ابوعدنان سعیدالرحمن بن نورالعین سنابلی
دجال کے فتنے:
دجال کو اللہ تعالیٰ نے بہت سارے اختیارات دیئے ہوں گے جس سے کمزور ایمان
لوگ اس کے فتنے کا شکار ہوجائیں گے، لیکن مضبوط ایمان کے مالک حضرات کبھی
بھی اس کے فتنے میں نہیں آئیں گے بلکہ اس کو پہچان لیں گے اور عیسیٰ علیہ
السلام کے ہمراہ اس سے جہاد کریں گے۔
دجال کی مشہور شرانگیزیوں اور فتنہ پردازیوں میں کچھ درج ذیل ہیں:
۱-
دجال کے پاس تمثیلی جنت اور جہنم ہوگی:
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:'' دجال بائیں آنکھ کا کانا ہوگا۔ اس کے بال گھنگھرالے ہوں گے۔ اس
کے ساتھ جنت و جہنم ہوں گی، اس کی جنت درحقیقت جہنم اور جہنم درحقیقت جنت
ہوگی''۔
(صحیح مسلم؍2934)
۲-
دجال کے ساتھ پانی کی دو نہریں ہوں گی :
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے
بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ
اور پانی کا نہر ہوگا؟ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:''بلکہ
وہ اللہ تعالیٰ پر اس سے بھی زیادہ آسان ہے''۔
(صحیح بخاری؍7122، صحیح مسلم؍2939)
سنن ابوداود؍4244میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر دجال ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ
نہر بھی ہوگی اور آگ بھی جو آگ میں داخل ہوگیا تو اس کا اجر ثابت ہوگیا،
اور اس کے گناہ معاف ہوگئے اور جو نہر میں داخل ہوگیا تو اس کا گناہ واجب
ہوگیااور اس کا اجر ختم ہوگیا''۔ (اسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
۳-
دجال کے حکم سے بارش ہوگی اور زمین اپنے خزانے نکالے گی:
نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دجال کا تذکرہ اس طرح سے آیا ہے
کہ صحابہ کرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ زمین میں کتنے دنوں تک رہے گا؟
آپ نے فرمایا:''چالیس دن، ایک دن سال کے برابر ہوگا، ایک دن مہینے کے
برابر ہوگا،ایک دن ہفتے کے برابر ہوگا اور باقی دن عام دنوں کے برابر ہوں
گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: زمین میں اس کی تیز رفتاری کتنی ہوگی؟
فرمایا:''اس بارش کی طرح جس کے ساتھ ہوا بھی ہو، پھر وہ لوگوں کے پاس پہنچے
گا اور دعوت دے گا، لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں
گے۔اس کے بعد وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا
اور زمین کو حکم دے گا تو وہ سبزہ اگائے گی۔ان کے جانور جب ان کے پاس لوٹیں
گے تو ان کے کوہان بڑھ چکے ہوں گے اور تھن خوب بھرے ہوئے ہوں گے، کولہے
چوڑے ہوگئے ہوں گے، پھر وہ لوگوں کے پاس آئے گااور انہیں دعوت دے گاتو لوگ
اس کی دعوت کو رد کردیں گے تو وہ ان کے پاس سے واپس لوٹ جائے گااور لوگ قحط
زدہ ہوجائیں گے۔ان کے ہاتھوں میں کچھ بھی مال نہیں بچے گا،اس وقت دجال
ویرانے سے گزرے گا تو اس سے کہے گا اپنا خزانہ نکال تو اس کے خزانے شہد کی
مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔۔۔۔۔
(صحیح مسلم)
۴-
اللہ تعالیٰ اسے اتنی طاقت دے گا کہ وہ زندہ لوگوں کو قتل کرے گا اور پھر
انہیں زندہ بھی کردے گا:
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ جس شخص کو دجال قتل کرے گا وہ بہترین لوگوں میں سے ہوگا۔رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہریعنی مدینہ سے دجال کی طرف نکلے گا، پھر وہ
دجال سے کہے گا:میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے
میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاہے۔اس وقت دجال کہے
گا:لوگو!اگر میں اس شخص کو قتل کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردوں تو کیا پھر
بھی تم لوگوں کو میرے بارے میں کچھ شک رہ جائے گا؟ تو وہ کہیں گے:نہیں،
چنانچہ وہ اسے قتل کردے گا پھر وہ اسے زندہ کرے گا تب وہ کہے گا: اللہ کی
قسم! مجھے آج سے زیادہ کبھی تیرے بارے میں بصیرت حاصل نہیں تھی،چنانچہ پھر
سے دجال اسے قتل کرنا چاہے گامگر اب ایسا نہیں کرسکے گا۔
(صحیح بخاری)
۵-
شیطان بھی دجال کا معاون ہوگا، چنانچہ وہ دجال کے کہنے پر مردوں کی شکل
اختیار کریں گے: ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''دجال کا ایک بڑا فتنہ یہ ہوگا کہ وہ ایک بدوی
اور دیہاتی انسان سے کہے گا کہ اگر میں تیرے والدین کو زندہ کردوں تو کیا
تم مجھے اپنا رب تسلیم کرلوگے؟ دیہاتی کہے گا:ہاں۔ چنانچہ دو شیطان دیہاتی
کے والدین کی شکل اختیار کرلیں گے اور اس سے کہیں گے: بیٹے! تم اس کی بات
مان لو کیونکہ یہی تمہارا رب ہے۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال
کا فتنہ انتہائی سنگین ہوگا اوراللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر اتنے خوارق پیدا
فرمادے گا کہ کمزور ایمان والوں کی عقلیں مبہوت ہوجائیں گی اور وہ حیران و
ششدر ہوجائیں گے اور پھر مسیح دجال کے فتنہ کا شکار ہوجائیں گے۔ اس کے
برعکس مضبوط ایمان والوں کا عالم یہ ہوگا کہ وہ جس قدر خوارق پیدا فرمائے
گا: اہل ایمان کو اسی قدر یقین ہوتا چلاجائے گا کہ یہ شخص وہی دجال ہے جس
سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امتیوں کو ڈرایا ہے اور انہیں
ہوشیار کیا ہے۔ دجال کے خروج کے وقت مسلمانوں کو اس کا سامنا نہ کرنے کی
ہدایت: سابقہ سطور میں یہ بات بیان کی گئی کہ علی الاطلاق دجال کا فتنہ
کائنات کا سب سے سنگین اور عظیم فتنہ ہوگا۔ اس سنگینی کا عالم یہ ہوگا کہ
تمام مسلمان اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ لیں گے۔ چنانچہ ام
شریک رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:''لوگ دجال کے خوف سے پہاڑوں میں چلے جائیں گے۔ ام شریک رضی اللہ
عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن عرب مسلمان کہاں
ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ان کی تعداد کم ہوگی۔
(صحیح بخاری؍7121)
یہی وجہ ہے رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے خروج کے وقت مسلمانوں
کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ اس کے سامنے جانے سے گریز کریں۔ چنانچہ عمران
بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:''جو شخص دجال کی خبر سنے تو وہ اس سے دور ہی رہے۔ اللہ کی قسم! ایک
انسان اس کے پاس آئے گا اور وہ سمجھ رہا ہوگا کہ اس کا ایمان پختہ ہے لیکن
اسے جو شکوک و شبہات پر مبنی چیزیں دے کر بھیجا گیا ہے،انہیں دیکھ کر وہ
بھی دجال کی پیروی کرنے لگے گا''۔
(سنن ابوداود؍4319، صحیح الجامع؍6301)
دجال کے پیروکار:
جب ہم احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے پیروکار
یہودی ہوں گے، کیونکہ دجال خود یہودیوں میں سے ہوگا۔انس بن مالک رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اصبہان
کے یہودیوں میں سے سترہزار لوگ دجال کے ساتھی ہوں گے، ان پر سبز رنگ کی
چادریں ہوں گی‘‘۔ (صحیح مسلم؍2944)
بعض حدیثوں میں دجال کے ان پیروکاروں کی صفات بھی وارد ہیں کہ ان کے چہرے
چمڑے کی ڈھالوں کی طرح ہوں گے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’دجال کے پیروکار ایسے لوگ ہوں گے جن
کے چہرے چمڑے منڈھی ہوئی ڈھالوں کے مانند ہوں گے‘‘۔
(سنن ترمذی؍2237، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ؍1591)
اسی طرح سے روایتوں میں اس بات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ دجال کے پیروکاروں
میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’وادی مرقناۃ کی
اس زمین شور میں دجال پڑاؤ ڈالے گا تو اس کی طرف نکل کر جانے والوں میں
زیادہ تعداد عورتوں کی ہوگی۔یہاں تک کی انسان اپنی ہمشیرہ، بیٹی،بہن اور
پھوپھی کو اس خوف سے رسی میں باندھ دے گاکہ کہیں وہ دجال کے پاس نہ چلی
جائیں‘‘۔
(مسند احمد7؍19،قصۃ المسیح الدجال ص؍88، اسے شیخ البانی نے حسن قرار دیا
ہے۔)
دجال مکہ اور مدینہ میں ہرگز داخل نہیں ہوسکے گا:
دجال اپنے خروج کے دن سے چالیس دنوں تک دنیا میں رہے گا اور اس مدت میں
پوری دنیا میں چکر لگائے گا، لیکن وہ مکہ اور مدینہ میں نہیں داخل ہوپائے
گا۔فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی لمبی حدیث میں وارد ہے کہ دجال نے کہا :
پھر میرا خروج ہوگا تو میں زمین کی سیر کروں گا۔میں چالیس دنوں میں سبھی
جگہوں پر پہنچ جاؤں گا ، کوئی بستی نہیں چھوڑوں گا۔صرف مکہ اور طیبہ میں
داخل نہیں ہوسکوں گا، کیونکہ ان دونوں میں میراداخلہ ممنوع ہے۔جب کبھی ان
میں سے کسی میں داخل ہونا چاہوں گا تو ایک فرشتہ تلوار سونتے ہوئے میرے پاس
آئے گاجو مجھے اس میں داخل ہونے سے باز رکھے گا اور اس کے ہر راستے پر
فرشتے متعین ہوں گے جو اس کی نگہبانی کررہے ہوں گے۔
(صحیح مسلم)
اس پرفتن موقع پر مدینہ تین مرتبہ زلزلے کا شکار ہوگی۔چنانچہ وہاں جتنے بھی
منافق مرد یا منافق عورتیں ہوں گی، سبھی نکل کر دجال کے پاس جاپہنچیں گی۔اس
موقع سے مدینہ گندگیوں کو ویسے ہی نکال باہر کرے گا جیساکہ بھٹی سے زنگ
آلود لوہے کو کرتا ہے اور اس دن کو گلوخلاصی کا دن کہا جائے گا۔
(قصۃ المسیح بحوالہ مسند احمد )
نیز جنادہ بن ابی امیہ ازدی سے روایت ہے کہ میں اور ایک انصاری آدمی ایک
صحابی کے پاس گئے اور ہم نے اس سے عرض کیا : آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے
جس میں آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا
ہو۔چنانچہ انہوں نے روایت کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:’’….. اور وہ روئے زمین پر چالیس دن قیام کرے گا اور اس میں ہرگھاٹ
پر پہنچ جائے گا اور چار مسجدوں کے قریب نہیں جائے گا:مسجد حرام، مسجد
نبوی، مسجد طور اور مسجد اقصی‘‘۔
(الفتح الربانی24؍76، مجمع الزوائدللہیثمی 7؍343،اس کے بارے میں حافظ ابن
حجر نے فتح الباری13؍105میں کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔)
سابقہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح دجال مکہ اور مدینہ کے علاوہ مسجد
اقصی اور مسجد طور میں نہیں داخل ہوپائے گا اور ان کے علاوہ دنیا کی سبھی
جگہوں میں جائے گا۔
دجال کے خلاف جنگ:
صحیح حدیثوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بتائی ہے کہ دجال
کے خلاف لڑنے والے لوگ انتہائی توانا اور سخت لوگ ہوں گے اور اس تعلق سے
بنوتمیم خانوادہ کو فضیلت حاصل ہے کہ وہ دجال کے خلاف اس لڑائی میں پیش پیش
ہوں گے کیونکہ انہیں دجال اور اس کے فتنہ سے سب سے زیادہ نفرت ہوگی۔چنانچہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ تین باتوں کی وجہ سے میں بنوتمیم سے
محبت کرتا ہوں۔
(1) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:’’دجال
کے مقابلے میری امت میںیہ لوگ سب سے سخت ہوں گے۔
(2) ایک بار بنوتمیم کے یہاں سے زکوٰۃ وصول ہوکر آئی تو رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ میری قوم کی زکوٰۃ ہے‘‘۔ اور
(3) بنوتمیم کی ایک خاتون قید ہوکر عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھیں تو
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ
اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔
(صحیح بخاری؍2543)
اہل حق کی آخری جنگ:
دجال کے خلاف اہل ایمان کی ہونے والی یہ مڈبھیڑ اہل حق کی آخری مڈبھیڑ
ہوگی۔چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’میری امت کی
ایک جماعت ہمیشہ حق پر جہاد کرتی رہے گی اور اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرتی
رہے گی حتی کہ ان کا آخری حصہ مسیح دجال کے خلاف جہاد کرے گا‘‘۔
(سنن ابوداود؍2484، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ؍1959)
دجال کے خلاف لڑنے والے مسلمانوں کی فضیلت:
دجال کے خلاف معرکہ میں حصہ لینے والے اہل حق کے بارے میں رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے انہیں
جہنم کی آگ سے نجات دے گا۔ ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی
آگ سے بچالیا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند کے خلاف جہاد کرے گا اور دوسرا جو
عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔
(سنن نسائی؍3177، صحیح الجامع؍4012)
دجال سے معرکہ کے دوران مسلمانوں کا پڑاؤ:
دجال سے جنگ کے دوران مسلمانوں کی جماعت شام کے مشہور شہر غوطہ میں قیام
پذیر ہوگی، جیساکہ سنن ابوداود؍4297وغیرہ میں ابودرداء رضی اللہ عنہ سے
صحیح حدیث میں مروی ہے۔
دجال کی شکست و ریخت:
دجال کے خلاف اہل حق کا یہ معرکہ آخری اور فیصلہ کن ہوگا۔ اس معرکہ میں حق
کا غلغلہ ہوگا اور باطل کی پسپائی ہوگی۔ دجال اور دجالی لشکر ہمیشہ ہمیش کے
لئے اس صفحۂ ہستی سے ناپید ہوجائے گا اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ اسے شکست و
ریخت سے دوچار کرنے کے بعد مسلمانوں کو اس کے عظیم فتنہ سے نجات دے گا۔
چنانچہ نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم لوگ جزیرۂ عرب کے لوگوں سے لڑوگے، جس میں اللہ
تمہیں فتحیاب کردے گا،پھر اہل فارس سے جنگ کروگے اور اس میں بھی سرخرو ہوگے
، اس کے بعد رومیوں سے جدال کروگے اور اس میں بھی فاتح بنوگے اور اخیر میں
تم لوگوں کی لڑائی دجال سے ہوگی اور اللہ تمہیں اس جنگ میں بھی فتح نصیب
فرمائے گا۔نافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جابر! میرے علم کی حدتک دجال اس
وقت خروج نہیں کرے گا، جب تک روم فتح نہیں ہوجاتا‘‘۔
(صحیح مسلم؍2900)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دجال پر غالب کردے
گاتو مسلمان دجال اور اس کے ہمنواؤں کو قتل کریں گے….‘‘۔ (مسند احمد7؍19)
بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کی سانس جہاں تک جائے گی اور جس کسی کو لگے گی، اس
کا قصہ تمام ہوجائے گا جیساکہ صحیح مسلم(18؍67۔68)
میں نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے۔ جب کفار و
مشرکین اور دجالی لشکر کی شکست ہوجائے گی تو وہ راہ فرار اختیار کریں گے
اور مختلف درختوں اور پتھروں کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ وقت
ان کے لئے انتہائی پریشان کن ہوگا، کیونکہ جن پتھروں اور درختوں کی آڑ میں
وہ چھپیں گے ، وہ درخت اور پتھر ہی کہنے لگیں گے: اے مسلمان! یہ دیکھو ،
فلاں یہودی میری آڑ میں چھپا ہوا ہے۔اس کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا
دو۔غرقد ایک ایسا پودا ہوگا جوکہ یہودیوں کو اپنی آڑ میں چھپائے گا اور
مسلمانوں کو ان کے بارے میں نہیں بتائے گا کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان ہے کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔
(صحیح بخاری؍2925، صحیح مسلم؍2933)
عیسیٰ علیہ السلام کا دجال کو قتل کرنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:’’….. عیسیٰ علیہ السلام نزول کریں گے اور مسلمانوں کی امامت
فرمائیں گے۔جب انہیں اللہ کا دشمن دجال دیکھے گا تو اس طرح سے گھل جائے گا
جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے، اگر عیسیٰ علیہ السلام اس کو ویسے ہی چھوڑ
دیں تو وہ گھل کر از خود ہلاک ہوجائے گالیکن اللہ تعالیٰ اسے عیسیٰ علیہ
السلام کے ہاتھوں قتل کرائیں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام دجال کے خون
کے نشانات مسلمانوں کو اپنے برچھے میں دکھائیں گے‘‘۔(صحیح مسلم؍2897)
دجال کس جگہ قتل کیا جائے گا:
مجمع بن جاریہ انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
فرماتے ہوئے سنا:’’ابن مریم دجال کو باب لد پر قتل کریں گے‘‘۔
(سنن ترمذی6؍513۔514)
لد بیت المقدس کے قریب فلسطین کا ایک شہر ہے۔ دجال کے فتنہ سے کیسے نجات
پائی جاسکتی ہے؟: دجال کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ اس کائنات کا سب سے بڑا
فتنہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سارے نبیوں نے اپنی اپنی قوموں کو دجال کے فتنہ
سے متنبہ کیا اور انہیں ہوشیار کیا۔ اس سلسلے میں اکمل الکاملین، رحمت دو
عالم، سید کونین اور تاجدار مدینہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے بھی اپنی امت کو دجال کے فتنہ سے آگاہ کیا اور دیگر نبیوں اور رسولوں سے
آگے بڑھ کر آپ نے دجال کی صفات بھی بتائی، جن کی بنیاد پر ایک مسلمان دجال
کو پہچان سکتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے فتنہ کو بتانے پر ہی اکتفاء
نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو وہ طریقے بھی بتائے جنہیں ملحوظ رکھ کر دجال کے
فتنہ سے بچا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی دجال کے فتنہ سے بچنے کے بعض طریقے بیان کئے جارہے ہیں ،تاکہ ہم
انہیں ملحوظ رکھ کر دجال کے فتنہ سے بچ سکیں:
(1) دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا جائے اور نماز کے دوران
تشہد اخیرمیں اس کا اہتمام کیا جائے:
اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جب تم میں سے کوئی شخص تشہد اخیرسے فارغ ہو تو اسے چار چیزوں سے پناہ
مانگنی چاہئے اور یہ دعا پڑھنی چاہئے:
’’اللھم انی أعوذبک من عذاب جھنم ،ومن عذاب القبر، ومن فتنۃ المحیا والممات
ومن شر فتنۃ المسیح الدجال‘‘۔
صحیحین میں مختلف صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
دجال کے فتنہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
عمومی حالتوں میں بھی دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنے کی رہنمائی فرمائی
ہے۔چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم بنونجار کے باغ میں اپنے خچر پر موجود تھے اور ہم لوگ بھی آپ کے
ہمراہ تھے کہ اتنے میں خچر بدکا،قریب تھاکہ آپ کو گرا دیتا۔وہاں چھ،پانچ یا
چار قبریں تھیں۔آپ نے پوچھا:’’ان قبر والوں کو کون پہچانتا ہے؟‘‘۔ایک شخص
نے عرض کیا کہ میں۔آپ نے پوچھا:’’ان لوگوں کی موت کب ہوئی؟‘‘۔ اس نے بتایا
کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں وفات پائی۔یہ سن کر آپ نے فرمایا:’’یہ امت
قبر میں آزمائش میں مبتلا کی جاتی ہے۔اگر اس بات کا ڈر نہ ہوکہ تم لوگ اپنے
مردوں کو دفن کرنا چھوڑدو تو میں اللہ پاک سے دعا کرتا کہ وہ تم لوگوں کو
عذاب قبر سنادیں‘‘۔ یہ فرماتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری
جانب متوجہ ہوئے اور عرض کیا:’’اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو جہنم کی آگ سے
‘‘۔صحابہ کرام نے کہا:ہم اللہ پناہ مانگتے ہیں جہنم کے عذاب سے۔ پھر آپ نے
کہا: ’’تم لوگ اللہ کی پناہ مانگو عذاب قبر سے‘‘۔ صحابہ کرام نے کہا: ہم
اللہ کی پناہ مانگتے ہیں عذاب قبر سے۔اللہ کے رسول نے مزید کہا:’’تم لوگ
اللہ کی پناہ مانگو ظاہری اور باطنی ہر طرح کے فتنوں سے‘‘۔ صحابہ کرام نے
کہا:ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں سبھی ظاہری اور باطنی فتنوں سے۔آپ نے
فرمایا:’’مسیح دجال سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔ صحابہ کرام نے کہا:’’ہم مسیح
دجال کے فتنہ سے رب تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(صحیح مسلم8؍161،مسند احمد5؍190)
(2) سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کو یاد کرنا:
ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:’’جو کوئی شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کو یاد کرلے
گا،وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا‘‘۔ (صحیح مسلم) اس حدیث کے بعض الفاظ
میں سورہ کہف کی آخری دس آیتوں کو حفظ کرنے کی بات وارد ہے جسے شیخ البانی
نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (2651)میں شاذ قرار دیا ہے۔
(3) دجال کے خروج کی خبر ملے تو اس سے ملنے کی خواہش نہ کی جائے بلکہ اس سے
دوری اختیار کیا جائے:
انسان کو جب خروج دجال کی خبر ملے تو اسے چاہئے کہ وہ اس سے دور ہی رہے اور
اس سے ملنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:’’جو کوئی انسان دجال کے
بارے میں سنے تو اسے چاہئے کہ اس سے دور ہی رہے۔اللہ کی قسم! ایک شخص اس کے
پاس تشریف لائے گا اور وہ سمجھے گا کہ وہ پختہ ایمان کا مالک ہے لیکن وہ
دجال کے پاس شکوک و شبہات والی موجود چیزوں کو دیکھ کر اس کی پیروی کرنے
لگے گا‘‘۔
(الفتن لحنبل(ق46؍2)کما فی قصۃ المسیح الدجال للشیخ الألبانی ص؍33۳)
(4) مکہ اور مدینہ میں رہائش اختیار کیا جائے:
سابقہ سطور میں یہ بات گزر چکی ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں ہرگز داخل
نہیں ہوسکے گا۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:’’دجال خروج کرے گا اور مکہ ومدینہ کے علاوہ پوری دنیا
کی سیر کرے گا،جب مدینہ آئے تو اس کے ہر راستہ پر فرشتوں کو صف بستہ پائے
گا‘‘۔(ملاحظہ ہو: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ؍2457)
|