جس چیز نے ’نورما‘ کی کہانی کو قومی سطح پر ایک جنون میں بدل دیا، وہ اس کا ایک وائرل سچی کہانی پر مبنی ہونا ہے۔
انڈونیشیا کے فلم بینوں کے درمیان مہینوں سے ایک فلم ’نورما‘ پر بات ہو رہی ہے کہ کس طرح بظاہر خوشگوار نظر آنے والی ایک شادی شوہر کے اپنی ساس کے ساتھ خفیہ تعلقات کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہے۔
یہ ایسی کہانی ہے جو ہمیشہ سے جذباتی ڈراموں کے شوقین لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی آئی ہے۔ لیکن جس چیز نے ’نورما‘ کی کہانی کو قومی سطح پر ایک جنون میں بدل دیا، وہ اس کا ایک وائرل سچی کہانی پر مبنی ہونا ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2022 میں انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا کے شہر سیرانگ کی ایک خاتون نورما رسما نے اپنے شوہر اور اپنی ماں کے تعلقات کو ایک ٹک ٹاک ویڈیو کے ذریعے بے نقاب کیا تھا۔
یہ کہانی تیزی سے وائرل ہوئی، لاکھوں ویوز حاصل کیے، خبروں کی زینت بنی اور بالآخر اس پر ایک فلمی بنائی گئی جس نے پورے جنوب مشرقی ایشیا میں دھوم مچا رکھی ہے۔
’نورما‘ مارچ میں انڈونیشیا کے سینما گھروں میں اور اگست میں نیٹ فلکس پر ریلیز ہوئی اور جلد ہی یہ نہ صرف انڈونیشیا بلکہ ملیشیا اور سنگاپور میں بھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلموں میں شامل ہو گئی، جہاں بڑی تعداد میں ملایا مسلم آبادی رہتی ہے۔
یہ فلم انڈونیشیا کے فلم سازوں کی جانب سے دریافت کیے گئے ایک کامیاب فارمولے پر مبنی ہے یعنی کسی وائرل سوشل میڈیا سکینڈل کو فلموں میں کیسے ڈھالا جائے۔
جون 2024 تک انڈونیشیا کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم ’کے کے این دی دیسا پناری‘ تھی۔ یہ فلم سنہ 2022 میں ریلیز ہونے والی ایک ہارر فلم تھی اور چھ یونیورسٹی طلبہ کو پیش آنے والے ایک پراسرار واقعے پر مبنی تھی۔
یہ کہانی بھی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے ایک مشہور تھریڈ سے لی گئی تھی۔ سنہ 2023 میں ایک اور ہارر فلم ’سیو دینو‘ بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے اسی ایکس اکاؤنٹ کی کہانی سے ماخوذ تھی۔
وہ کہانیاں بھی اتنی ہی مقبول ہوئیں جن میں جنسی بے راہ روی کے عنصر شامل تھے۔ ’ایپار عدالہ موت‘ سنہ 2024 کی ایک انڈونیشین فلم ہے جو ایک شخص اور اس کی سالی کے درمیان تعلقات پر مبنی ہے، اسے بھی ٹک ٹاک ویڈیو سے ماخوذ ’سچی کہانی‘ کے طور پر پیش کیا گیا۔
سنہ 2022 کی ڈرامہ سیریز ’لیانگان پوتوس‘ ایک بے وفا شوہر کے ہاتھوں تباہ ہونے والے خاندان کی کہانی تھی، یہ بھی ٹک ٹاک سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔
ایسے موضوعات انڈونیشیا میں سخت ممنوع سمجھے جاتے ہیں اور وہاں زناکاری پر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ملک کا نیا فوجداری قانون، جو اگلے سال سے نافذ ہوگا، کے تحت شادی کے بغیر جنسی تعلق کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور ملک کے سب سے قدامت پسند صوبے میں شادی سے پہلے کے جنسی تعلقات پر سرعام کوڑوں کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔
تاہم، اس مذہبی قدامت پسندی کی فضا میں گھریلو سکینڈلز میں جھانکنے کی خواہش زور پکڑتی جا رہی ہے۔
سوشل میڈیا کی مدد سے وہ کہانیاں جو کبھی صرف محلّے کی چغلیوں تک محدود تھیں، اب ’پلاکور‘ کے نام سے وائرل مواد بن چکی ہیں۔
پلاکور ایک عام اصطلاح ہے جو ایسی عورت کے لیے استعمال ہوتی ہے جو کسی کا گھر توڑ دے، اور ایسی ویڈیوز میں اکثر یہی لفظ استعمال ہوتا ہے جن میں بیویاں اپنے شوہروں کی محبوباؤں کا سامنا کرتی ہیں۔
جکارتہ آرٹس کونسل فلم کمیٹی کی رکن ایس ایم جیٹی تمبونن نے بی بی سی انڈونیشین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی فلموں کے ذریعے لوگوں کو دوسروں کے گھریلو مسائل میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔‘
’خاص طور پر قدامت پسند ماحول کی وجہ سے لوگ اور بھی زیادہ متجسس ہو گئے ہیں۔‘
سکینڈل کا چسکا پڑنا
جکارتہ کی 42 سالہ گھریلو خاتون ویرو، نورما کی کہانی کو اس وقت سے فالو کر رہی ہیں جب یہ ٹک ٹاک پر وائرل ہوئی تھی۔ وہ بی بی سی انڈونیشین سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے شوہر اور ماں پر بہت غصہ آیا۔‘
’جب مجھے پتا چلا کہ اس کہانی پر فلم بن رہی ہے، تو میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ان دونوں نے نورما کے ساتھ کتنا ظلم و ستم کیا تھا۔‘
فلم جب اپنے کلائمیکس پر پہنچتی ہے تو وہ رو پڑتی ہیں۔ اور ان کے مطابق کلائمیکس اس وقت آتا ہے جب نورما اپنے گھر کے باہر بھیڑ میں سے گزر کر اپنے شوہر اور ماں کو نیم برہنہ حالت میں ایک کمرے میں پاتی ہیں۔
فلم کے ان سافٹ مناظر نے ناظرین کو چونکایا بھی اور متاثر بھی کیا جن میں نورما کے شوہر اور ان کی ماں ایک الجھن میں مبتلا ہیں مگر پھر اپنے تعلق کو تسلیم کرتے ہیں۔
ایک ٹک ٹاک صارف نے ان دونوں کے بوسے والے منظر پر تبصرہ کیا کرتے ہوئے کہا: ’یقیناً یہ کرنے کے بعد ان کو خود بھی گھن آئی ہو گی۔‘
فلم میں، جب ایک دوست ان کے ناجائز تعلق کا پتہ لگا کر انھیں رنگے ہاتھوں پکڑتی ہے، تو وہ قے کر دیتی ہے۔
جیٹی خبردار کرتی ہیں کہ ایسی کہانیوں میں ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ زیادہ تر الزام عورتوں پر ڈالا جاتا ہے، نہ کہ مردوں پر جو بے وفائی کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے تنازعات میں جائز شریکِ حیات اور ناجائز محبوبہ کے درمیان، مرد کو اکثر کوئی سزا نہیں ملتی۔‘
لیکن فلم ’نورما‘ کو جو چیز منفرد بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ خود نورما نے فلم کے تخلیقی عمل میں حصہ لیا۔ یہ بات فلم کی سکرین رائٹر اوکا اورورا بتاتی ہیں جو ’ایپار ادالہ موت‘ اور ’لیانگان پوتوس‘ کے سکرپٹس بھی لکھ چکی ہیں۔
نورما کے جذبات اور ان کی ماں کے پس منظر کے بارے میں گہرے مکالموں کے بعد، اوکا کہتی ہیں کہ ’فلم کی بنیادی کہانی عمومی طور پر وہی ہے تاہم ناظرین کے لیے کچھ مناظر کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ فلم لوگوں کی بھڑاس نکالنے اور لطف اٹھانے کا ایک ذریعہ بھی ہے تاکہ جب وہ سینما سے نکلیں تو ان کے پاس سوچنے اور بات کرنے کے لیے کچھ ہو۔‘
آج کل نورما کی زندگی کیسی ہے؟
آج کل اصل نورما اپنے آبائی شہر سیرانگ میں آؤٹ سورسڈ ورکر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
ان کی ماں، ریحانہ آٹھ ماہ قید کی سزا کاٹنے کے بعد واپس گھر آ چکی ہیں۔ نورما کے سابق شوہر روزی کو نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
فروری میں فلم کے متعلق منعقدہ ایک پریس ایونٹ میں نورما نے بتایا کہ انھیں ان پیغامات سے حوصلہ ملا جو دوسرے بے وفائی کا شکار افراد نے انھیں بھیجے۔
انھوں نے کہا: ’جب میرے ساتھ یہ سب ہوا تو میں نے سوچا، ’میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ کیا میں ہی اکیلی ہوں جس کے ساتھ یہ ہوا؟‘ لیکن جب میں نے اپنی بات دنیا کو بتائی تو پتا چلا کہ بہت سے لوگ ایسی ہی صورتحال سے گزرے ہیں۔‘
انڈونیشیا میں زنا کے نئے قانون کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیںاوکا، جو اس فلم کی سکرین رائٹر ہیں، فلم کے پسِ پردہ نسوانی پیغام کی تائید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ’خواتین کے لیے پیغام ہے کہ وہ بے وفائی اور تشدد کے خلاف آواز بلند کریں۔‘
مز جیٹی کا کہنا ہے کہ ’نورما‘ جیسی فلمیں جو گھریلو مسائل پر مبنی سچی کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہیں، ایک مردانہ معاشرے میں خواتین کے لیے ’طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ‘ بن سکتی ہیں اور انھیں ’بولنے کا حوصلہ‘ دے سکتی ہیں۔
نورما نے بی بی سی انڈونیشین سروس سے بات کرنے کی درخواست قبول نہیں کی، تاہم وہ اب بھی اپنے پبلک سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنی زندگی سے متعلق تازہ خبریں شیئر کرتی رہتی ہیں اور انڈونیشیا کے عوام کی جانب سے انھیں بھرپور حمایت مل رہی ہے۔
رواں مہینے انھوں نے ٹک ٹاک پر کچھ تصاویر پوسٹ کیں جن میں وہ ایک کیک کے ساتھ نظر آ رہی ہیں۔ یہ کیک فلم کی پروڈکشن کمپنی کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ اس پوسٹ پر سینکڑوں نیک خواہشات والے تبصرے نظر آتے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا: ’آپ دنیا کی ہر خوشی کی حقدار ہیں۔‘
ایک اور تبصرے میں کہا گیا کہ ’مز نورما، جب میں نے سینما میں آپ کی زندگی کی کہانی دیکھی تو دل چاہا آپ کو گلے لگا لوں۔‘