بہت ہی عزت اور احترام کے ساتھ، میں پاکستان کے ایک شہری
کے طور پر آپ کو لکھنے کی آزادی لے رہا ہوں، میں آپ کی توجہ حاصل کرنے کی
کوشش اس لئے کر رہا ہوں کیوں کہ آپ پاکستان کی معزز اعلیٰ ترین عدالتی
اتھارٹی ہیں، جو نا انصافیوں سے نمٹنے کے لئے اورانصاف فراہم کرنے کے لئے
فرض اور حلف کے تحت پابندہے ۔
لہٰذا بہت ہی احترام کے ساتھ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ میں مظہر حسین (قلمی
نام: مظہر ابڑو) پیشےکے لحاظ سے ایک کالج ٹیچراور جذبہ کی طرف سے ایک مصنف
ہوں. ادبی دنیا میں اپنی شناخت کے طور پر معروف سندھی افسانہ نگار، ناول
نگار، کالم نگار، شاعر اور ٹی وی ڈرامہ لکھاری پہچانا جاتا ہوں۔. کئی
کتابیں، کالم، مضامین اور ٹی وی ڈرامںر میرے ادبی کریڈٹ پر ہیں. میری ادبی
خدمات کے اعتراف کے طور مجھے پاکستان کیکئی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے
کئی گنا ایوارڈ سے نوازا نوازا گیا ہے ، ایک مثال کے طور پر مجھےپاکستان کے
معروف ادبی ادارے"اکادمی ادبیات پاکستان"اسلام آباد کی طرف سے "شاہ
عبداللطیف بھٹائی قومی ایوارڈ" دیا جا چکا ہے. اس لمحے تک میری سات معیاری
کتابیں شائع ہوچکی ہیں، اور پانچ نئی کتابیں اشاعت کے لئے تیار ہیں.
گزشتہ دو سالوں سے میں سینکڑوں ثبوتوں کے ساتھ یہ شکایات کئے جا رہا ہوں کہ
تعلیمی بورڈ سکھر کرپشن کی تمام حدیں پار کر چکا ہے. یہاں پوزیشنیں اور ٹاپ
گریڈ کالج پروفیسروں، بااثر افراد کے بیٹوں اور بیٹیوں کو فروخت کیئے جاتے
ہیں، اور حقیقی نتائج مسخ کرکے غریبوں کے ذہین بچوں کو ان کے حقوق سے محروم
کیا جاتا ہے۔ مستحق طالب علموں، بے بس اور ذہین طلباء کو مارکس کے بیوپار
میں ملوث کرپٹ عناصرکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے. ان کے مستقبل کو
پاؤں تلے کچل دیا جاتا ہے۔مارکس فروخت کرنے والی مافیا کی سربراہی چیئرمین
بورڈ کیا کرتے ہیں۔اور کنٹرولر عبدالسمیع سومرو کی ان کے ساتھ شراکت ہے۔ آپ
کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ملک کے اس حصے میں تعلیم صرف نام نہاد اعلیٰ
طبقے کےلئے کارآمد ہے.. ویسے توتعلیم کو تبدیلی کاسب سے زیادہ طاقتور
ہتھیار سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ ہتھیار غریبوں کے بچوں سے چھین لیا جاتا ہے
۔ یہ ہمارے لئے کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ قوانین ساز یہاں قواعد بریکر
ہیں. ہمارے اداروں کے سربراہ خود ہی ہمارا نظام تباہ کرنے کیلئے غیر اخلاقی
اور شرمناک سرگرمیوں میں ملوث ہیں. مندرجہ بالا حالات کی روشنی میں ، میں
نے تمام اعلیٰ حکام کو عرضیاں بھیجی ہیں۔. پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی
میری شکایات پر نوٹس لیتے ہوئے حکومت سندہ کو تادیبی اور قانونی کارروائی
کے لئے لکھاہے، لیکن کوئی بھی تعلیمی بورڈ سکھر کے کرپٹ عہدیداران کے خلاف
کاروائی کرنے کو تیار نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ چیئرمین بورڈ سید غلام مجتبیٰ شاہ
صاحب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ صاحب کے چھوٹے
بھائی ہیں.
میں یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ چیئرمین سکھر بورڈ کے طور پر سید غلام
مجتبی شاہ کی تقرری سراسرغیر قانونی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک
فیصلے کی واضح طور پر خلاف ورزی ہے. پیٹیشن نمبر 89 / 2011کی ججمینٹ کے
مطابق معزز سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت سندھ کو حکم دیا ہے کہ "دوبارہ
ملازمت" کی بنیاد پر کام کرنے والے تمام کنٹریکٹ افسران کو فارغ کیا جائے
اور”او۔پی۔ایس“ اپنی تنخواہ اسکیل کی چھتری کے تحت کام کرنے والے تمام
افسران کو اپنے اصل عہدوں پر واپس بلایا جائے۔ لیکن افسران کی ایک بڑی
تعدآج بھی کئی محکموں میں دوبارہ ملازمت اور ”او۔پی۔ایس“ بنیاد پرغیرقانونی
سرکاری عہدوں کے مزے لوٹ رہے ہیں. سید غلام مجتبی شاہ چیئرمین سکھر بورڈ
اور عبدالسمیع سومرو کنٹرولر امتحانات سکھر بورڈ اس کی ایک جیتی جاگتی مثال
ہیں۔. یہ وزیر اعلی ٰ سندہ سید مراد علی شاہ اور دیگر صوبائی حکام کے ساتھ
منسلک رہے ہیں اور غیر قانونی طور پر ان کے اختیارات کی مشق جاری رکھے ہوئے
ہیں.
میری شکایات کا نوٹس لینے کے بجائے تعلیمی بورڈ سکھر کے کرپٹ عہدیداران کی
طرف سے مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ مجھے ذہنی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے.
میری آواز کو خاموش کرنے کیلئے انہوں نے میرے اور میرے خاندان کے خلاف
انتقامی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں انہوں نے میرے
خلاف کچھ جھوٹے مقدمات بھی درج کرائے ہیں.”چور مچائے شور“ کی کہاوت کے
مطابق چیئرمیں سکھر بورڈ مجتبیٰ شاہ نے اپنے بھائی اپوزیشن لیڈر سید خورشید
شاہ صاحب کا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے ساری کی ساری سرکاری مشینری کو
میرے خلاف مشتعل اور سرگرم کر دیا ہے۔ سیاسی اثر رسوخ ہونے کی وجہ سے قانون
ان کی مٹھی میں ہے، افسر شاہی ان کے دسترخوان کی مکھی ہے، میں ایک غریب
آدمی ہوں جس وجہ سے قانون تک رسائی میرے بس کی بات نہیں۔ مجھے بہت ذہنی اور
نفسیاتی اذیت سے گذرنا پڑ رہا ہے۔ لگتا ہے میں جنگل میں بھیڑیوں کے نرغے
میں آگیا ہوں۔ مجھے مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور میری ملازمت
کو نقصاں پہنچانے کی دہمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کرپشن
کرنے والوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے پر
میں مصیبت میں مبتلا ہو چکا ہوں۔
لہذا، میری آپ سے شائستہ اپیل ہے کہ مندرجہ بالا واقعات کے خلاف از خود
نوٹسلیا جائے۔
مجھےبہت بڑا اعتماد ہے کہ آئین اور انصاف جلد غالب کیا جائے گا.
(مظہر ابڑو)
خیرپور میرس، سندھ.
|