حفظِ قرآن ایک عظیم نعمت_ اور_ اُس کابھلانابہت بڑی ناقدری

حفظِ قرآن ایک عظیم نعمت_ اور_ اُس کابھلانابہت بڑی ناقدری

اِک دردبھری پکارجودل سےنکلی
تحریر_ _ _ ابوافنان عبدالوہاب
قرآن کریم کاحفظ کرنا ایک عظیم سعادت ہے
یہ وہ عظیم سعادت ہے جس کے مقابلےمیں دنیاکی تمام نعمتیں اور سعادتیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں۔ حافظ قرآن کےلئےیہ فخرکیاکم ہےکہ وہ کسی اورکانہیں بلکہ اللہ جلّ شانہ کےکلام کاحافظ ہے،اس کاسینہ اُسی سےمعطرہے،دل اُسی سےآبادہےاورزبان اُسی کی تلاوت سے ترہے،کم ازکم میرے
نزدیک توحفظِ قرآن کی نعمت دنیاومافیہاسےبہترہے
اس سعادت کا حقیقی صلہ تو اللہ جل شانہ آخرت میں اپنی شان کےمطابق عنایت فرمائیں گے،اللہ تعالی ہمیں بھی نصیب فرمائے،مگر اس دنیا میں بھی جوعزّت اورمحبت ایک حافظ قرآن کےحصےمیں آتی ہےبہت کم کسی کوملتی ہے
حدیث میں آتاہے"اللہ تعالی کان لگاکر کسی چیزکواتنے غورسے نہیں سنتےجس طرح وہ زورسےپڑھنےوالےخوش آوازپیغمبرکی تلاوت کوکان لگاکرغورسےسنتےہیں،،صحیح بخاری،جب اپنےحبیب صلی اللہ علیہ وسلم کوسنتےہیں،توایک عام قاری کوبھی یقیناًسنتےہونگےکیونکہ وہ بھی تواُنہی حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کردہ کلام کوپڑھتاہے ،یہ وہ عظیم کتاب ہےجس کےصرف" الم ،پڑھنےپرقاری کےنامہ اعمال میں تیس نیکیاں جمع ہوجاتی ہیں،جس کےقاری پراُس کی تلاوت کےوقت سکینت اوررحمت کانزول ہوتاہے،جس کےقاری کوحدیث میں قابلِ رشک کہاگیاہے،اورجوسینہ اس سےفارغ ہواُس کواُس ویران گھرسےتشبیہ دیگئ ہےجوخیروبرکت سےخالی ہو،جس کےماہرکوقیامت کےدن عزت منداورنیکوکارفرشتوں کی رفاقت کی نویدسنائی گئ ہے،اورتکلیف و مشقت سےپڑھنےوالےکودگنےاجرکامستحق قراردیاگیاہے،یہ وہ کتاب ہےجومنافق بھی پڑھےتودنیامیں خوشبودارپودےسےاُ سکی مثال دیجاتی ہے،جس کےسیکھنےسکھلانےوالےکواُمت کابہترین فردٹہرایاگیاہے،جواس کومضبوطی سےتھامےگانجات پائےگا
جوچھوڑےگاھلاک ہوجائےگا،کلامِ برحق ہےمذاق نہیں،باربارپڑھنےسےدل کامیلان اُس کی طرف بڑھتاتوہےدل اُکتاتانہیں،وہ جس میں پچھلوں کےقصےبھی ہیں اوراگلوں کی خبربھی،جس دھرتی پہ نازل ہواوہ طاہر،جس دل کوکھٹکٹایاوہ بھی اطھر،جس مہینے
میں اتراوہ بھی مبارک،
اورسب سےبڑی بات یہ کہ قیامت کےدن یہ اپنےپڑھنےوالےکی نہ صرف یہ کہ سفارش کرےگابلکہ اُس کی طرف سےجھگڑاکرےگایہاں تک کہ اُس کوجنت میں داخل کردے،پس مبارک ہےوہ جوخودحافظ ہے،خوش نصیب ہےوہ جس کابچہ حافظ ہےاورآفریں صدآفریں دین کے اُن خدمت گاروں کےلئےجواپنی خاطرنہیں بلکہ غریب، نادار اوریتیم بچوں کی خاطردردرکی خاک چھانتےہیں،دوسروں کی جلی کٹی سنکراُن کےلئےبھیک مانگتےہیں،ادارے قائم کرتےہیں،اور پھران محتاجوں،لاچاروں کواُن اداروں میں ٹہراکرٹھکانہ دیتےہیں،اُن کےسروں پردستِ شفقت رکتھےہیں،اوراُن کواس عظیم کتاب کاحافظ بناتےہیں،ہاں ہاں ،،وہ غریب اوریتیم بچہ جس پرمعاشرےنےترقی کےسارےدروازےبندکردیئےتھے،جس پر زندگی تنگ کردی گئی تھی،جس کےگھرکاچولھاٹھنڈاپڑاتھا،
جس نےبوسیدہ پوشاک سےجسم ڈھانپ رکھاتھااورجوننگےپاؤں،آبلہ پاان کےدرپرحاضرہواتھا،
بلا شبہ قرآن بھی عظیم اورحفظِ قرآن کی نعمت بھی عظیم،لیکن افسوس صدافسوس اُس حافظ پرجویہ بھول جاتاہے کہ مجھےاللہ تعالی نےکتنی عظیم نعمت سےنوازاہے
میں نےقرآن کویادکرتےہوئےکتنی محنت کی تھی،ایک ایک آیت کی رٹ لگالگاکرمیں کتناہلاتھا،حفظ کرتےہوئےکتنےسال لگائےتھے،والدین نےکتنی قربانیاں دیں تھیں اُستادنےمیرےساتھ کتنی محنت کی تھی،یخ ٹھٹرتی راتوں میں فجرسےبھی پہلےسویرےاٹھنامیرےلئےکتنامشکل تھا،صبح سےدوپہر،ظہرسےعصراورمغرب سےعشاء تک شدیدگرمی میں سرہلاہلاکرمیں کتناپسینہ پسینہ ہوجاتاتھا
جی ہاں قرآن بھلاتےہوئےوہ یہ سب کچھ بھول جاتاہے،،،
بھول جاتاہےقرآن کواس حقیردنیاکی خاطر،وقتی خواہشات کی خاطر
اورآج کل فیس بک،ٹویٹر،واٹسپ اورمختلف میسنجرزکی خاطر،دنیاکےہرکام کےلئےاُس کےپاس وقت ہے،فرصت نہیں ہےتوصرف قرآن کےلئےنہیں ہے
میں اس بحث میں بالکل نہیں پڑتاکہ قرآن کریم کوبھلادیناگناہ کبیرہ ہےیاصغیرہ،کس حدتک وہ بھول جائےتوگناہ گارسمجھاجائےگاوغیرہ وغیرہ ،،لیکن میں یہ ضرورکہتاہوں کہ جس نےقرآن کوبھلادیااُس نےاللہ تعالی کی طرف سےعنایت کی ہوئی ایک عظیم اوربہت عظیم نعمت کی ناقدری کی ،کلامِ پاک سےبےوفائی کی بدترین مثال قائم کی، اوراس بات میں شایدکسی کواختلاف بھی نہ ہو،کاش بھلانے والاحافظ اس بات کو سمجھ جاتاکہ اللہ تعالی نے بےشمارلوگومیں اُس کومنتخب کرکےکتنا قیمتی تحفہ عطاء کیاتھا،لیکن شاید غفلت میں ڈوبا حافظ یاتو اس لئےقرآن کوبھلاتاہے ،کہ اُس کےپیٹ کامسئلہ حل ہوجاتاہے،امامت مل جاتی ہے،مدرس بن جاتاہے،ٹیوشن سےکام چل جاتاہےاوریاپھرتجویدکےپوسٹ پرسرکاری سکول میں ٹیچرلگ جاتاہے،
اب رمضان میں ایک پارےمیں دسیوں غلطیاں آجائے یاغلطی نہ آئےجیب نےتواُسی مقدارمیں بھرناہے،یاپھروہ قرآن کواس لئےبھلاتاہےکہ نام کےساتھ اب قاری،شیخ یاحافظ صاحب کاسابقہ یالاحقہ ایساپیوست ہوچکاہے،کہ اب اُس کوقرآن یادنہ بھی ہوتب بھی وہ قاری ،شیخ القراء اورحافظ جی،بہرحال کہلائےگا،جی ہاں شہرت مل چکی خاندان والوں کوپتہ لگ چکا،نام خوب کماچکا اوربھرپورچرچاہوچکا،،اب کون ہےقاری صاحب سےدنیامیں امتحان لینےوالااورآخرت میں توقرآن نےاُسکی سفارش کرنی ہےشکایت تھوڑی کرنی ہے،،،میرےخیال میں
قرآن حفظ کرنا اتنا مشکل نہیں جتناکہ اسے یاد رکھنامشکل ہے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" قرآن کی خبرگیری کیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، قرآن سینوں سے اتنی جلد نکل جاتا ہے کہ اونٹ بھی اتنی جلدی اپنی رسی سے نہیں نکلتا۔ (بخاری ومسلم
قرآن مجید کا بھول جانا بعض اوقات کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہوتا ہے،ایسی صورت میں،ان شاءاللہ، ربِ کریم کےہاں کوئی پکڑنہیں ہوگی لیکن بعض دفعہ ایک حافظ اپنی سستی،کاہلی،اورغفلت کی وجہ سےقرآن کوبھلادیتاہے
اس صورت میں اُس کامعاملہ اللہ کےسپردہے،حافظہ کے کمزورہوجانے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہےلیکن ایک وجہ گناہوں پراصراربھی ہے،اسی کےبارےمیں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
شکوت الی وکیع سوء حفظی
فارشدنی الی ترک المعاصی
فان الحفظ فضل من الہ
وفضل اللہ لا یعطی لعاصی
میں نے (اپنےاستاد )وکیع سےاپنےحافظہ کےکمزورہونےکی شکایت کی تو انہوں نےمجھے گناہوں کو چھوڑنے کی ہدایت کی،فرمایااسلئےکہ صحت مندحافظہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل گناہگاروں کو نہیں دیاجاتا_
اے میرےغفلت میں ڈوبےحافظِ قرآن بھائی،لوٹ جااپنےبھولےہوئےقرآن کی طرف،اس سےاپنارشتہ اتنامضبوط کرکہ رمضان اورغیرِ رمضان میں کم اورزیادہ تلاوت کافرق اگرہوتوہولیکن تعلق ٹوٹےنہیں،کم اورزیادہ سےاتنافرق نہیں پڑتالیکن ناغہ کرنےسےضروربےبرکتی ہوتی ہے، نہ کراس عظیم کتاب سےبےوفائی،پڑھ اِس کوقبل اس کےکہ یہ تیرےایصالِ ثواب کےلئےپڑھاجائے،یاپھرخودتجھےقرآن ایساخیربادکہدےکہ پھرتمہاری صلح ہی اس سے نہ ہوسکے،اور،روزِ قیامت جب تجھ سےکہاجائےکہ پڑھتاجااورچڑھتاجاتو،تم پڑھنےپرقادرہی نہ ہوسکو
ماہِ رمضان کی طرح ماہ شعبان بھی حافظ قرآن کے لیے بہترین مہینہ ہے۔
اس کوبھی بعضِ اھل علم نےشھرالقرآن کہاہے،اس میں ماحول سازگارہونےلگتاہے نیکی کی طرف میلان بڑھ جاتاہےاوررمضان کےآثارظاہرہونےلگتےہیں،اس ماہ میں کی جانےوالی محنت رمضان میں کام آئیگی،شعبان کےمتعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"ذلك شهر يغفل الناس عنه ، بين رجب ورمضان ، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين ، فأحب أن يرفع عملي ، وأنا صائم ۔۔۔ صحيح النسائي) یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اوررمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں،
اےمیرےقاری بھائی کیاتم یہ پسندکروگےکہ تیرےاعمال رب العالمین کےدربارمیں اس حال میں پیش ہوں کہ تم قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہو،اورفرشتےتیرےرب کےہاں تیری تلاوت کی گواہی دے،،قدرکراس نعمت کی،یہ نعمت بڑےنصیب والےکوملتی ہے،،اللہ تعالی تیراحامی وناصرہو
 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 36243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.