(افسوس کہ ایامِ شریفِ رمضان گذر گئے؛ تیس عیدیں ایک ہی
دفعہ دنیا کے ہاتھوں سے چلی گئیں)۔
شریعت میں اس آخری جمعہ کے تعلق سے رمضان کا آخری جمعہ ہونے کی حیثیت سے
کوئی تخصیص نہیں بلکہ "سید الایام"ہونے کی حیثیت سے افضلیت رکھتا ہے اور
رمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستر درجہ بڑھ جاتا ہے اس
بنا پر اس جمعہ کی ساعت رمضان میں اب میسر نہ ہوسکے گی تو اہتمام کیا جائے
تو الگ بات ہے کیونکہ احادیث میں جمعہ کی بہت فضیلت آئی ہے
۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ “ جو شخص جمعہ کے دن غسل کر کے اول وقت میں آئے اور پیدل چل کر
آئے اور امام کے قریب میں بیٹھے اور غور سے خطبہ سنے اور اس دوران کوئی
لغوبیکار اور بیہودہ کام نہ کرے تو اس کیلئے ہر قدم کے بدلے میں سال بھر کے
عمل (یعنی ایک سال کی عبادت ) کا اجروثواب ہے۔
۔امام حاکم اور امام ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ
حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن آدم علیہ
السلام تخلیق کیے گئے اور اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا، اسی
دن قیامت قائم ہو گی۔ اس دن مجھ پر درود بکثرت پڑھا کرو کیوں کہ تمہارا
درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِىُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ
بْنِ الْمُهَاجِرِ قَالاَ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ح وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ
حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ
رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ
أَنْ يَأْتِىَ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ ».
ٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ
الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ(837)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو
فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ (کی نماز) کے لئے آئے تو اسے
چاہیے کہ غسل کرے۔
وَقَدْ حَكَى ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ الْإِجْمَاعَ عَلَى أَنَّ مَنِ
اغْتَسَلَ بَعْدَ الصَّلَاةِ لَمْ يَغْتَسِلْ لِلْجُمُعَةِ وَلَا فَعَلَ
مَا أُمِرَ بِهِ(فتح الباری، ص، 117)
ابن عبد البر کہتے ہیں کہ اس پر اجماع ہیکہ جس نے نماز جمعہ کے بعد غسل کیا
تو اس نے جمعہ کےلیے غسل نہیں کیا اور نہ ہی جس کا حکم دیا گیا تھا اس پر
عمل کیا
اور جمعہ ترک کرنے کی سخت وعید بھی آئی ہے
حضرت عبدا للہ بن عمروحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور
نبی کریم ﷺ منبر کی سیڑھیوں پر ارشاد فرما رہے تھے کہ لوگ جمعہ چھوڑنے سے
باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا اور وہ غافلوں میں
سے ہوجائیں گے۔
حضرت ابو جعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا
کہ جس شخص نے تین لگاتار جمعے بغیرر عذرشرعی کے ترک کئے تو اللہ تعالیٰ اس
کے دل پر غفلت کی مہر لگادیتا ہے۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد ،سنن ابن
ماجہ)
اور واذا قضيت الصلاة فانتشروا في الارض، پر عمل بھی کرنا اسلاف کا طریقہ
رہا ہے
حضرت عراک بن مالک رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکرلوٹ کر مسجد کے
دروازہ پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے: اللّٰہُمَّ اِنّی اَجَبْتُ
دَعْوَتَکَ، وَصَلّیْتُ فَرِیْضَتَک، وَانْتَشَرْتُ کَمَا اَمَرْتَنِی
فَارْزُقْنِی مِنْ فَضْلِک وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِین۔
اے اللہ! میں نے تیری آواز پر حاضری دی، اور تیری فرض نماز ادا کی، پھر
تیرے حکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب تو مجھے اپنا فضل نصیب فرما ، تو
سب سے بہتر روزی رساں ہے۔ (ابن ابی حاتم) تفسیر ابن کثیر۔ اس آیت کے پیش
نظر بعض سلف صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کے بعد
خرید وفروخت کرے، اسے اللہ تعالیٰ ستر حصے زیادہ برکت دے گا۔ (تفسیر ابن
کثیر)۔
ان حادیث مبارکہ سے جمعة المبارک کی عظمت وفضیلت روز روشن کی طرح آشکارا
ہوتی ہے۔ یہ دن بہت ہی عظمت وبرکت والا دن ہے۔ لہٰذا اس کی عظمت وشان کے
مطابق ہمیں یہ دن اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی میں بسر کرنا چاہئے
*رمضان میں کے جمعۃ الوداع میں قضائے عمری *
۔ اس دن کچھ لوگ ایک ایسی روایت کی بنیاد پر قضا عمری ادا کرتے ہیں، جس سے
وہ یہ سمجھتے ہیں اس طرح پہلی زندگی میں قضا کی گئی ساری نمازیں ادا ہو
گئیں ہيں ۔مگر اس روایت کو تمام ہی مسلم علماء جھوٹی بات کہتے ہیں۔ اور
سختی سے اس فعل اور سوچ کا رد کرتے ہیں۔جبکہ مفتی احمد یار خان اس کی اصلاح
کرتے ہوئے فرماتے ہیں
"جمعۃ الواداع میں نماز قضا عمری پڑھے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع
کے دن ظہر وعصر کے درمیان بارہ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور
ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیت الکرسی اور تین بار قُلْ ھُوَ
اللہُ اَحَدٌ اور ایک ایک بار فلق اور ناس پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس
قد ر نمازیں اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ إن
شاءاللہ ! معا ف ہوجائے گا۔یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہوجائیں گی وہ
تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی۔"
اِسلامی زندگی،مفتی احمد یار خان نعیمی،صفحہ135
لہذا اس کو نئی رسم کی صورت نہ دیتے ہوئے رمضان کی بقیہ ساعتوں میں عبادت
میں خوب شغف دکھائیں اور اپنی بخشش کا سامان کریں |