عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ ؓ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ
قَالَ: ’’حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ :قِيلَ مَا هُنَّ
يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ
وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ
وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ
وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‘‘۔ ( صحیح مسلم:کتاب السلام، باب مِنْ حَقِّ
الْمُسْلِمِ لِلْمُسْلِمِ رَدُّ السَّلاَمِ.ح:۵۷۷۸)
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے
فرمایا :’’ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ،پوچھا گیا اے
اللہ کے رسول ﷺوہ کون سے حقوق ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تم کسی مسلمان
سے ملو تو اس کو سلام کرو، جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کی دعوت قبول
کرو،جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو اچھی نصیحت کرو،جب وہ چھینک کے
بعد ا لحمدللہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ کہواور
جب وہ بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرواور جب وہ فوت ہوجائے تو اس کی
نماز جنازہ میں جاؤ۔
تشریح : دعوت قبول کرناایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر بنیادی حق ہے کہ
جب کوئی مسلمان اپنے کسی بھائی کو دعوت دے تو اس شخص پر لازم وضروری ہے
کہ اس کی دعوت قبول کرے (چاہئے ولیمہ کی دعوت ہویا عقیقہ یا عقد نکاح
یا کسی اور جائز تقریب کی)الا یہ کہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو ۔
اوراللہ کے رسول ﷺ نے دعوت میں شریک ہونے کی اتنی تاکید فرمائی ہے کہ
اگر کوئی روزہ دار (نفلی ) ہے تو بھی اسکی دعوت کو قبول کرے اور اگر
چاہے تو روزہ توڑ کر کھانا تناول کرلے یاپھر اس کی دعوت میں شریک ہوکر
اسے تہنیتی کلمات اور دعائوں سے نوازے ۔ جیساکہ صحیح مسلم کی روایت ہے
کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں ’’ جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی
جائے تو اسے چاہئے کہ وہ قبول کرے ،اگر روزہ دار ہے تو دعوت دینے والے
کے لئے دعاکرے اور اگر روزہ سے نہ ہو تو دعوت کھالے‘‘۔اور دوسری روایت
میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ’’ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ ‘‘(کوئی
مسلمان )تجھے دعوت دے تو اسے قبول کرو۔
محدثین اور اہل علم کہتے ہیں کہ اس میںوہ تمام دعوت شامل ہے جس کے لئے
ایک مومن آپ کو اپنے آشیانہ پر بلاتاہے ۔مثلا: کھانے کے لئے ،گفت
وشنید ،باہمی مشورہ اور اعانت ومدد کی خاطر ۔وغیرہ
اس لئے کہ بزبان نبی ہمیںدعوت قبول کرنے کا حکم دیاگیاہے،اورآپ نے
فرمایا کہ ’’الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا
يُسْلِمُهُ‘‘ ایک مسلم دوسرے مسلم کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ
اس کی مدد چھوڑتا ہے۔اور دوسری روایت میںہے کہ ’’:المؤمن للمؤمن
كالبنيان، يشد بعضه بعضاً ‘‘ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح
ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے۔(صحیح بخاری)
لہذا ایک مومن کا دوسرے بھائی کے لیے یہ بنیادی حق ہے کہ اگر وہ آپ کو
اپنے گھر بلاتاہے تو اس کی دعوت پر لبیک کہو ،اگر وہ پریشان حال ہے تو
اس کی مدد کرو ،اسے اپنے مفید مشوروں سے نوازو،اگر اسے کسی چیز کی حاجت
وضرورت ہے تو اسے پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرو ،اس کے ساتھ خیر
خواہی اور الفت ومحبت کا معاملہ کرو۔ اس سے اس کا ایمان مضبوط ہوگا اس
کی دلجوئی اور قدرشناسی ہوگی ،آپس میںالفت ومحبت پیداہوگی ۔اور اگر
ولیمہ ،عقیقہ اور عقد نکاح کی دعوت دیتاہے تو بھی اس کی دعوت میں شریک
ہوکر زوجین ،نومولود اور اعزہ واقارب کو دعائوں سے نوازنا چاہیئے ۔ اور
جو لوگ اپنی چودھراہٹ ،مالداری ،بڑکپن کے نشہ میں چور رہ کر یا صاحب
حیثیت ہونے کی وجہ سے غریبوںکی دعوت میں شریک نہیں ہوتے ہیں توایسے
لوگوں کو نبی کریم
ﷺ کا فرمان یاد کرنا چاہئے کہ آپ نے فرمایا :’’وَمَنْ لَّمْ يُجِبِ
الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَى اللهَ وَرَسُوْلَهُ‘‘۔جس نے (اپنے کسی بھائی
کی ) دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
خلاصئہ کلام : آج کے اس پرفتن وپرآشوب اور نفسانفسی کے دور میں ضرورت
اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے قریب ہوں ،لوگوں کے غم وپریشانی اور
تکالیف کو سمجھیں ،ان کی دعوتوںمیں شریک ہوں ،آپس میں میل محبت کے
ساتھ رہیں ،باہمی بھائی چارگی کی فضا قائم رکھیں،بنیان مرصوص کی طرح
متحد ومتفق ہوکر رہیں ،ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کریں
،سلام اور صلح وآشتی کا پیغام پوری دنیامیں عام کریں ۔ اس لیے کہ ایسے
خوش نصیبوںکے لیےبزبان رسالت جنت کی عظیم بشارت سنائی گئی ہے ۔ کہ جو
دنیا میں سلام کو عام کرتے ہیں ،ایک دوسرے کو دعوت دیتے اور دوسروں کی
دعوت میں شریک ہوتے ہیں ،آپس میں الفت ومحبت اور صلہ رحمی کا معاملہ
کرتے ہیں ،پنچوقتہ نمازوں کے ساتھ ساتھ قیام اللیل اور تہجد گذاری کا
اہتمام کرتے ہیں۔
دعاہے کہ اللہ ہمیں اخلاص وللہیت کے ساتھ مذکورہ تمام نصوص شرعیہ اور
اعمال حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ! |