محترم قارئین کرام:السلام علیکم
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔اوربارش کا موسم ہونے کے بعد بھی بارش نہ
ہونے سے کافی پریشان بھی ہوں گے۔اس پریشانی کے حل کو ڈھونڈنے کے لئے آپ کو
علمائے کرام اور دانشوران سے ربط قائم کرنا ہوگا استغفار کا کثرت سے ورد
اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہوگی تب کہیں جاکر ہم اﷲ کو منا پائیں گے اور
پھر وہ ہم پر موسلا دھار برسائے گا۔بہر کیف۔آج کل حج کا سیزن ہے ہر ایک
اپنے ملنے والوں کو اپنے سفر کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ کوئی لوگوں سے ملاقات
کرکے معافیاں مانگ رہا ہے تو کوئی ڈائری میں اْن تمام لوگوں کے نام لکھ رہا
ہے جنہوں نے دعا کا کہا ہے۔ کوئی سفری انتظامات میں پریشان ہے تو کوئی
مناسک حج کے حفظ میں مصروف، اور تو اور کوئی عازم حج دعوتیں اڑانے میں
مصروف ہیں۔اور کوئی لوگوں کو فون کرکے یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ ’’ارے تم
کو نہیں معلوم میں حج کو جارہا ہوں،ارے کیا یار۔۔۔پھر کب آرے ملنے، یا میں
آجاؤں،بھابی ،امی کے ساتھ‘‘۔۔خیر۔۔۔
’’اے اﷲ! میں حاضر ہوں، تیرے حضور میں۔ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرے
سوا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ ساری تعریفیں اور سب نعمتیں تیری ہیں،
اور ملک اور بادشاہت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
حج ایسی عبادت ہے جوزندگی میں ایک مرتبہ صاحب استطاعت پر فرض ہے، اگرچہ ایک
سے زیادہ مرتبہ حج کی ادائیگی کی ترغیب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
تعلیمات میں واضح طور پر ملتی ہیں، چنانچہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر
یعنی غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل
کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ)
اورویسے بھی حج ایک عشقیہ عبادت بھی ہے۔جو اس کے لئے جتنی جدوجہد محنت اور
رب کے حضور حاضر میں اپنے آپ کواخلاص کے ساتھ پیش کرے گا اتنا ہی اﷲ کے
حضور قابل قبول ہوگا۔
بہر کیف آپ نے دیکھا ہوگا کہ جیسے ہی جی صاحب کے حج کی منظور آتی ہے تو اسی
وقت سے اس کا چرچا اور تبصرہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اور حاجی لوگوں میں جتنا
خود چرچا کرے گا اتنا ہی رب کریم سے عشق و محبت میں کمی آتی رہے گی، اس لیے
اس میں حتی الامکان احتیاط کی ضرورت ہے۔
جوں جوں سفر حج کا وقت قریب آتا جاتا ہے اعزاء واقرباء کی آمد و رفت کا
سلسلہ بڑھتا جاتا ہے اور بہت سے لوگ حاجی صاحب کے لیے اس بناء پر تحفہ و
تحائف لاتے ہیں کہ حاجی بھی واپسی میں ہمارے لیے حرمین شریفین سے تحفہ
لائیں گے، بلکہ بعض حاجی تو ایسا کرتے ہیں کہ محلہ میں گشت لگاتے ہیں تاکہ
لوگ حاجی صاحب کو تحفہ پیش کیا کریں۔ایسے میں وہ لوگ جو بیچارے استقبال
کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں بھی قرضہ حسنہ لے کر استقبال کرنا پڑتا
ہے۔
پہلے زمانے میں پورے گاؤ ں یا شہر سے ایک حاجی کافی عمردراز ہونے کے بعد
جاتے تھے تو ان کی دعوتیں استقبال بھی کافی دھوم دھام سے کیا جاتا تھا لیکن
اس وقت اتنا علم عام نہیں ہواتھا اور لوگ اتنے باشعور نہیں تھے۔
خیر۔۔۔جب حاجی صاحب کا سفر بالکل قریب آجاتا ہے تو حاجی صاحب کے یہاں ایسی
دعوت ہوتی ہے جیسے کوئی دولت مند آدمی اپنی لڑکی کی شادی میں دعوت کرتا ہے،
اور اس موقع پر بھی تحفہ اور لفافہ پیش ہونے لگتا ہے۔ دعوت کرنا کوئی بری
بات نہیں ہے لیکن بہت سارے عازم حج اس لئے دعوت کرتے ہیں کہ ان کے حج کو
جانے کی اطلاع سارے جہاں کو معلوم پڑجائے جو ایک غلط بات ہے۔مسنون طریقہ
یہی ہے کہ جب حاجی صاحب سفر کے لیے روانہ ہونے لگیں تو مقامی لوگ حاجی صاحب
سے دعاؤں کے لیے گزارش کریں، حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب حضرت عبداﷲ بن عمر
رضی اﷲ عنہما نے حضرت سید الکونین صلی اﷲ علیہ وسلم سے عمرہ کو جانے کے لیے
اجازت مانگی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی، اور ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ
اے میرے بھائی تم وہاں کی دعاو?ں میں ہم کو بھی شریک رکھنا اور ہم کو اپنی
دعاؤں میں فراموش نہ کرنا۔
میں نے انٹرنیٹ پر ایک جگہ ریاکار حاجی صاحب کے تین قصے پڑھے تھے جو آپ کی
نذر کرتا ہوں۔
ایک دفعہ ٹرین میں دو مسافر آمنے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ایک مسافر
نے دوسرے سے پوچھا۔ جناب کیا نام ہے آپ کا۔ دوسرے مسافر نے کہا "حاجی مشتاق
احمد"۔ پہلا مسافر صاحب حکمت تھا۔ کہنے لگا ماشاء اﷲ اچھا نام ہے۔ اب دوسرے
مسافر نے پوچھا جناب آپ کا نام کیا ہے۔ تو پہلے مسافر نے کہا "نمازی ہدایت
اﷲ"۔
حاجی مشتاق صاحب کہنے لگے جناب یہ بڑا عجیب نام ہے۔
نمازی ہدایت اﷲ نے کہا۔ جناب آپ نے کتنے حج کئے ہوئے ہیں۔
حاجی مشتاق نے کہا جناب پچھلے سال ہی پہلا حج کیا ہے۔
نمازی ہدایت اﷲ کہنے لگے۔ جناب آپ نے تو صرف ایک ہی حج کیا ہے اور آپ نے
اپنے نام کے ساتھ حاجی کا اضافہ کرلیا ہے۔ جبکہ میں تو روزانہ پانچ نمازیں
پڑھتا ہوں میں اپنے نام کے ساتھ نمازی کیوں نہیں رکھ سکتا۔ یہ کہنے کی
ضرورت نہیں حاجی صاحب کو کتنی شرمندگی ہوئی ہوگی۔
دوسرا قصہ:ایک صاحب حج سے واپس لوٹے تو سیدھا اپنے محلے کی دکان پر تشریف
لے گئے۔ دکاندار بہت خوش ہوا کہ لگتا ہے آج حاجی صاحب دو سال پرانا ادھار
چْکانے آئے ہیں۔ ان صاحب نے دکاندار سے کہا: ہاں بھائی میاں، کدھر ہے آپ کا
ادھار والا کھاتہ؟دکاندار نے خوش ہوتے ہوئے کہا: یہ لیجیئے حاجی صاحب۔ صاحب
نے پھر پوچھا؛ اچھا وہ صفحہ کدھر ہے جہاں میرا ادھار لکھا ہوا ہے؟دکاندار
نے جلدی سے صفحہ کھول کر دیتے ہوئے کہا: یہ رہا حاجی صاحب۔ حاجی صاحب نے
اپنی جیب سے پنسل نکالی اور اپنے نام سے پہلے حاجی لکھا اور کھاتہ بند
کردیا۔ اور جاتے جاتے ارشاد فرما گئے اب تو ہم حاجی ہوگئے ہیں ہمارا نام تو
پورا لکھا کرو۔ دکاندار حیران و پریشان حاجی صاحب کو جاتے ہوئے دیکھ رہا
تھا۔
تیسرا واقعہ کچھ اسطرح کا ہے کہ۔ایک صاحب نے حضرت سفیان ثوری علیہ رحمہ کو
اپنے ہاں دعوت پر مدعو کیا۔ جب آپ تشریف لے آئے۔ تو صاحب نے نوکر کو آواز
دی اور کہا "جاو? حضرت صاحب کے لئے کھانے کا انتظام کرو۔ اور دیکھو کھانا
ان برتنوں میں لانا جو میں دوسری بار حج سے لیکر آیا تھا۔"
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اﷲ علیہ صاحبِ حکمت تھے۔ فرمانے لگے۔"افسوس تم نے ایک
ہی جملے میں اپنے دونوں حج ضائع کردئیے۔"
تو ہمیں او رہمارے عازم حج کو چاہئے کہ جانے سے پہلے بھی اور آنے کے بعد
بھی ہم ریکاری سے بچے۔ اپنی نیکیوں کا اعلان نہیں کرتے رہنا چاہئے۔ بلکہ
اپنی نیکیوں کو چھپاتے رہنا چاہیے۔ اﷲ تعالی کو وہ عمل سب سے زیادہ پسند ہے
جس میں ریا کاری نہ ہو۔ بلکہ خالصتا اﷲ کی رضا کے لئے کیا جائے۔
حدیث شریف میں ہے کہ اﷲ تعالی کو وہ صدقہ سب سے زیادہ پسند ہے جو دائیں
ہاتھ سے دیا جائے تو بائیں کو خبر نہ ہو۔یعنی جس صدقے یا نیکی کا اﷲ کے سوا
کوئی گواہ نہ ہو۔ وہ نیکی عمل یا صدقہ وغیرہ صرف اﷲ اور اس بندے کے درمیان
میں ہو۔ اس لئے اپنی نیکیاں چھپانے میں ہی اجر ہے۔ اور ان کے اظہار کرنے
میں ریاکاری میں پڑھ جانے کا خطرہ ہے۔
آج بنتا ہوں معزز جو کھلے حشر میں عیب
آہ! رْسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یارب!
نیکیاں چھپانے کا مقصد ان کو ضائِع ہونے سے بچانا ہے کیونکہ نفس وشیطان
انسان کے کْھلے دْشمن ہیں جو انسان کو نیکیاں کرنے نہیں دیتے اور اگر ہمت
کر کے کوئی نیکی کر بھی لی تو یہ اسے پوشیدہ نہیں رہنے دیتے۔ شیطان کے
بہکاوے میں آکر انسان کے دل میں اپنی نیکیوں کے اِظہار کی خواہش پیدا ہوتی
ہے تو وہ لوگوں کو اپنے نیک اَعمال بتا کر ، نیک نامی کی داد پا کر تکبر،
حْبِّ جاہ اور رِیاکاری کی تباہ کاری میں جا گرتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی
نیک عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو تو اس نیک عمل کو کر لینے کے بعد پوشیدہ
رکھنے ہی میں عافیت ہے کہ دِکھاوے وغیرہ کی نحوست سے نیکیاں برباد ہو جاتی
ہیں۔اس لحاظ سے اپنے نیک اَعمال کو پوشیدہ رکھنا اَعمال بجا لانے سے زیادہ
مشکل ہے۔
جیسا کہ حضرتِ سیِّدْنا ابودَرداؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کا فرمانِ
معظَّم ہے: بے شک عمل کر کے اسے ریاکاری سے بچانا عمل کرنے سے زیادہ مشکل
ہے اور آدمی کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے لیے ایسا نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے
جو تنہائی میں کیاگیا ہوتا ہے اور اس کے لیے ستّر گنا ثواب بڑھا دیا جاتا
ہے۔ پھر شیطان اس کے ساتھ لگا رہتاہے(اوراسے اْکساتا رہتا ہے ) ہاں تک کہ
آدمی اس عمل کا لوگوں کے سامنے ذِکر کر کے اسے ظاہر کر دیتا ہے تو اب اس کے
لیے یہ عمل(مخفی کے بجائے) عَلانیہ لکھ دیا جاتا ہے اور اَجر میں ستّر گنا
اضافہ مٹا دیا جاتا ہے۔شیطان پھر اس کے ساتھ لگا رہتا ہے ہاں تک کہ وہ
دوسری مرتبہ لوگوں کے سامنے اس عمل کا ذِکر کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ
بھی اس کا تذکرہ کر یں اور اس عمل پر اس کی تعریف کی جائے تو اسے عَلانہ سے
بھی مٹا کر ریاکاری میں لکھ دیا جاتا ہے۔پس بندہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے
ڈرے،اپنے دین کی حفاظت کرے اور بے شک ریاکاری شرک(اصغر) ہے۔انسان کو اپنی
زندگی میں بار بار حج کرنے کی توفیق عام طور پر نہیں ملتی ہے۔ خصوصاً
ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو اور پھر حج کے مسائل کچھ اس نوعیت کے ہیں
کہ حج کی ادائیگی کے بغیر ان کا سمجھنا بظاہر مشکل ہے،عازم حج کچھ غلطیاں
اور کوتاہیاں حج وعمرہ جانے سے پہلے کرتاہے اور کچھ وہاں پہنچنے کے بعد
کرتا ہے۔ ،نیز پہلے سے خاطر خواہ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے بھی عام حاجی
اپنے حج کی ادائیگی میں غلطیاں کرتا ہے۔ بعض غلطیاں حج کے صحیح نہ ہونے یا
دم کے واجب ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ لہذا عازمین حج کو چاہئے کہ وہ پرانے
حجاج کرام علمائے کرام اور دانشوران سے پوچھ پوچھ کر سرزد ہونے والی غلطیوں
کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں تاکہ حج کی ادائیگی صحیح طریقہ پر ہو اور ان کا
حج حج مبرور بنے جس کا بدلہ جنت الفردوس ہے جیسا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو
دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری
ومسلم)عازم حج دوران سفرجو غلطیاں یا کوتاہیاں کرتا ہے ان میں بہت سے احباب
دوران سفر نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے بعض تو نماز ہی نہیں پڑھتے اور پڑھتے
بھی ہیں تو مسائل کے مطابق عمل نہیں کرتے، مثلا بہت سے حجاج ٹرینوں اور
ہوائی جہازوں کی سیٹوں پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ ٹرین پر کھڑے ہو
کر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور جہاں کھڑے ہو کرنماز پڑھنا ممکن ہو وہاں بیٹھ
کر پڑھنا جائز نہیں اور ہوائی جہاز میں آگے یا پیچھے کی طرف ایسی جگہ ہوتی
ہے جہاں پر باآسانی کھڑے ہوکر نماز پڑھی جاسکتی ہیبعض لوگ قبلہ معلوم کیے
بغیر بیٹھے بیٹھے جدھر چاہے نماز پڑھ لیتے ہیں ان تمام امور سے بچ کر مسنون
طریقہ سے قبلہ کی طرف ہو کر نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور پھر عازم
حج کبھی کبھی احرام کی غلطیاں بھی کربیٹھتا ہے جن میں بعض لوگ احرام کی
حالت میں سلی ہوئی چادر یا رزائی کے استعمال کو سلا ہوا ہونے کی وجہ سے
ناجائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احرام کی حالت میں مرد کو سلا ہوا کپڑا
پہننا جائز نہیں، یہ بات ٹھیک ہے کہ مردوں کو احرام کی حالت میں سلا ہوا
کپڑا پہننا جائز نہیں ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلی ہوئی چادر اور
رزائی وغیرہ کا استعمال بھی ناجائز ہے بلکہ احرام کی حالت میں ایسا سلا ہوا
کپڑا پہننا مردوں کے لیے ممنوع ہے۔بعض عورتیں احرام کی حالت میں چہرہ کھلا
رکھتی ہیں حالانکہ چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے بہت سے مردوں کے لیے بد نگاہی
کے گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتی ہیں، اس لیے احرام کی حالت میں بھی
چہرہ کا نقاب اس طرح ڈال لیا جائے کہ جس سے نقاب کا کپڑا چہرہ سے نہ لگنے
پائے۔طواف اور سعی کی غلطیاں بھی عازم حج سے سرزد ہوتی ہے۔اور اس کے علاوہ
حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے عورت و مرد کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے کہ بعض
دفعہ عورتوں میں ہٹو بچو اور چیخ و پکار کا عجیب حیا سوز منظر پیش آجاتا ہے
حالانکہ اگر آسانی سے ہوسکے تو ہی حجر اسود کا بوسہ لینا سنت ہے اور عورتوں
کا مردوں کے ہجوم میں گھس جانا حرام ہے۔
بہر کیف ہماری عازم حج سیگذارش ہے کہ وہ حتی الامکان ریاکاری سے بچے، سیلفی
اور فوٹوز لینے سے بچے اس کے علاوہ وہ تمام کرنے سے بچے جس کا احادیثوں اور
قرآن میں تذکرہ آیا ہے۔
اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ تمام عازمین حج کا حج مقبول ومبرور فرمائے اور انہیں
صحت یاب وطن لوٹائے۔ اور حجاج کرام سے بھی ادباً التماس ہے کہ وہ ساری امت
کے لئے دعائے خیر کریں۔
بولا چالا معاف کرا۔۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔
اﷲ حافظ۔۔۔
Yپڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی
|