(وجاءَكُمُ النَّذير)اورتمھارےپاس ڈرانےوالابھی آیاتھا
تحریر-- - - ابو افنان عبدالوہاب
قیامت کےدن انسان سےکہاجائیگاکہ"کیاہم نےتمہیں اتنی
عمرنہیں دی تھی کہ جس کسی کواُس میں نصیحت حاصل کرنی ہوتی کرلیتا
اورتمہارےپاس (اللہ تعالی کےعذاب سے)ڈرانےوالا بھی آیاتھا،،
ڈرانےوالوں اورخبردارکرنےوالوں سےمرادانبیاء کرام،اللہ تعالی کی طرف سےنازل
کردہ کتابیں اوراس
اُمت کےلئےسرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ پرنازل کی گئ کتاب قرآن کریم
ہے،اسی طرح ڈرانےوالوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،علماءکرام،عمرکےمختلف
مراحل بیماری یامصیبت،اورآس پاس کےلوگوں کادنیاسےکوچ کرجانا بھی شامل ہے،کہ
یہ سب کچھ انسان کوموت اورآخرت یاد دلاتاہے،اس کےعلاوہ بعض حضرات
نے(نذیر)ڈرانے والےسےسفیدبال بھی مرادلئےہیں _
جیسےموت حدیث کےمطابق مومن کےلئےراحت ہے،لیکن اس کےباوجودطبعی طورپروہ نہیں
چاہتاکہ اُسےموت آجائےبالکل اسی طرح سفیدبال اگرچہ نورِ مسلم اورباعثِ عزت
و وقارہےلکن کوئی نہیں چاہتاکہ اُس کےبال سفیدہوجائے،ہم ابھی 36 کےپیٹےمیں
ہی ہونگے لیکن
سفیدبال کی شکل میں ڈرانےوالا ہمارےہاں بھی حاضرہوچکاہے،وہ صرف مہمان
کےطورپرنہیں آیابلکہ مستقل رہےگااورہرروزاُس کےساتھی بھی بڑھ رہےہیں،
ویسےپہلےذکرکردہ اتنے سارےڈرانےوالےہمارےلئےکافی تھے،ہم اتنےشریرنہیں
ہیں،لیکن یہ اللہ جلّ شانہ کانظام ہےکہ وہ بندےپرہراعتبارسےاپنی حجت تمام
کردیتاہےتاکہ اُس کےلئےکوئی عذرباقی نہ رہے،آج کل چونکہ عمرمیں وہ برکت
نہیں رہی جوکسی زمانےمیں ہواکرتی تھی اسلئے یہ ڈرانے
والا اب اپنے وقت سےکافی پہلےآجاتاہے
ہمارےمعاشرے میں سفیدبال کی شکل میں ڈرانےوالا بعض حضرات کی زندگی میں بڑا
انقلاب لاتاہے،اللہ کرےہماری زندگی میں بھی کوئی خوشگوار انقلاب آجائے،جبکہ
بعض حضرات
(الآن کماکان)کےمصداق ہوتےہیں،یعنی اب بھی وہی حال جوپہلےتھا،احادیث میں
سفیدبالوں کواکھیڑنےاورسیاہ کرنےسےمنع کیاگیاہےاوراُن کو مسلمان
کانورقراردیاگیاہے،
لیکن سیاہ رنگ کےعلاوہ کسی اور رنگ سےبالوں کورنگنےکی شرعاًاجازت بھی
ہےچنانچہ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا
ابوبکررضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو لایاگیا، ان کے سر
اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :غیر واھذا بشیئ
و اجتنبوا السواد“ اس کا رنگ کسی چیزسے بدلو اور کالے رنگ سے بچو۔ (صحیح
مسلم،
اسلئےایک آپشن تویہ ہےکہ بالکل کالے رنگ کےعلاوہ سیاہ مائل یاکسی اوررنگ
کااستعمال کیاجائے،
سیاہ خضاب کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، شوافع عام حالات میں اسے
حرام قرار دیتے ہیں، مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ
مکروہ کہتے ہیں،
لیکن کراہت سےمراد کراہتِ تحریمی ہےجوبہرحال حرام ہی کاایک درجہ ہےجبکہ
امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسف کی طرف جواز کاقول منسوب ہے،اُن کی
طرف یہ قول بھی منسوب ہےکہ جیسے
شوہرکواچھالگتاہےکہ اُسکی بیوی اُس کےلئےتزئین وآرائش کرےاسی طرح عورتیں
بھی چاہتی ہیں کہ اُن کےشوہر ان کے لئے آراستہ ہوں،لیکن عام فقہاء احناف
نےاس صورت میں بھی کالاخضاب مکروہ قراردیاہےاوراسی پرفتوی ہے،
بعض علماء کےہاں اگربیوی کم عمرہوتوایسی صورت میں اُس کےدل جوئی کی
خاطرسیاہ خضاب استعمال کرنےکی اجازت ہے،
الابلا برگردنِ ملّا،،،،سوچا
کیوں نہ ہم بھی یہ دوسراآپشن اختیارکرکے اپنےسےنو دس سال چھوٹی کوتلاش
کرے،ایک توتازہ دم جورو مل جائیگی،اور دوسرایہ کہ
سیاہ خضاب کےاستعمال کی گنجائش نکل آجائیگی،لیکن اس میں ایک تومشکل یہ ہےکہ
پہلےجوروکےہوتےہوئےدوسری کوئی نہیں دیگااب خان صاحب کی طرح پہلی
کوچلتاتونہیں کرسکتےاورنہ ہی اُن کی طرح ٹمپریری شادی ہم کریں گے،ہماری
دوسری شادی کےخیال میں دوسری رکاوٹ
چنددن پہلےعربی اخبارمیں حانہ مانہ کےقصےکانظرسےگزرناتھا،اُ س کےپڑھنے
کےبعد
ہماری سوچ یکسرتبدیل ہوگئی،آپ بھی یہ قصہ پڑھکرشاید
دوسری شادی کاخیال ذہن سےنکال دے،
ایک آدمی کی دوبیویاں تھی،بیس سال کی لگ بھگ چھوٹی کانام
حانہ تھاجبکہ بڑی (مانہ) کی عمرپچاس سےزیادہ تھی،ڈرانے
والا(سفیدبال)شوہرکی طرح مانہ کےپاس بھی پہنچ چکاتھا،
شوہرجب حانہ کےکمرےمیں جاتاتووہ یہ کہکرسفیدبال اکھیڑتی کہ مجھےآپ کےبالوں
میں سفیدی بالکل اچھی نہیں لگتی آپکی عمرہی کیاہے،ابھی توآپ یک دم جوان
ہیں،اورجب مانہ کےپاس جاتاتووہ یہ کہکرسیاہ بال اکھیڑتی کہ آپ بڑی
عمرکےبزرگ اورجلیل القدرشوہرہیں،اس پیرانہ سالی میں آنجناب کیساتھ یہ بچپنہ
اچھانہیں لگتا،،یہ سلسلہ چند دن چلتارہا،ایک دن جب آئینہ
کےسامنےکھڑاہواتودیکھاکہ داڑھی توآدھے سے زیادہ غائب ہے،اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اس لئے بڑےدردسےکہنےلگا"بین حانہ ومانہ ضاعت لحانا،،
یعنی حانہ اورمانہ کےبیچ رہ کرہم نےاپنی داڑھیاں ہی گنوادیں،،
ہم نےبھی یہ سوچ کردوسری شادی سےتوبہ کی کہ کہیں
ہماری داڑھی بھی دوبیویوں کی شرارتوں کی نظرنہ ہوجائے
ویسےہم نےیہ واقعہ پڑھنےسے پہلےدوسری شادی کےحوالےسےاپنی موجودہ بیگم کی
رائےمعلوم کی تھی،آن محترمہ کہنےلگی صرف دل میں بسانےکےلئےیہ خیال بہت
موزوں ہےاس سےدل جوان رہتاہے،کبھی کبھی تذکرہ کرنےسےمنہ کاذائقہ بھی
میٹھاہوجاتاہے،باقی آپ خودسمجھ دارہیں،
|