبر: ماکول اللحم جانور کا گوبر پاک ہے ، اس کے متعدد دلائل ہیں
ایک دلیل بکری کے رہنے کی جگہ نماز پڑھنے والی حدیث دوسری دلیل اونٹ کا
پیشاب پینے والی حدیث ۔
بھینس کا پیشاب :بکری اور اونٹ سے متعلق مذکورہ بالا دلائل سے یہ بھی ثابت
ہوتاہے کہ ماکول اللحم جانور کا پیشاب پاک ہے ۔ اس لئے ماکول اللحم جانور
کا پیشاب بطور علاج اگر استعمال ہوتا ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ
علاج کے لئے ماہر مسلم طبیب کی صراحت ہو۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی کہ ہندؤں
میں گائے کا پیشاب عقیدت کے طور پہ پیا جاتا ہے اور اسی عقیدے کے تحت
دوائیوں میں بھی پیشاب ملایاجارہاہے ۔
بھینس کی قربانی :
قربانی کے جانور کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ
اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا
اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِن
كُنتُمْ صَادِقِينَ، وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ
اثْنَيْنِ ۗ (الانعام:142-143)
ترجمہ : آٹھ اقسام ، بھیڑ میں سے دو اور بکری میں سے دو، کہہ دیجئے کیا اس
نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جس پر ددنوں ماداؤں کے رحم لپٹے
ہوئے ہیں؟ مجھے کسی علم کے ساتھ بتاؤ، اگر تم سچے ہو۔ اور اونٹوں میں سے دو
اور گائیوں میں سے دو۔
اللہ تعالی نے نام لیکر آٹھ قسم کے قربانی کے جانور کی تعیین کردی جبکہ
کھائے جانے والے جانور بے شمار ہیں۔ آٹھ قسم: دو قسم بکری نرومادہ، دوقسم
بھیڑ نرومادہ،دوقسم اونٹ نرو مادہ اور دو قسم گائے نرومادہ۔ گویا ان آٹھ
اقسام میں قربانی کے لئے نویں کسی جانور کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ ان
اقسام میں بھینس کا ذکر نہیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عرب میں اس وقت بھینس
نہیں معروف تھی اور یہ گائے کی جنس سے ہے ۔ اس کا حکم وہی ہے جو گائے کا
خواہ زکاۃ کے لئے ہو ، قربانی کے لئے ہو یا گوشت کھانے اور دودھ پینے کے
طور پر ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ بھینس عرب میں متعارف نہیں تھی مگر بھینس
دنیا میں موجود تھی ، اللہ اس کا خالق ہے وہ کوئی بات بھولتا نہیں ۔ اگر
چاہتا توقربانی کے جانور کی فہرست میں اسے بھی ذکر کرسکتا تھا۔
خلاصہ کے طور پر میرا یہ کہنا ہے کہ بھینس حلال جانور ہے ، اس کو قربانی کے
تئیں وجہ نزاع نہ بنایا جائے ، سیدھی سی بات ہے اگر ہمارے یہاں قرآن میں
مذکور آٹھ اقسام میں سے کسی قسم کا جانور پایا جاتا ہے تو اس کی قربانی
کریں جس میں کوئی شک نہیں اور نہ اختلاف ہے البتہ متعدد اہل علم نے بھینس
کو گائے کی جنس سے مانا ہے اور اس بنیاد پہ اس کی قربانی کا جواز فراہم کیا
ہے ۔ عرب کے علماء بھی جواز کے قائل ہیں ۔ لہذا کسی کا دل اس پہ مطئمن ہو
تو اس پہ کسی قسم کا جبر نہیں کیا جائے ۔
بھینس کا عقیقہ :
جس طرح اللہ تعالی نے قربانی کے متعلق جانور کی تفصیل ذکر کردی ویسے ہی نبی
ﷺ سے عقیقہ کے متعلق جانور کی صراحت موجود ہے ۔ عقیقہ کے لئے صحیح احادیث
میں بکری، مینڈھا اور دنبہ کا ذکر ملتا ہے باوجودیکہ گائے اور اونٹ موجود
تھے ۔ عقیقہ (قربانی) عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہوتی ہے ، اس کے لئے نص
چاہئے ۔ لہذا عقیقہ کے جانور کے لئے جو نص ملتا ہے ہمیں انہیں جانور سے
عقیقہ دینا چاہئے ۔
بعض لوگوں نے بڑے جانور مثلا گائے ، بیل ، اونٹ وغیرہ سے عقیقہ دینا جائز
کہا ہے ۔ اگر بڑے جانور میں عقیقہ کا جواز تسلیم کیا جاتا ہے تو ایک بہت
بڑا احتمال کھڑا ہوجاتا ہے وہ یہ کہ اگر گائے کا عقیقہ مانتے ہیں تو سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ایک حصہ ہوگا یا قربانی کی طرح سات حصے ہوں گے
؟۔
جواز کے قائلین میں سے بعض نے ایک حصہ کہا اور بعض نے سات حصہ کہا۔ چونکہ
اس بات کی کوئی دلیل نہیں جن کو جو مناسب لگا حکم دے دیا۔ اور یہ معلوم ہے
قربانی و عقیقہ عبادت توقیفی ہے اس میں بغیر دلیل کے کچھ کہنا صحیح نہیں ہے
۔
لہذا منصوص جانور سے ہی عقیقہ کرے یہی احوط واولی ہے ۔ جن روایات میں اونٹ
اور گائے کا عقیقہ مذکور ہے وہ ضعیف ہیں، ان سے استدلال نہیں کیاجائے گا۔
ایک امر کی وضاحت :
بعض لوگ بڑے زوروشور سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ بھینس کی حلت قرآن و حدیث میں
موجود نہیں ، یہ قفہ سے حلال ہے ۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی اس بات
کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ
وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْآ
اِٰلہًا وَّاحِدًا لآ اِٰلہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا
یُشْرِکُوْنَ۔(توبہ:31)
ترجمہ : انہوں نے اپنے علماء ،درویشوں کو اور عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کے
علاوہ معبود بنالیاہے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک معبود کی
عبادت کریں اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ پاک ہے ان کے شرک سے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی توعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (جو اسلام قبول کرنے سے
قبل عیسائی تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے
سنا تو عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم نے ان کی کبھی بھی عبادت نہیں کی
اور نہ ہم مولویوں اور درویشوں کو رب مانتے تھے تو نبی ﷺنے فرمایا:
أما إنَّهم لم يَكونوا يعبدونَهم ولَكنَّهم كانوا إذا أحلُّوا لَهم شيئًا
استحلُّوهُ وإذا حرَّموا عليْهم شيئًا حرَّموه(صحيح الترمذي:3095)
ترجمہ: وہ اپنے علماءکی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب ان کے علماءکسی چیز کو
حلال کہہ دیتے تو وہ اسے حلال کر لیتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے
تو وہ بھی اسے حرام تسلیم کر لیتے۔
اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ ہماری فقہ نے یا ہمارے امام نے بھینس حلال کیا
اور اس عقیدے سے بھینس کاگوشت کھائے تو اس کا بھی وہی حکم لگے گا جو قرآن
میں ہے ۔
لہذا آج کے بعد اپنے ایمان و عقیدے کی اصلاح کرلیں اور ایک بات کی خاطر
آخرت نہ برباد کریں ۔
|