ملک بھر کی دیگردینی تعلیمی اداروں و جامعات کی طرح
بیس ا پریل 2017 بمطابق بائیس رجب المرجب بروز جمعرات کو بعد از ظہر مادر
علمی جامعہ دارالعلوم سعدیہ کوٹھا ضلع صوابی میں سالانہ جلسہ دستاربندی اور
پانچویں سالانہ ختم بخاری شریف کی تقریب کی روح پرور اور ایمان افروز تقریب
منعقد کی گئی۔تقریب میں ملک بھر کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے جید
علمائے کرام و خطباء خصوصا سعود ی عرب سے ڈاکٹر مولانا قاری عبد الباسط
صاحب، شیخ الحدیث مولانا محمد خان صاحب آف شاہ منصور ، پشاور سے پروفیسر
مولانا خیر البشر صاحب، پنجاب کے علاقہ چچ سے مولانا مفتی محمود الحسن صاحب،
کراچی سے تشریف لائے ہوئے مولانا مفتی یوسف لدھیانی رحمتہ اﷲ علیہ کے تلمیذ
رشید مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب ، مقامی ایم پی اے حاجی شیراز خان ،
جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے ضلعی امیر مولانا مفتی ریاض اعوان ، پروفیسر
مولانا حافظ محمد سلیم صاحب سمیت عوام الناس اور مختلف سیاسی و سماجی اور
مذہبی شخصیات و طلباء کرام و سرپرستان نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
تقریب کی صدارت بانی و مہتمم جامعہ دارلعلوم سعدیہ کوٹھا و جمعیت علماء
اسلام نظریانی کے نو منتخب مرکزی امیر استاد العلماء شیخ القرآن و لحدیث
مولانا خلیل احمد مخلص نے کی۔ جبکہ نظامت کے فرائض جامعہ کے استاد الحدیث
شیخ حبیب اﷲ مختار صاحب نے انجام دیں۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔قاری لطیف شاکر، قاری سجاد ،
قاری علی زمان اور مولاناقاری شہزاد سعیدی اپنے مترنم آوازوں میں نعتیہ
کلام پیش کئے ، جبکہ جامعہ کے طالب العلم حافظ انوار الحق انور نے ختم
بخاری کے حوالے سے اپنی نظم شراکاء کو سنائی۔ جامعہ کے طالب العلم نیاز اﷲ
نے عربی میں تقریر پیش کی۔ مجموعی طور پر 35 طلباء کرام کی دستار بندی کی
گئی۔ جن میں تیرہ علمائے کرام کو افتاء (مفتی کورس ، تخصص فی الفقہ) مکمل
کرنے، سات طلبہ کرام کو دورہ حدیث مکمل کرنے پر ، گیارہ کو حفظ القرآن کریم
مکمل کرنے پر اور چار کو ناظرہ قرآن کریم مکمل کرنے پر دستار بندی کی گئی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا محمد خان صاحب صاحب نے دستار
بندی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ دینی علوم کی تکمیل پر طالب العلم
کا اساتذہ کے ہاتھوں دستار بندی عظیم سعادت ہے ، اور یہ اساتذہ کی جانب سے
اعتما د کی ایک علامت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پگڑی سنت رسول ہے، اور یہ
لباس کا حصہ ہے، اور آپﷺ نے خود اپنے ہاتھوں سے تین صحابہ کرام کو پگڑی
باندھی، حضرت معاذ ابن جبل ؓ کو یمن بھیجتے وقت آپ ﷺ نے انکو زرد پگڑی
بندھوائی، حسان ابن ثابت کو مدح رسول کرنے پر سبز عمامہ پہنوائی، اور آپ ﷺنے
حضرت عبد الرحمان ؓ کو کالی پگڑی پہنائی۔
پشاور سے تشریف لائے ہوئے مہمان پروفیسر مولانا خیر البشر صاحب نے تمہیدی
خطبہ اور پشتو زبان کے اشعار مترنم اور دلسوز آواز میں پڑھنے کے بعد حاضرین
کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مبارک محفل ہے، دینی مدارس ہمیشہ کے لئے
تعلیمی سا ل کے اختتام پر اسی طرح کی تقاریب منعقد کرتے ہیں، انہوں نے مزید
کہا کہ لوگوں کے لئے روئے زمین پر علمائے کرام سے بڑھ کر خیر خوا ہ اور
کوئی نہیں، بعض ناسمجھ عوام کہتے ہیں کہ علمائے کرام کا سیاست میں کیا کام
ہے، علماء تو منبر و محراب کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بڑے فخر سے
کہتا ہوں کہ یہ تو اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ عظمت و
سعادت عالم کو ہی دی ہے۔ انہوں نے باریک نقطہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر غور
کیا جائے تو محراب میں پہلا حرف "میم" ہے، ممبر میں پہلا حرف ـ"میم "ہے ،
مصلیٰ میں پہلا حرف " میم" ہے اور مُلا کا پہلا حرف بھی "میم" ہے ، یہ
تینوں اﷲ تعالیٰ نے ان مُلاوں (علمائے کرام ) کے لئے خاص کئے ہوئے ہے۔
کیونکہ علمائے کرام عوام کے خیر خواہ ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کا
ارشاد ہے۔ اولیاء اﷲ حملۃ القرآن و اصحَابُ الیل
انہوں نے کہا کہ ابتدا سے اختتام تک کی درسی کتب قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے
ہیں۔قرآن وحدیث سے وابسطہ علماء اولیاء اﷲ ہے۔اصل اﷲ تعالیٰ کے دوست اور
پہنچے ہوئے اور عاشق یہی علماء ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان دینی مدارس
میں علماء، حفاظ کرام اور قرآن کریم کے سمجھنے والے ہی تیار ہوتے ہیں۔ اﷲ
تعالیٰ ہمیں ان کی قدردان بنائے اور قدر دانی ہر کوئی سمجھتا نہیں۔ مدارس
اﷲ تعالیٰ کے دین کے قلعے ہیں ، دین کی حفاظت کے قلعے ہیں ، قرآن و حدیث کے
قلعے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس دہشت گردی کے اڈے نہیں ، کافر جتنا
مدارس کی مخالفت کرتے ہیں، اتنا اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہیں۔ ا نہوں نے
کہا کہ دین اسلام میں لچک ہے جتنا دباؤگے اتنا آگے بڑھے گا۔
پنجاب کے علاقہ چچ سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان مولانا مفتی محمود الحسن
صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا دن ختم بخاری کا دن ہے، دنیا میں مختلف
خوشیوں کے مواقع ہماری زندگی میں آتے رہتے ہیں، لیکن ان تمام خوشیوں کے
مقابلہ میں کسی کا بچہ عالم حافظ یا مفتی بن جائے بڑھ کر ہے۔انہوں نے مذید
کہا کہ عالم ، حا فظ، مفتی کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت حتٰی کہ ایٹم بم
بھی نہیں کر سکتی۔
جامعہ کے مہتمم شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد مخلص کی فرمائش پر مولانا مفتی
یوسف لدھیانی رحمتہ اﷲ علیہ کے تلمیذ رشید اور کراچی سے تشریف لائے ہوئے
معزز مہمان حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب نے ختم بخاری پڑھائی۔اس دن
موسم کافی گرم تھی، ختم بخاری شروع ہوتے ہی اچانک ہلکی بوندا باندی سے موسم
یک دم خوشگوار ہو گئی۔ مفتی صاحب نے ختم بخاری پڑھاتے ہوئے فرمایا کہ تین
حصے ہیں۔ ترجمہ الباب، سلسلہ سند، حدیث
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی کتاب الصحیح البخاری کے آخر میں قرآن
کریم کی ایک آیت کو ترجمتہ الباب بنایاہے ۔ ونزع الموازین القسط یعنی (
قیامت کے دن انصاف کے ترازو قائم کئے جائینگے۔) انہوں نے مزید کہا کہ اس
باب کے قائم کرنے کا کیا غرض تھا؟ فرمایا کہ امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
علمائے کرام کے لئے دو باتوں کے قائل تھے، اثبات حق اور ابطال باطل یعنی حق
کو حق ثابت کرنا اور باطل کو باطل ثابت کرنا ،
تو اس باب کو قائم کرکے امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ایک باطل فرقے کی نظریات
کو باطل ثابت کرنا چاہتا ہے، ایک فرقہ تھا جو ظاہری باتوں کو مانتا اور جو
عقل میں نہ آئے اور عقل تسلیم نہ کریں وہ نہیں مانتا تھا، امام بخاری
فرماتے ہیں کہ وحی کی باتیں مانو، عقل کی نہیں ،
جسکا جسم ہو وہ تولا جائے گا اور جسکا جسم نہیں اسکا وزن نہیں کیا جاسکتا،
یہ عقل کاکام ہے ، دوسری جانب وحی کہہ رہی ہے۔ کہ انسان کے اعمال تولے
جائینگے، چاہے جسکا جسم نہ ہو، تو یہاں امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اس فرقے
کی نظریات کا رد کرنا چاہتے ہیں کہ انسانوں کے اعمال اور اقوا ل تولے
جائینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں پر علمائے کرام کو بھی ترغیب ہے کہ
اپنے میں حق کو ثابت کرنے اور باطل کو باطل منوانے کی صلاحیت پیدا کرو۔
انہوں نے کہا کہ باطل نظریات کی مقابلہ کرنے کی صلاحیت علمائے کرام میں
ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ امام محمد رحمتہ اﷲ علیہ اور امام
محمد رحمتہ اﷲ علیہ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے۔ ہمارے لئے بھی یہی تعلیم
ہے کہ ہم حق پر ڈٹے رہیں اور باطل نظریات کا جواب دے سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے فرق باطلہ کے نظریات کا
رد کیا اور ہمیں بھی یہ سبق دیا کہ تم بھی اپنے علم کو پختہ اور مضبوط کر
و، اور دنیائے کفر کے ساتھ دلائل سے لڑو۔
انہوں نے مزید کہا کہ قیامت کے دن اعما ل تولے جائینگے، تو اس وجہ سے کسی
بھی مسلمان کو وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ تمام اعمال و اقوال تولے جائینگے،
اس وجہ سے غفلت کی زندگی چھوڑ دو، اور ہر عمل اور قول سے پہلے سوچو ! کہ
قیامت کے دن جب میرے اعمال جب تولے جائینگے تو فائدہ ہوگا یا نقصان؟
مولانا مفتی ممتاز صاحب دامت برکاتہم نے مزید فرمایا کہ قیامت کے دن اعمال
کی گنتی نہیں ہوگی بلکہ اعمال تولے جائینگے، کہ ان اعمال میں وزن کتنا ہے؟
تو امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ اعمال میں وزن بڑھانے
والے افعال کو اختیار کرو۔ اور اعمال میں وزن بڑھانے والے کام دو ہیں۔
نمبر ۱: اخلاص : اگر اخلاص ہو تو وزن ہوگا نہیں تو اعمال میں وزن نہیں ہوگا۔
نمبر ۲: تمھارا ہر عمل شریعت کے مطابق ہونا چاہیے، اگر ہر عمل شریعت کے
مطابق ہو تو اعمال میں وزن ہوگا اگر نہیں تو وزن نہیں ہوگا۔
انہوں نے فرمایا کہ ہر عمل سنت نبوی اور شریعت محمدی کے مطابق ہونا
چاہیے۔ایک جم غفیر اوربڑی تعداد میں لوگ ان دونوں پر عمل کرکے گزرے ہیں۔ان
پر عمل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین،
ائمہ مجتہدین رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ کا ایک بڑا قافلہ گزر چکا ہے۔
انہوں نے بطور نمبونہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ کہ ہارون رشید ایک دن
اداس تھا، خادم سے کہا کہ فضیل بن عیاض کے پاس چلتے ہیں،
ملاقات کے لئے اجازت ما نگی تو فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ بادشاہ سے ملاقات
کے لئے وقت نہیں، کچھ دیر بعد پھر اجازت مانگی کہ ملاقات کے لئے تھوڑا وقت
دیدو، اجازت نہیں ملی، پھر تیسری بار اجازت مانگی کہ میں اولِی الامر ہو۔
آیت سنی تو فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ ابھی میں اطیعو اﷲ سے فارغ نہیں ہوا،
خادم نیوقت دینے کی سفارش کی، تو فضیل بن عیاض نے دنیا کی بے ثباتی کی
حدیثیں سنائی۔ کہ یہ سب ہمیشہ کے لئے نہیں ، تمھاری بادشاہی ساری عمر نہیں
رہیگی۔اﷲ تعالیٰ کے پاس جانا ہوگا۔ ہارون رشید زادو قطار رو رہے تھے۔
ملاقات کے بعد اشرفیوں کا ایک بھرا تھیلہ بھیجا تو فضیل بن عیاض نے واپس کر
کے فرمایا کہ جس دلدل سے ہم تمھیں نکال رہے ہیں تم ہمیں اس میں دھکیل رہے
ہو۔ بیوی نے عرض کیا کہ تین دن سے گھر میں فاقے چل رہے ہیں ، قبول کر لیتے
، فرمایا اگر میں قبول کر لیتا تو میری تبلیغ کا اثر نہ رہتا۔
تو اخلاص سے عمل میں وزن آجاتی ہے، کوئی کام سنت کے خلاف نہ ہو۔
دوسرا واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ جنید بغداد ی رحمتہ اﷲ علیہ کی
خدمت میں ایک شخص دس برس رہے۔ جب جانے لگے تو جنید بغدادی نے پوچھا میرے
پاس کیا دیکھا انہوں نے کہا کہ کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ جنید بغدادی نے کہا
کہ تم نے میری کوئی کام خلاف سنت دیکھی، کہا کہ نہیں، تو جنید بغدادی رحمتہ
اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس سے بڑ ا اور کیا کرامت ہو سکتی ہے کہ تم نے دس سال
میں میری کوئی کاکام خلاف سنت نہیں دیکھی۔
انہوں نے نہایت درد بھری انداد میں فرمایا کہ ایک زمانہ تھا لوگ سمجھتے
تھے، جان دینے کو تیار تھے لیکن سنت چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔انہوں نے کہا
داڑھی سنت رسول ﷺ ہیں، عصبیت، لسانیت ، ذلالت و گمراہی سے نکلنا ہوگا۔سنت
کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔
مولانا مفتی محمود الحسن صاحب نے اجتماعی دعا کروائی ۔ جبکہ جامعہ کے مہتمم
مولانا خلیل احمد مخلص نے تمام آنے والے شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا
کیا۔اور شراکاء کی ضیافت کی گئی۔ |