’چین جنگ کو کیوں ترجیج دے رہا ہے، ایک جوہری بم سرحد کے قریب گِر سکتا ہے‘: چینی شہری کورین اداکارہ کے الفاظ پر ناراض کیوں؟

جاسوسی اور رومانوی کہانی پر مبنی سیریز ’ٹیمپیسٹ‘ میں جنوبی کوریا کی ایک مقبول اداکارہ جن جو ھیون ایک سفارتکار کے طور پر ایک اندھے قتل کے پیچھے چھپے حقائق سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
Korean Drama
Getty Images
جن جو ھیون سنہ 2001 سے شوبِز انڈسٹری میں کام کر رہی ہیں

جاسوسی اور رومانوی کہانی پر مبنی سیریز ’ٹیمپیسٹ‘ میں جنوبی کوریا کی ایک مقبول اداکارہ جن جو ھیون ایک سفارتکار کے طور پر ایک اندھے قتل کے پیچھے چھپے حقائق سامنے لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ڈزنی پلس کی سیریز کی ایک قسط میں جن جو ھیون کا کردار یہ الفاظ ادا کرتا ہوا نظر آیا: ’چین جنگ کو ترجیح کیوں دے رہا ہے؟ ایک جوہری بم سرحد کے قریب گر سکتا ہے۔‘

اس قسط کے نشر ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر چینی شہریوں کی جانب سے ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس سیریز میں غلط انداز میں چین کو جنگی جنون میں مبتلا ملک دکھایا گیا ہے اور اس کے ذریعے ان کے ملک کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

چینی سوشل میڈیا صارفین کی ایک تعداد کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بڑے برانڈز کورین اداکارہ سے اپنے تعلقات منقطع کریں۔

چین نے گذشتہ تقریباً ایک دہائی سے جنوبی کوریا کے تفریحی پروگرامز پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اس موقع پر اس پابندی پر بھی دوبارہ بحث شروع ہو گئی ہے۔

چین نے کبھی بھی اس پابندی کا اعتراف نہیں کیا لیکن سنہ 2016 کے بعد سے چین میں جنوبی کوریا کے مواد کے نشر ہونے میں اچانک کمی آئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس پابندی کی وجہ جنوبی کوریا میں امریکی اینٹی میزائل سسٹم کی تنصیب کا فیصلہ تھا، جسے چین خطے میں اپنی فوجی سرگرمیوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں بظاہر جنوبی کوریا کے لیے چینی رویے میں کچھ نرمی آ رہی تھی اور اس دوران جنوبی کوریا کے کچھ فنکاروں نے چین میں کنسرٹس بھی منعقد کیے۔

لیکن ٹیمپیسٹ کے ایک سین سے شروع ہونے والے تنازع نے جنوبی کوریا کے اداکاروں پر پابندی کی حمایت کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔

چینی سوشل میڈیا سائٹ ویبو پر ایک صارف نے لکھا کہ ’جنوبی کوریا کے اس ڈرامے پر مکمل پابندی عائد کی جائے، شکریہ۔‘

اگرچہ زیادہ تر غم و غصہ چین کے بارے میں اداکارہ جن جو ھیون کے الفاظ پر ہے مگر سوشل میڈیا صارفین نے اس سیریز میں کچھ اور مواد کی بھی نشاندہی کی ہے جو کہ ان کے نزدیک نامناسب ہے۔

مثلاً اس سیریز میں چین کے شہر ڈالیان میں خستہ حال عمارتوں کو دکھایا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سین ہانگ کانگ میں فلمایا کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اس سین میں چین کی خراب شبیہ پیش کی گئی ہے۔

ایک اور سین میں لوگوں کا ایک گروپ ایک میز پر پیلے ستاروں والے سرخ قالین پر بیٹھا ہے ، جس کے بارے میں سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ یہ چینی پرچم سے ملتا جلتا ہے۔

جب جن جو ھیون نے ایک اور جگہ پر ایک قدیم چینی نظم پڑھی تو ناظرین نے ان کے لہجے پر تنقید کی۔

اس سب کی وجہ سے جن جو ھیون کے خلاف ویبو پر ایک منظم مہم چلائی گئی، جہاں صارفین برانڈز پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ انھیں تعلقات منقطع کر کے سزا دیں۔

جنوبی کوریا
Getty Images
چینی سوشل میڈیا صارفین کی ایک تعداد کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بڑے برانڈز کورین اداکارہ سے اپنے تعلقات منقطع کریں

سوشل میڈیا پر کڑی نظر رکھنے والے ویبو صارفین کے مطابق امریکی سکن کیئر برانڈ لا مِر، فرانسیسی لگژری برانڈ لوئس ویٹون اور سوئس گھڑی بنانے والی کمپنی پیجٹ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جن جو ھیون کے چہرے کو ہٹا دیا ہے۔

لوئس ویٹون کے ویبو اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ پر ایک صارف نے کمپنی سے مطالبہ کیا کہ ’جن جی ھیون کے اشتہارات کو ہٹانے کے علاوہ عالمی سطح پر ان سے کیے گئے اپنے معاہدے کو فوری طور پر ختم کردیں۔ بصورت دیگر ہم ہمیشہ کے لیے ایل وی کمپنی کا بائیکاٹ کریں گے۔‘

جن جو ھیون کی ایجنسی نے منگل کو مقامی میڈیا کے ادارے ’ایم بی سی‘ کو بتایا کہ اداکارہ کی برانڈ مہمات کا ٹیمپیسٹ سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور یہ معاہدے اس شو کی ریلیز سے پہلے ہی ختم ہوگئے تھے۔

یہ بات مشہور ہے کہ چینی صارفین کو جب لگتا ہے کہ ان کے قومی وقار پر حرف آیا ہے تو پھر وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے بھرپور مہم چلاتے ہیں۔

سویڈش فیشن کمپنی ایچ اینڈ ایم سے لے کر جاپانی کپڑوں کی چین یونیکلو اور حال ہی میں سوئس گھڑی تک کے برانڈز کو اس طرح کی سوشل میڈیا مہم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تاہم کچھ صارفین نے جن جو ھیون کا دفاع بھی کیا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ یہ متنازع ڈائیلاگ خود اداکارہ نے تو نہیں لکھا ہوگا۔

ویبو پر ایک صارف نے اس سیریز سے وابستہ لوگوں اور مصنفین کی چین سے متعلق لاعلمی کو اس تنازع کی وجہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’جن جی ھیون صرف ایک اداکارہ ہیں۔ فلم بنانے سے پہلے ایک اداکارہ کے لیے کسی ملک کی تاریخ، لوگوں کے جذبات اور ممالک کے مابین پیچیدہ تعلقات کو سمجھنا ناممکن ہے۔‘

لیکن اس طرح کے جذبات کو شدید مخالفت نے کہیں گم کر دیا ہے۔

ایک صارف کے نے لکھا کہ جن جو ھیون کوئی کم تجربہ کار اداکارہ نہیں ہیں۔ ان کے پاس سکرپٹ کے انتخاب کا حق ہے اور وہ سکرپٹ پڑھ سکتی ہیں!‘ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا کہ ’کون کسی مشہور ستارے کو ایسا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے؟‘

جن جو نے سنہ 2001 کے رومانوی کامیڈی شو ’مائی سیسی گرل‘ سے اپنے کریئر کی شروعات کی تھی اور ان کا ایشیائی ممالک میں خوب چرچا ہوا اور وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔

اس کے بعد سے انھوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ سنہ 2013 کی رومانوی سیریز ’مائی لو فرام دی سٹار‘ سے لے کر سنہ 2021 کے نیٹ فلکس تھرلر کنگڈم تک وہ سکرین پر چھائی ہوئی ہیں۔

لیکن جنوبی کوریا کی بہت سی دیگر مشہور شخصیات کی طرح وہ سنہ 2016 کی پابندی کے بعد سے چینی سکرین سے غائب ہیں۔ رواں برس کے آغاز پر پابندی کے خاتمے کی امید تھی کیونکہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری دکھائی دے رہی تھی۔

مارچ میں جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ثقافتی تبادلوں کی بحالی پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اگلے ماہ جنوبی کوریا کا ہپ ہاپ بینڈ ’ہومیز‘ تقریباً ایک دہائی میں چین میں پرفارم کرنے والا پہلا آل کوریائی گروپ بن گیا ہے۔

لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کےپاپ یعنی کورین میوزک اور ڈراموں کو کسی دور میں اپنی سب سے بڑی مارکیٹ چین میں واپسی کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔

مئی میں کے پاپ بوائے بینڈ ایپیکس ’فوژو‘ شہر میں پرفارم کرنے والا تھا جو چین میں ’کے پاپ‘ کا ایک تاریخی کنسرٹ ہوتا۔ لیکن ان کا شو منسوخ کردیا گیا تھا۔

پچھلی دہائی کے دوران چین نے خود کو پاپ کلچر کا کرتا دھرتا ثابت کیا ہے، جو اپنی 1.3 بلین آبادی کو گھریلو میڈیا کے ساتھ تفریح کا مواد فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور بہت سے چینی ناظرین کے لیے ٹیمپیسٹ پر تنازع نے انھیں کورین مواد سے دور رہنے کی ایک وجہ فراہم کی ہے۔

ایک ویبو صارف نے لکھا کہ ’یہ 2025 ہے اور آپ اب بھی کورین ڈرامے دیکھ رہے ہیں، یہ کتنا بے لذت ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US