کھیل کسی بھی صحت مند معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں جو
معاشرے میں مثبت رجحانات اور صحت مند مقابلے کو پروان چڑھاتے ہیں۔یہی وجہ
ہے کہ دنیا بھر کے تمام ممالک کھیلوں کے شعبے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے
اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ایک وقت تھا کہ دنیا میں پاکستان کے بغیر
کھیلوں کا تصور ناممکن تھا اور ہم بیک وقت کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر کے
عالمی چیمپئن تھے۔موجودہ دور میں دہشت گردی اورسیاسی بحران نے جہاں تعلیم
وصحت کے اداروں کوتباہ کیا ہے وہیں اس کا براہ راست اثر کھیلوں کے شعبے پر
بھی پڑا ہے اور ہم اس میدان میں اقوام عالم سے بہت پیچھے رہ گئے۔پاکستان
میں چھوٹے بڑے 48اقسام کے کھیل کھیلے جاتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر
رجسٹرڈ بھی ہیں مگر کرکٹ کے علاوہ ہم کسی کھیل میں ٹاپ 10میں شامل نہیں
ہیں۔ قومی کھیل ہاکی میں ہم 13ویں،اسکواش میں 20 ممالک کی فہرست میں 19ویں
اور فٹ بال میں ہم150ویں نمبر سے بھی نیچے ہیں ۔
ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے جس کی زبوں حالی پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن اس
کی بہتری کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ہاکی میں پاکستان کی شرکت 16
اولمپکس میں رہی ہے لیکن گزشتہ ریو اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کو شرکت سے
محروم ہونا پڑا۔قومی کھیل کی بدحالی کی داستان میں تازہ ترین اضافہ یہ ہے
کہ اپریل میں ہونے والے 26 ویں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں پہلی دفعہ
پاکستانی ٹیم کو شامل نہیں کیا گیا۔یاد رہے کہ پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ
میں 3 دفعہ چیمپئن اور 6 بار رنر اپ رہی ہے۔ماضی میں قومی ٹیم نے 3بار
چیمپئنز ٹرافی،8بار ایشیئن گیمز،3بار ایشیاء کپ ،2مرتبہ ایشیئن ہاکی چمپئین
ٹرافی کے ٹائیٹل میں گولڈ میڈلز اور کل بڑے مقابلوں کی تاریخ میں تقریباً
70میڈلز اپنے نام کیے۔ عالمی ہاکی کی تاریخ صلاح الدین، رشید جونیئر، سمیع
اللہ، کلیم اللہ، منظور جونیئر، حسن سردار اور شہباز احمد جیسے مایہ ناز
کھلاڑیوں کے بغیر آج بھی ادھوری ہے جنہوں نے طویل عرصہ تک ہاکی کے میدان
میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
ہاکی کے بعد سکواش وہ کھیل ہے جو قیام پاکستان کے بعد عالمی سطح پر ہماری
پہچان بنا ۔ہاشم خان ، روشن خان،جہانگیر خان ، قمر زمان، رحمت خان اور جان
شیر خان نے تین دہائیوں تک سکواش کی میدان میں پاکستان کی کامیابیوں کے
جھنڈے گاڑے۔جہانگیر خان نے ورلڈ اوپن ریکارڈ دس مرتبہ جبکہ جان شیر خان نے
آٹھ بار ورلڈ اوپن جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ مگر جیسے ہی یہ عہد ساز کھلاڑی
عالمی اسکواش کے منظر سے غائب ہوئے ،سکواش کے دروازے پاکستان پر جیسے بند
ہوگئے۔
کبڈی برصغیر کا مقبول ترین کھیل رہا ہے جو سرکاری سطح پر عدم سرپرستی، کھیل
میں گلیمر کی کمی اورکئی دیگر عوامل کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے۔ ایک وقت تھا
کہ صرف لاہور شہر میں 600 سے زائد اکھاڑے تھے جہاں دس ہزار کے قریب نوجوان
تربیت حاصل کیاکرتے تھے۔کبڈی میں بھولو برادران، یاسین شریف، حاجی افضل،
ازل پہلوان اور کالا پہلوان کا نام آج بھی عالمی سطح پر پاکستا ن کی پہچان
مانا جاتا ہے۔2010 میں کبڈی ورلڈ کپ شروع ہونے کے بعد پاکستان نے مسلسل غیر
معمولی کامیابیاں حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ اگر آج بھی اس کھیل کو حکومتی
سرپرستی حاصل ہوجائے تو کبڈی میں کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا جاسکتا
ہے۔
فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے لیکن پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ کے
باوجود اس کھیل کو وہ مقبولیت نہیں مل پائی جس کا یہ حقدار ہے۔پاکستا ن فٹ
بال فیڈریشن کا قیام 5 دسمبر 1947 کو عمل میں لایا گیا اور قائد اعظم محمد
علی جناح اس کے چیف پیٹرن بنے۔ستر کی دہائی تک پاکستان نے فٹ بال میں
بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں فٹ بال
کا انفراسٹرکچر بالکل تباہ ہوگیا اور وہ ملک جو عالمی رینکنگ میں تیزی سے
ترقی کرتا ہوا 142ویں پوزیشن تک پہنچا تھا اب194 ویں پوزیشن پر جا ٹھہرا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ شاذو نادر ہونے والے دوستانہ میچز میں بھی معمولی
ٹیمیں ہمیں ہرا دیتی ہیں۔ فیفا کی جانب سے ملنے والی اربوں روپے کی گرانٹ
افسران بالا کی کرپشن کی نذر ہوچکی ہے اور دوسری طرف پاکستان اولمپک ایسوسی
ایشن اور فٹبال فیڈریشن کے درمیان اقتدار کی جنگ نے ملک میں فٹبال کا
مستقبل مزید تاریک کر دیاہے۔
اولمپکس میں پاکستان نے 14بار باکسنگ میں شرکت کی لیکن محدود وسائل اور
معیاری کوچز نہ ہونے کی وجہ سے کئی نامور باکسرز نے بہتر مستقبل کی خاطر
ملک ہی چھوڑ دیا جن میں اولمپک میڈلسٹ حسین شاہ، کامن ویلتھ گیمز گولڈ
میڈلسٹ حیدر علی، عثمان اللہ اور عبدالرشید بلوچ شامل ہیں۔1994ء میں اسنوکر
میں پہلی دفعہ محمد یوسف نے آئس لینڈ کے جونسن کو نو کو شکست دے کرورلڈ
اسنوکر چیمپئن جیتی اس کے اٹھارہ سال بعد محمد آصف نے پاکستان کودوسری دفعہ
اسنوکر کا ورلڈ چیمپئن بنادیا۔ستم ظریفی یہ کہ اس کھیل کی بہتری کے لیے
مزید اقدامات کرنے کے بجائے کھلاڑیوں کے لیے اعلان کردہ انعامی رقم کا وعدہ
بھی تاحال پورا نہیں کیا گیا۔
پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں ملکی حالات ناسازگار ہونے کے
باوجود ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔گزشتہ سال آذربائیجان میں ہونے والے
شطرنج کے عالمی مقابلے میں پاکستان نے پہلی مرتبہ حصہ لے کر کانسی کا تمغہ
جیت لیا۔اسی طرح ٹینس کے اعصام الحق، ایتھلیٹکس کی نسیم حمیداورباڈی بلڈنگ
کے عاطف انور نے بھی عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا لیکن بدقسمتی سے
کھیلوں میں بے پناہ ٹیلنٹ کے باوجود پاکستان میں ان کا مستقبل تاریک ہوتا
جارہا ہے۔اس کے برعکس کرکٹ تیزی سے مقبول ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے دیگر
کھیل نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ایک وقت تھا جب کرکٹ گیم آف جینٹلمین تھی ۔تب
کرکٹ نان کمرشل تھی اس لیے کرکٹرز معمولی معاوضے پر بھی بخوشی کھیل لیتے
تھے۔ آج کرکٹ، سیاست، شوبز، کاروباراور جوا ایک دوسرے لئے لازم و ملزوم ہیں
جو سرمایہ دارانہ کارپوریٹ دنیا کا برانڈ ہے۔جسٹس قیوم ملک کی رپورٹ میں
پاکستانی کرکٹ کے کئی سیاہ ابواب سے پردہ اٹھایا گیا ۔2010 ء میں بھی دورہ
انگلینڈ کے دوران پاکستانی ٹیم کے تین اہم کھلاڑی کپتان سلمان بٹ،محمد عامر
اور آصف سپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے جس کی بدنامی کا داغ ابھی مٹنے نہ
پایا تھا کہ شرجیل خان، خالد لطیف، محمد عرفان اورشاہزیب حسن نے پی ایس ایل
میں میچ فکسنگ کر کے عالمی سطح پر ملک کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا
دی۔پی سی بی کے خزانے میں اس وقت دس ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے جوپی
آئی اے، ریلویزاور سٹیل ملز سمیت دیگر کئی ا داروں سے زائد ہے۔کرکٹ ٹیم کی
حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ورلڈ کپ میں پہلے راؤنڈ سے باہر
ہوجانے کے بعدآسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی
سیریز میں بھی ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ
میں گلیمر اورپیسے کی چکا چوند نے کھلاڑیوں کو سپورٹس مین سپرٹ اور
پروفیشنل اپروچ سے دور کردیا ہے جو کہ ایک دور میں کرکٹ کی اصل پہچان اور
شان رہا ہے۔انگلینڈ کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بھی کرکٹ نہیں
کھیلی جاتی کیوں کہ اس میں وقت کا ضیا ع زیادہ اور ورزش کم ہے۔اگر پاکستان
میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کرنا ہے تو دیگر کھیلوں کو بھی کرکٹ کے
مساوی سہولیات اور حکومتی سرپرستی فراہم کرنا ہوگی۔
کھیلوں کے شعبے میں بہتری کے لیے حکومت کو فوری طور پر معاملات کو اپنے
ہاتھوں میں لے کر کھیلوں میں سفارش کلچر اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے
میرٹ اور احتساب کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ کھیلوں کی پالیسی پر نظرثانی کے
لیے نالائق افسران اور وزیروں کے بجائے مستند کھیلاڑیوں، عالمی سطح کے کوچز
، کھیل سے متعلق دانشوروں اور عالمی تنظیموں کی مدد حاصل کر کے عالمی معیار
کی پالیسیاں مرتب کرنا ہو ں گی۔تمام صوبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی
صوبائی اولمپک ایسوسی ایشن کے ذریعے کھیلوں کی ترویج اور ترقی کیلئے موثر
اور جانداراقدامات کریں۔پاکستان سپورٹس بورڈ اور اولمپک ایسوسی ایشن صرف
نام کے ادارے رہ گئے ہیں انہیں فعال اور جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت
کی زیرِ نگرانی ٹریننگ اکیڈمیاں قائم کی جائیں،کھلاڑیوں کے مسائل کا خاتمہ
کرتے ہوئے انہیں جدید سہولیات فراہم کی جائیں،نئے اسپانسر زڈھونڈے جائیں
اورسرکاری اداروں بشمول اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں کھیلوں کو لازمی
حصہ بنایا جائے۔میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے
فروغ کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے اور عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن
کرنے والے کھلاڑیوں کو قومی ہیروز کا درجہ دیا جائے۔ہاکی کی ترویج کے لیے
نئے سٹیڈیم اور آسٹروٹرف فیلڈز بنائے جائیں جہاں غیر ملکی کوچز کی نگرانی
میں پاکستانی کھلاڑیوں کی تربیت یورپین سٹائل پر کی جائے۔باکسنگ اور فٹبال
کے لیے مشہور لیاری اور دیگر علاقوں میں نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے کیمپ
لگائے جائیں۔اسنوکر کے فروغ کے لیے اولمپکس ایسوسی ایشن کے ساتھ فوری الحاق
کرایا جائے اور کھلاڑیوں کے اعلان کی گئی انعامی رقم کی ادائیگی کر کے ان
کی حوصلہ افزائی کی جائے۔کھلاڑیوں کو مراعات اور ترغیبات دینا بہت ضروری ہے
تا کہ وہ دلجوئی کے ساتھ محنت کرتے ہوئے عالمی سطح پر ملک کی مثبت پہچان کا
باعث بنیں۔
******* |