سال کے دنوں میں اور راتوں میں پندرہویں شب کی مقدس رات
’شب برأت اور پندرہواں دن بڑ ی برکت والاہے امت محمدیہ پر اﷲ عزوجل کاکرم
خاص ہے کہ اس نے شب برات جیسی نورانی رات سے سرفراز فرمایا ،یہ رات ہر سال
آتی ہے اور چلی جا تی ہے لیکن کتنے غافل اور کاہل ایسے ہیں جو اس کی قدر
نہیں کرتے اور سو کر پوری رات گزار دیتے ہیں اور ان سے بھی بد تر وہ ہیں جو
اس مقدس رات کو کھیل تماشوں اور لغویات میں گذار دیتے ہیں۔ ہاں بڑے خو ش
نصیب اور نیک بخت ہیں وہ اﷲ کے اطاعت شعاربندے جواس کی رحمت بھری اورنور
نکہت میں ڈوبی ہوئی شب کوقدر منزلت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کی مقدس اور
رحمت بھری بار گاہ سے برکت و نور کی خیرات مانگتے اور اپنے گنا ہوں
پرپشیمان اور شرمندہ ہوکر تو بہ واستغفار کرتے ہیں۔ مساکین و غربا پر صدقات
و خیرات بھی کرتے ہیں، اقربا و احباب کو تحائف سے بھی نوازتے ہیں اور ساتھ
ہی شہر خموشاں میں آرام کر نے والے مر حومین و متعلقین کو بھی نہیں بھولتے،
ان کے لئے فاتحہ وایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں، یقینا زندوں کے ساتھ اس
دنیا ئے فانی سے کو چ کر نے والے ہمارے بھائی بھی ہمارے احسان وکرم اور
امداد ونصرت کے مستحق ہیں لہٰذا مبارک راتوں اور مقدس ایام میں انھیں ضرور
یا د کرنا چا ہئے ۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ اگر تم میں کو ئی اپنے بھا ئی
کو نفع پہنچا سکتا ہو تو پہنچائے۔ (مسلم شریف)اور صدقہ، تلاوت قرآن نیز ذکر
خیر کا ثواب اگر کسی مرحوم کو پہنچا ئے تو یقینا ان کو پہنچ جاتا ہے ۔اور
ان کا فائدہ ان کو ملتا ہے اس پر احادیث کثیرہ شاہد ہے ،امت مسلمہ میں کو
ئی بھی اس کا منکر نہیں اور جو منکر ہے یقینا گمراہ اور مسلمانوں کا بد
خواہ ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ اس مبارک شب میں بنو کلب کی بکریوں کے بال سے
زیادہ گنہگار وں کی اﷲ تعالیٰ بخشش فرماتا ہے ۔
روحوں کی آمد
فتاویٰ امام نسفی کے حوالہ سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ مسلمانوں کی روحیں ہر
جمعہ کو رات اور دن میں اپنے گھر وں کو آتی ہیں اور دروازے کے پاس کھڑی ہو
کر درد ناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میر بچو! اے میرے
عزیزو!ہم پر صدقہ سے مہربانی کرو ہمیں یاد کرو، بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی
میں ہم پر ترس کھاؤ۔ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے جب عید یا
جمعہ یا عاشورے کا دن یا شب برات ہوتی ہے۔ اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں
کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے، ہے کوئی کہ
ہم پر ترس کھائے،ہے کوئی جو ہماری غربت کو یاد دلائے۔’ کشف الغطاء‘ میں ہے
کہ مومنین کی روحیں اپنے گھروں کو آتی ہیں اور ہر جمعہ کی رات اور عید کے
دن اور عاشورا کے دن اور شب برات میں اور اپنے گھروں کے پاس کھڑی غم گین ہو
کر آواز دیتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے فرزندو!اے رشتہ دارو! ہمارے اوپر
صدقہ کر کے مہربانی کرو۔(ترجمہ وخلاصہ ازفتاویٰ رضویہ ۲۳۱/۴ ) لہٰذا ان
مبارک راتوں اور دنوں میں اور خاص کر شب برات میں اپنے مرحومین کے لیے صدقہ
وایصال ثواب کا اہتمام کروجوکہ بالکل درست وجائز ہے اور مسلمانوں میں شب
برات کے موقع پر صدقہ وخیرات اور فاتحہ کا جو رواج ہے وہ محض رواج نہیں
بلکہ دلائل سے اس کا ثبوت بھی ہے اسے بدعت کہنا سراسر غلط ہے۔
دعاؤں کی مقبولیت
شب برات کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ اس میں دعائیں مقبول ہوتی ہیں
لہذا جملہ دینی ودنیاوی مقاصد پر مشتمل دعائیں اس مبارک شب میں مانگنی
چاہیئے۔ اسی لیے علمانے اوقات اجابت یعنی مقبولیت دعا کے اوقات میں شب برات
کو بھی شمار دفرمایا ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس
سراہ العزیز حاشیہ احسن الوعاالا داب الدعا۔ میں تحریر فرماتے ہیں ۔رجب کی
چاند رات ،شب برات،شب عید الفطر ، شب عیدا لاضحیٰ یعنی یہ راتیں بھی
مقبولیت کے لیے خاص ہیں۔ پھر ابن عساکر کی یہ حدیث نقل فرمائی۔حضرت ابو
امامہ باہلی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے
ہیں ۔پانچ راتیں ہیں کہ ان میں دعا رد نہیں کی جاتی ،رجب کی پہلی رات،
شعبان کی پندرہویں رات (شب برأت) جمعہ کی رات،عیدالفطر کی رات اور نحر یعنی
بقر عید کی رات(دسویں ذی الحجہ کی شب)لہٰذا اس مبارک شب میں چاہیئے کہ کثرت
سے دعائیں مانگیں ،خدائے کریم کی بارگاہ میں اپنی اپنی حاجتیں پیش کریں،
اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں اور سب سے اہم یہ کہ ایمان پر خاتمے کی دعا
مانگیں ۔
زیارت قبورکا اہتمام
قبروں کی زیارت کو جانا سنت ہے سرکار دوعالم ﷺ نے قبروں کی زیارت کی ہے اور
اس کا حکم بھی دیا ہے اور اس کے فوائد وبرکات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ چند
حدیثیں ملاحظہ ہوں۔( ۱)حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ،رسول
اﷲ ﷺ نے فرمایا: میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کیا تھا اب قبروں کی زیارت
کرو، اس لیے کہ وہ دنیا سے بے رغبت کرتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں (
ابن ماجہ)۔( ۲) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے بھی امام مسلم کی ایک
روایت میں ہے اب قبروں کی زیارت کرو، اس لیے کہ قبر یں موت کو یاد دلاتی
ہیں۔اس پر اجماع ہے کہ قبروں کی زیارت مردوں کے لیے سُنّت ہے اب رہا یہ کہ
کیا عورتوں کے لیے مکروہ ہے ؟تو اس میں دو قول ہیں، اکثر علما نے کراہت کا
حکم دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ مکروہ نہیں، مگر یہ اس وقت ہے کہ فتنے کا
خوف نہ ہو۔اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ فرماتے ہیں۔اصح یہ ہے کہ عورتوں
کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ۱۶۵/۴) اور فرماتے ہیں
عورتوں کو زیارت قبور منع ہے حدیث میں ہے ۔ اﷲ کی لعنت ان عورتوں پر جو
قبروں کی زیارت کو جائیں۔(ابن ماجہ)
٭٭٭ |