آئی پی سی کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ صورتحال مکمل طور پر ’انسانوں کی پیدا کردہ‘ ہے۔ مختلف امدادی تنظیمیں اس کا ذمے دار اسرائیل کو ٹھہراتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں خوراک کی ترسیل میں ’منظم رکاوٹ‘ ڈالی جا رہی ہے۔
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں خوراک کی قلت کی وجہ سے ہلاکتیں بڑھنے کے خدشات ہیںغزہ میں اس وقت قحط ہے۔ حالاں کہ کچھ دُور سرحد کے اُس پار امدادی سامان اور اشیائے خورد و نوش سے لدے سینکڑوں ٹرک موجود ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر غزہ میں قحط کیوں ہے اور حالات اس نہج پر کیسے پہنچے؟
اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ غذائی تحفظ کی نگرانی کرنے والے ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) نے جنگ کی شروعات کے بعد پہلی بار غزہ شہر میں قحط کی باضابطہ تصدیق کی ہے۔
اس کا اندازہ ہے کہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی یعنی پانچ لاکھ افراد قحط کا شکار ہیں اور اُس کی چونکا دینے والی وجوہات ہیں۔
آئی پی سی کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ یہ صورتحال مکمل طور پر ’انسانوں کی پیدا کردہ‘ ہے۔ مختلف امدادی تنظیمیں اس کا ذمے دار اسرائیل کو ٹھہراتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں خوراک کی ترسیل میں 'منظم رکاوٹ' ڈالی جا رہی ہے۔
آئی پی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ سٹی کے علاقے میں رہنے والے لوگ 'بھوک، بے روزگاری اور موت' جیسی قحط کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق فاقہ کشی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ موجودہ رجحانات کے مطابق ستمبر میں غزہ کے باقی حصوں میں بھی قحط کی توقع ہے۔
رپورٹ تین اہم اشاریوں کے ذریعے غزہ کی صورتحال کا احاطہ کرتی ہے۔
فاقہ کشی: پانچ میں سے کم از کم ایک گھرانے کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
غذائیت: تقریباً تین میں سے ایک یا اس سے زیادہ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
شرح اموات: ہر 10 ہزار میں سے کم از کم 2 افراد روزانہ بھوک یا غذائی قلت اور بیماری کے امتزاج کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
جب کسی بھی علاقے میں ان تین میں سے دو حالات پیدا ہو چکے ہوں تو آئی پی سی اسے قحط تسلیم کرتا ہے۔
آئی پی سی کا کہنا ہے کہ مانیٹرنگ کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے غیر تکلیف دہ اموات کا ڈیٹا مرتب کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
آئی پی سی کے مطابق ماہرین کی آرا اور شواہد کی بنا پر آئی پی سی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ غزہ میں ہونے والی اموات قحط کے زمرے میں آتی ہیں۔
یہ رپورٹ اس وقت شائع ہوئی جب غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے غذائی قلت سے دو نئی اموات ریکارڈ کیں، جس سے اموات کی مجموعی تعداد 273 ہو گئی جن میں 112 بچے بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بارہا غزہ میں غذائی قلت کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ جہاں بھوک ہے وہ امدادی اداروں اور حماس کی غلطی ہے۔
اسرائیل یہ الزام عائد کرتا ہے کہ اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیاں غزہ کی سرحد پر کھڑے سینکڑوں ٹرکوں سے خود امداد وصول نہیں کر رہیں۔
جنا ایاد کا دیر البلاح کے انٹرنیشنل میڈیکل کور کے فیلڈ ہسپتال میں غذائی قلت کا علاج کیا جا رہا ہے'مکمل طور پر انسانوں کا پیدا کردہ بحران'
کئی ہفتوں سے غزہ سے ایسی تصاویر سامنے آ رہی ہیں جن میں خالی پیٹ بچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے ہیں۔ یہظاہر کرتا ہے کہ کافی عرصے سے غزہ میں قحط جیسے حالات کے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔
غزہ میں تقریباً دو سالہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کی خوراک تک رسائی کی صلاحیت پیچیدہ رہی ہے۔
اسرائیل نے طویل عرصے سے غزہ میں داخل ہونے والے سامان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، ان پابندیوں میں سات اکتوبر 2023 کو جنگ کے آغاز کے بعد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
تاہم، مارچ 2025 کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں داخل ہونے والے سامان پر تقریباً تین ماہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد صورتحال تیزی سے خراب ہوئی ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل نے مئی کے آخر میں محدود مقدار میں سامان غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
اسرائیل نے خوراک کی تقسیم کا ایک نیا نظام بھی متعارف کرایا جو ایک متنازعہ امریکی گروپ کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ اسے غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کہا جاتا ہے تاکہ خوراک کی تقسیم کے اقوام متحدہ کے پہلے سے جاری نظام کو تبدیل کیا جاسکے۔
جی ایچ ایف کے پاس عسکری علاقوں میں خوراک کی تقسیم کی چار جگہیں ہیں جہاں فلسطینیوں کو خطرے میں لمبا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت 400 ڈسٹری بیوشن پوائنٹس قائم تھے۔
فوڈ پوائنٹس پر آئے روز فائرنگ سے اموات کا حوالہ دیتے ہوئے بعض شہریوں کا کہنا ہے کہ خوراک کی تلاش فلسطینیوں کے لیے ایک جان لیوا کوشش بن گئی ہے۔ ’انھیں بھوک اور موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق مئی سے لے کر اب تک جی ایچ ایف کے زیر اہتمام قائم کردہ فوڈ پوائنٹس کے آس پاس فائرنگ کے واقعات میں 994 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ مجموعی طور پر خوراک کے حصول کے دوران بھگدڑ اور دیگر واقعات میں اب تک 1760 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت اسرائیلی فوجیوں کی گولی سے ماری گئی تھی، جس کی تصدیق غزہ میں موجود عینی شاہدین اور طبی ماہرین نے کی ہے۔ اسرائیل نے بارہا ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔
اسرائیل کے زیر نگرانی اس نظام کے تحت غزہ میں فاقہ کشی پھیل گئی ہے۔
انڈونیشیا کے ہرکولیس طیارے نے غزہ کی پٹی پر انسانی امداد کے پیکج گرائے’غزہ کے تشویش ناک حالات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں‘
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے آئی پی سی کی جمعے کے روز سامنے آنے والی رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ جب غزہ کے تشویش ناک حالات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں بچے تو ایسے میں ایک نیا لفظ سامنے آجاتا ہے جیسے کہ اب ہوا ہے، اب جو لفظ یا سامنے آیا ہے وہ ’قحط‘ کا ہے۔‘
انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ ’یہ کوئی معمہ نہیں ہے بلکہ یہ اخلاقی گراوٹ اور اور انسانیت کی ناکامی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’قحط صرف خوراک کا نہیں ہے بلکہ انسانی بقا کے لیے درکار نظام اور ایسے اداروں کا بھی ہے کہ جو ان حالات میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی قانون کے تحت اسرائیل کی واضح ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہم اس صورتحال کو بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ مزید بہانے نہیں، کارروائی کا وقت کل نہیں آج اور ابھی ہے۔ ہمیں فوری طور پر جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی فوری رہائی اور مکمل اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔'
انتونیو گوتریس نے کہا کہ اسرائیل قابض طاقت کے طور پر بین الاقوامی قوانین کے تحت واضح ذمے داریاں رکھتا ہے۔ اس میں خوراک اور طبی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے سربراہ ٹام فلیچر نے کہا کہ قحط اسرائیل کی طرف سے غزہ میں داخل ہونے والی امداد کی 'منظم رکاوٹ' کا براہ راست نتیجہ ہے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کو قحط کا ذمے دار ٹھہرانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےاسرائیل پرغزہ میں خوراک کی ترسیل کے لیے بڑھتے ہوئے دباو کے بعد جولائی کے آخر میں اس نے امداد کے مزید ٹرکوں کو ہر روز غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا شروع کر دی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ مزید امدادی قافلوں کو علاقے سے گزرنے کے لیے 'حکمت عملی کے تحت جنگ روکنے' جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں مزید امداد داخل ہوئی ہے اور بازاروں میں آسمان سے باتیں کرتی کچھ اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ بھی مہنگی ہے۔ بعض اوقات آٹے کی قیمت ایک کلو کے لیے 85 ڈالر سے اوپر پہنچ جاتی تھی، تاہم اس میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں خوراک کی آمدورفت پر پابندیوں میں کچھ نرمی کے باوجود، وہ اب بھی امداد جمع کرنے اور تقسیم کرنے کے عمل میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ میں یومیہ 600 ٹرک امداد کی ضرورت ہے۔ لیکن فی الحال اس میں سے نصف سے کچھ زیادہ کو داخلے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
اسرائیل نے فضا سے امداد کی ترسیل کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن امدادی تنظیموں کے مطابق یہ غیر موثر اور خطرناک ہے۔
اسرائیل کی جانب سے حماس کو قحط کا ذمے دار ٹھہرانے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ متعدد رپورٹس بشمول امریکی حکومت کی رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے امداد میں رکاوٹ ڈالنے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
غزہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوتی ہے – لیکن امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوٹ مار مایوس فلسطینیوں کے ہجوم اور کچھ منظم گروہوں کی طرف سے ہوتی ہے جو دوبارہ فروخت سے منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
امدادی ایجنسیاں کئی ماہ سے یہ دہرا رہی ہیں کہ بھوک اور قحط سے بچنے کے لیے غزہ کو سڑک کے ذریعے داخل ہونے والی امداد میں اضافے کی ضرورت ہے اور اسرائیل اب بھی پابندیاں لگا رہا ہے۔
اسرائیل کا ردعمل
اسرائیلی حکومت کے متعدد عہدیداروں نے آئی پی سی کی رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے آئی پی سی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے 'حماس کی جعلی مہم کو بڑھاوا دینے کے لیے تیار کردہ من گھڑت رپورٹ' شائع کی ہے۔
اسرائیلی فوج کے ادارے 'کوگاٹ' جس کے پاس غزہ کراسنگ کا کنٹرول ہے نے آئی پی سی کی رپورٹ کو غلط اور جانبدارانہ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ 'دہشت گرد تنظیم حماس کی جانب سے فراہم کیے گئے ڈیٹا پر مبنی ہے۔'
اسرائیل کا کہنا ہے کہ آئی پی سی نے قحط سے متعلق اپنے ہی طے کردہ عالمی معیار کی نفی کرتے ہوئے قحط کا سامنا کرنے والوں کی شرح کو 30 فیصد سے 15 فیصد کر دیا ہے اور ساتھ ہی اموات کی شرح کے اپنے ضوابط کو بھی نظرانداز کیا۔
آئی پی سی نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے طویل عرصے سے قائم کردہ معیارات کا استعمال کیا ہے جو پہلے بھی اسی طرح کے حالات میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔
اسرائیل کا یہ الزام کہ آئی پی سی نے'حماس کے ڈیٹا' کا استعمال کیا ہے اس حوالے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں غذائی قلت کے بارے میں کچھ رپورٹنگ حماس کے زیر انتظام وہاں کی وزارت صحت سے آتی ہے۔
تاہم، پوری جنگ میں ہلاکتوں اور زخمیوں کے بارے میں وزارت کے اعداد و شمار کو بڑے پیمانے پر قابل اعتماد دیکھا گیا ہے۔
دریں اثناء برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا: 'اسرائیلی حکومت کی طرف سے غزہ میں خاطر خواہ امداد کی اجازت دینے سے انکار نے انسان کی پیدا کردہ تباہی کو جنم دیا ہے۔'
جمعہ کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ 'جنگ کے طریقہ کار کے طور پر بھوک کو استعمال کرنا جنگی جرم ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات جان بوجھ کر قتل کے جنگی جرم کے مترادف ہو سکتی ہیں۔'
غزہ شہر پر حملہ
اسرائیل نے اس ہفتے غزہ شہر پر اپنے متنازع حملے اور قبضے کے لیے دسیوں ہزار ریزرو فوجیوں کو بلانے کی اجازت دی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آئی پی سی کے مطابق قحط جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس کو شکست دینے، جنگ کے خاتمے اور غزہ سے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے غزہ سٹی پر قبضہ بہترین آپشن ہے۔
اس حملے سے غزہ شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مقیم ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کر دیا جائے گا۔ اسرائیل پہلے ہی طبی اور امدادی ایجنسیوں سے کہہ چکا ہے کہ وہ علاقے کو خالی کرنے کے منصوبے بنانے کے لیے تیاریاں کریں۔
یونیسیف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت اقوام متحدہ کی متعدد تنظیموں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'اس کے عام شہریوں کے لیے مزید تباہ کن نتائج ہوں گے جہاں قحط کے حالات پہلے سے موجود ہیں۔'
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ خاص طور پر بیمار، بزرگ، معذور اور غذائی قلت کے شکار بچے انخلا کے قابل نہیں ہیں۔