لتا منگیشکر اور نور جہاں جو رہتی تو دو الگ الگ ملکوں میں تھیں مگر دونوں میں بہنوں جیسا پیار تھا یہی وجہ ہے کہ لتا منگیشکر بتاتی ہیں کہ جب میں ایک مرتبہ نورجہاں سے واہگہ بارڈر پر ملی۔
تو انہوں نے تحفے میں مجھے ایک چھوٹا سا پیکٹ دیا جس پر انڈین بارڈر سیکورٹی نے مجھ سے دریافت کیا کہ اس میں چھپا کر کیا دیا ہے؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جب یہ پیکٹ کھولا گیا تو اس میں بریانی اور آموں کے گودے سے تیار کردہ ایک ڈش نکلی۔ یہ دونوں ڈشیں مجھے پسند تھیں اور یہ بات دیدی(نورجہاں) کو پتا تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خاص طور پر میرے لیے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لائی تھیں۔
اس ملاقات کے بارے میں لتا منگیشکر مزید کہتی ہیں کہ یہ کھانے نا تو ہندو تھے اور نا مسلمان، نا انڈین تھے، ناپاکستانی۔ یہ نازک اور پیار بھرے ہاتھوں سے تیار کیے گئے تھے۔
جو چھوٹے چھوتے اختلافات کی حدوں سے اوپر اوٹھ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ لتا جی نے اپنی بائیو گرافی میں تحریر کیا تھا۔ بقول لتا جی کے، یہ ملاقات کچھ یوں ہوئی کہ ایک مرتبہ لتا منگیشکر امرتسر میں اپنی فلم کی شوٹنگ کیلئے گئی ہوئی تھیںٓ تو خیال آیا کہ کیوں نا ملا جائے ویسے ٹیلی فون پر ہم دونوں کی بات تو ہوا کرتی تھی۔
یہ خیال مجھے اس لیے آیا کیونکہ لاہور اور امرتسر کا فاصلہ بہت کم تھا۔جب میں نے دیدی سے اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے اپنی جانب تمام انتظامات کا کہہ دیا اور میں نے بھی اس جانب پرمٹ کا کہہ دیا۔
واضح رہے کہ اس وقت پرمٹ آسانی سے مل جایا کرتا تھا۔ اس کے بعد وقت اور دن طے پایا پھر وہ دن آیا جب واہگہ باڈر پر میں اور نورجہاں ایک دوسرے کے گلے ملیں۔
نومین لینڈ پر ہم نے ایک دوسرے سے بہت باتیں کیں لیکن یہ وقت آنکھ جھپکتے گزر گیا، کبھی کبھار تو مجھے یہ وقت ایک زندگی سا لگتا ہے اور سوچوں تو یہ وقت ایک لمحہ بن کر زندگی سے خارج ہو گیا تھا۔ بچھڑتے وقت ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔