تودل میں توآتاہے،سمجھ میں نہیں آتا

آج امت مسلمہ کی زبوں حالی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ جھوٹ سچ سے اور کھوٹا کھرے سے بالکل پیوست نظر آتا ہے۔جس طرح علم ظاہر کے حامل علمائے حق کی صفوں میں علمائے سوداخل ہو چکے ہیں ، اسی طرح علم باطن کے حامل مشائخ حق پرست کے بھیس میں نفس پرست لوگ شامل ہو چکے ہیں۔ عوام الناس کی روحانی اور باطنی تنزلی کی انتہا یہاں تک ہو چکی کہ ایک طبقے نے بیعت طریقت کو لازم قرار دے کر فرائض کے ترک کرنے اور شریعت اور طریقت کو الگ الگ ثابت کرنے کا بہانہ بنا لیا ۔ ضلو ا فا ضلوا خود بھی گمراہ .ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا

ان حالات میں یہ فیصلہ کیاکہ تصوف کی حقیقت کوآشکاراکیاجائے اور عوام الناس کوگمراہ کرنے والے افراد کاقلعہ قمع کیاجائے چنانچہ ایک مختصر مضمون حاضر خدمت ہے یہ پہلامضمون ہے جو میں نے تصوف پہ لکھاہے قلم کواٹھایااور سوچوں میں گم ہوگیاصوفیاء کرام کی مجالس کی تلاش میں نکل گیااﷲ والوں کی محافل میں سکون ملاصوفیاء کرام کی کی کمال اورجمال والی گفتگودل میں جگہ کر گئی ایک بزرگ سے میں نے پوچھاکہ جناب تصوف کانام سناہے ذرااس کی وضاحت فرمادیں فرمایاکہ تصوف ایک خاص رجحان کانام ہے ،یہ وہ اشتیاق ہے جو ایک صوفی کے دل ودماغ میں خداسے ملنے کے لیے اس شدت کے ساتھ موجزن ہوتاہے کہ اس کی پوری عقلی اور جذباتی زندگی پرغالب آجاتا ہے۔جس کالازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صوفی اسی (خدا)کواپنامقصودِحیات بنالیتاہے اور تمام مظاہرِفطرت اور مناظرِقدرت میں خداکاجلوہ کرتاہے۔اس لحاظ سے تصوف کو کسی ایک قوم یا علاقے سے وابستہ قرار نہیں دیاجاسکتابلکہ اس کی حیثیت عالمگیر ہے۔چونکہ تصوف مذہب کی روح ہے اس لیے یہ ہر قوم میں کار فرمارہاہے۔اسلام میں بھی تصوف کاآغازحضور نبی کریم ﷺنے خانقاہِ صفہ کی بنیادرکھ کر کیا۔چوتھی صدی تک اسلامی تصوف مختلف مراحل طے کرکے ایک اہم موضوع کی حیثیت اختیارکرگیا۔
لفظ صوفی کے اشتقاق کے بارے میں مختلف آرا ہیں

پہلی رائے: تصوف صوف سے مشتق ہے اوراہلِ تصوف صوفیا چونکہ صوف کا لباس پہنتے ہیں اس لیے صوفی کہلاتے ہیں۔
دوسری رائے :تصوف صف سے مشتق ہے،اسی لیے صوفیا صفِ اول کے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔
تیسری رائے:تصوف اور صوفی کی نسبت اصحابِ صفہ سے ہے اسی لیے سریت کو تصوف کہا جاتا ہے۔
چوتھی رائے: تصوف اسمِ صفا سے مشتق ہے اور صوفی صفائے باطن پرزور دیتا ہے۔
صوفیانہ تعریفات
1:حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں:
"الصوفی اذانطق بان نطقہ من الحقائق وان سکت نطقت عندالجوارح بقطع العلائق(کشف المحجوب:23،24 )
صوفی جب لب کشا ہوتا ہے تو اس کا کلام اس کی حقیقتِ حال سے عیاں ہوتا ہے اور جب خاموشی اختیار کرتا ہے تو اس کے اعضا بھی ترکِ دنیا کا اعلان کر تے ہیں
2:حضرت جنید بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
التصوف نعت اقام العبد فیہ قیل نعت للعبد ام للحق فقال نعت الحق حقیقتا ونعت العبد رسما کشف المحجوب:23)،(24
تصوف ایک صفت ہے جس میں بندہ قائم ہے،کسی نے سوال کیا یہ صفت بندے کی ہے یا خداکی؟ فرمایاحقیقت میں خدا کی اوربظاہربندے کی صفت ہے۔
3:حضرت ابوالحسن نوری رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں:
التصوف ترک کل حظ للنفس (کشف المحجوب:23،24 )
تصوف تمام نفسانی خواہشات کو ترک کر دینے کا نام ہے
آپ ہی کا ارشادِ گرامی ہے:
الصوفی الذی لا یملک ولا یملک (کشف المحجوب:23،24)
صوفی وہ ہے کہ کوئی شے اس کے قبضہ میں نہ ہواورنہ وہ خودکسی(غیراﷲ)کے قبضہ میں ہو۔
4۔حضرت محمدبن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب کا ارشادِ گرامی ہے
التصوف خلق فمن زاد علیک فی الخلق زاد علیک فی التصوف
تصوف حسنِ اخلاق ہے،پس جو شخص حسنِ اخلاق میں تجھ سے زیادہ ہے وہ تصوف میں بھی تجھ سے برتر ہے( کشف المحجوب:23،24)
اصولِ تصوف:تصوف کے بنیادی اصول جو ہر ملک وقوم کے تصوف میں یکساں طور پر مسلم ہیں،یہ ہیں۔
1۔حقیقت واحدہ ہے،صرف ایک ہے،لاشریک ہے،وحدِ مطلقہ ہے،اسی کو صوفیالحق سے تعبیر کرتاہے۔وہ بے نیاز ہے اور اس کی ہمسری کاامکان بھی نہیں کیاجاسکتا۔
2۔یہ حقیقتِ واحدہ،زبان اور بیان،تحریر اور تقریر کی گرفت سے باہر ہے۔ہم اسے بذریعہ الفاظ بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی عقلِ انسا نی کی حدود میں مقید کرسکتے ہیں۔بقول کسے کہ
؂تودل میں توآتاہے،سمجھ میں نہیں آتا
پس جان گیا میں ،تیری پہچان یہی ہے

تصوف کی بنیاد:
محمداقبال فانیـ ـؔ صاحب لکھتے ہیں کہ تصوف سراسرحسنِ اخلاق،عبادت،خشوع وخضوع،سادگی،جہاد بالنفس،توکل،استغنا،ذکرو فکر،لقاِ رب کی آرزو،ریاضت،مراقبہ،طاعت شعاری،عشق ومحبتِ الہی اور رغبت الی اﷲ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیادآٹھ چیزوں پر ہے۔
التصوف مبنی علی ثمان خصال السخا والرضا والصبروالاشار والغرب ولبس الصوف والسیاح والفقر؛اماالسخا فلابراہیم واماالرضا فلاسمعیل واما الصبرفلایوب واماالاشارفلزکریاواماالغرب فلیحیی واما لبس الصوف فلموسی واما السیاح فلعیسی واماالفقر فلمحمدصلی اﷲ علیہ وسلم وعلیہم اجمعین( کشف المحجوب :25)
تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے،یعنی سخاوت،رضا،صبر، اشارہ،غربت،صوف پوشی،سیر اورفقر؛لیکن سخاوت ابراہیم سے اوررضا اسماعیل سے اورصبر ایوب سے اوراشارہ زکر یا سے اورغربت یحیی سے اورصوف پوشی موسیٰ سے اور سیاحت عیسیٰ سے اور فقر حضور سے ۔
الغرض تصوف کی بنیاد دین اسلام کی تعلیمات کے مغز اور نچوڑ پر قائم ہے۔جن پر ایک صوفی ہر حال میں عمل پیرا ہوتا ہے۔حضرت ابوحفص نیشا پوری کا ارشاد ہے:
التصوف کلہ ادب لکل وقت ادب ولکل مکان ادب ولکل حال ادب وفمن لزم آداب الاوقات بلغ مبلغ الرجال ومن ضیع الآداب فہو بعید من حیث یظن القرب ومردود من حیث یظن القبول(کشف المحجوب:27)

تصوف سارے کا ساراادب ہے،کیونکہ ہر وقت،ہرمقام اورہرحال کے لیے ایک ادب ہے، جو کوئی آداب بجالانا اپنے اوپرلازم قرار دے لے،اس کی رسائی اﷲ والو ں کے مقام پر ہوجاتی ہے،جو شخص آداب کو ضائع کردیتا ہے،وہ اس اعتبار سے کہ اپنے آپ کونزدیک خیال کرتا ہے ،دورہوتا ہے اور اس حیثیت سے مردود ہوتا ہے کہ اپنے آپ کومقبول خیال کرتا ہے ۔

بزرگوں کی مجالس میں جاناان کے ہاتھوں میں اپناہاتھ دیناآج کے اس دور میں انتھائی ضروری ہے نوجوان نسل خصوصاًصوفیاء کرام کے دامن کوتھامے کیونکہ آج کاپُرفتن دور ہے اس دور میں اپنے آپ کوگناہوں سے بچانے کے لیے اپنے آپ کوکسی اﷲ والے کے سپرد کرناہوگاوہ آپ کے معالج بن جائیں گے اورآپ کی روحانی بیماریوں کے لیے مختلف قسم کی ترکیبات وعلاج کرتے رہیں گے جس سے آپ کی روح کوتسکین ہوگی اﷲ پاک ہمیں صوفیاء کرام کی صحبت عطا فرمائے (آمین)
 

Tariq Noman
About the Author: Tariq Noman Read More Articles by Tariq Noman: 70 Articles with 95343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.