واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ نے روس کی تیل کی بڑی کمپنیوں، روسنیفت اور لوک اوئل پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں جبکہ روس نے اپنے نئے جوہری طاقت سے چلنے والے بورویسٹنک کروز میزائل اور زیر آب ڈرون پوسائیڈن کا تجربہ کیا ہے۔

واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ نے روس کی تیل کی بڑی کمپنیوں، روسنیفت اور لوک اوئل پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں جبکہ روس نے اپنے نئے جوہری طاقت سے چلنے والے بورویسٹنک کروز میزائل اور زیر آب ڈرون پوسائیڈن کا تجربہ کیا ہے۔
دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ نہ صرف دونوں ممالک خطرات مول لے رہے ہیں بلکہ اس وقت (یوکرین میں) جنگ بھی جاری ہے۔
اس برس دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں قدرے بہتری آئی جو کہ ایک قابل ذکر پہلو ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب صدر بنے تو انھوں نے پوتن سے اچھے تعلقات قائم رکھنے اور یوکرین جنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا۔
تاہم یہ جنگ جاری ہے اور اس وقت امریکہ اور روس جنگ بندی سے متعلق تجاویز کے تبادلے کے بجائے ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ٹرمپ کی ذاتی سفارتکاری متوقع نتائج نہیں لا سکی ہے؟
’میری اچھی بات چیت ہوتی ہے اور پھر بات آگے نہیں بڑھتی‘
اس برس دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں قدرے بہتری آئی جو کہ ایک قابل ذکر پہلو ہے۔ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز پر ہی اس حوالے سے پیشرفت کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔
روس کی طرف سے یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست بات چیت ہوئی۔ دونوں ممالک کے صدور نے باقاعدگی سے فون پر بات کی اور گذشتہ اگست میں الاسکا میں ملاقات کی۔
فی الحال، صرف یہ بات چیت ہی واحد حقیقی کامیابی ہے جس کی طرف دونوں فریق اشارہ کرسکتے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کونسل میں یورپی اور روسی امور کے سابق سینیئر ڈائریکٹر اینڈریو پیک کا کہنا ہے کہ ’ہم امن کے عمل پر بات کر رہے ہیں، یہ ایک بڑی پیش رفت کی علامت ہے۔‘
ان کے مطابق اپنے اپنے مؤقف کو سامنے رکھنا اور ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنا، یہی وہ بنیدی اصول ہے جس پر سفارتکاری چلتی ہے۔
میڈیا نمائندوں کے سامنے ہونے والی بات چیت میں اس وقت ماحول گرم ہوا جب امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر سے کہا کہ ’روس کے ساتھ معاہدہ کریں ورنہ ہم پیچھے ہٹ جائیں گے‘ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف
ٹرمپ نے ذاتی رکھ رکھاؤ پر زیادہ انحصار کیا ہے۔
انھوں نے نیو یارک کے زمانے کے اپنے دوست سٹیو وٹکوف کو خصوصی ایلچی بنا کر پوتن سے ملاقاتوں کے لیے بھیجا۔ ان کے ہر دورے کے بعد فریقین نے اعلان کیا کہ وہ مفاہمت کے قریب ہیں۔ تاہم سٹیو وٹکوف کے سفارتی تجربے کی کمی نے خارجہ پالیسی سے متعلق حلقوں میں کچھ شکوک و شبہات پیدا کیے۔
دو یورپی سفارت کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ وہ اکثر اس خوش فہمی میں ماسکو سے واپس روانہ ہوتے کہ پوتن پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں مگر وائٹ ہاؤس کو اس کے برعکس اطلاعات موصول ہوتی تھیں۔
ٹرمپ نے نیو یارک کے زمانے کے اپنے دوست سٹیو وٹکوف کو خصوصی ایلچی بنا کر پوتن سے ملاقاتوں کے لیے بھیجا۔کریملن کے ایک سابق سینیئر عہدیدار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سٹیو وٹکوف روس کے موقف کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے کوشاں رہے مگر وہ کریملن کو امریکی پالیسی کی وضاحت کرنے میں مستقل مزاجی نہ دکھا سکے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے نتیجے میں دونوں فریق اکثر متضاد مقاصد پر بات کرتے تھے۔
15 اگست کو الاسکا میں پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات میں بات چیت میں مشکلات سب کے سامنے واضح ہوگئیں۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق بند دروازوں کے پیچھے مبینہ طور پر پوتن نے ایک 'تاریخی لیکچر' دیا جس نے ٹرمپ کو مشتعل کردیا تھا۔میں ان سینکڑوں صحافیوں میں شامل تھی جنھوں نے سربراہی اجلاس میں شرکت کی مگر یہ کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر غیر متوقع طور پر مختصر کر دیا گیا۔
بعد ازاں جب ٹرمپ اور پوتن نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی تو انھوں نے جنگ کے خاتمے کے لیے کسی ٹھوس اقدام کا کوئی اعلان نہیں کیا۔
پوتن کی طرف سے کسی بھی سطح کے عزم کی عدم موجودگی نے ٹرمپ کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔
نہ تو کریملن اور نہ ہی وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں کوئی وضاحت فراہم کی کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوا تھا، لہٰذا صحافیوں نے نامعلوم ذرائع سے جو کچھ وہ کر سکتے تھے وہ جمع کرنے کی کوشش کی۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے یوکرین میں جنگ بندی کے بدلے پابندیوں میں نرمی اور تجارت کو بڑھانے کی پیش کش کی ہے۔
فنانشل ٹائمز نے مزید لکھا کہ پوتن نے اس خیال کو یکسر مسترد کردیا اور یوکرین کے ہتھیار ڈالنے اور دونباس پر مکمل کنٹرول کا مطالبہ کیا۔ مبینہ طور پر پوتن نے ایک ’تاریخی لیکچر‘ دیا جس نے ٹرمپ کو مشتعل کردیا تھا۔
ایک یورپی سفارت کار نے بی بی سی کو بتایا کہ الاسکا میں پیش رفت نہ ہونے پر امریکی واقعی مایوس ہوئے ہیں۔
ایک اور سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ’روس کے لیے جنگ کا کیا مطلب ہے‘ جیسی خوش فہمی سے توقعات لگا لیں۔
بائیڈن انتظامیہ کے دوران امریکی قومی سلامتی کونسل میں روس کے سابق مشیر ایرک گرین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ممکنہ تجارت اور مراعات کے بارے میں یقینی طور پر بہت سی غلط فہمیاں تھیں۔‘
رقبے کے علاوہ سکیورٹی کی ضمانتوں کے بارے میں الجھن تھی اور مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں کچھ لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ جنگ کی ’بنیادی وجوہات‘ پر پوتن کی توجہ کا کیا مطلب ہے۔‘
ٹرمپ کی اپنی مایوسی بھی واضح تھی۔ انھوں نے اکتوبر میں نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی میں ولادیمیر سے بات کرتا ہوں، میں اچھی بات چیت کرتا ہوں لیکن پھر بات آگے نہیں بڑھتی۔‘
ٹرمپ نے اکتوبر میں نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی میں ولادیمیر سے بات کرتا ہوں، میں اچھی بات چیت کرتا ہوں لیکن پھر بات آگے نہیں بڑھتی۔'پوتن حقیقت میں کیا چاہتے ہیں؟
حالیہ مہینوں میں ماسکو کے مؤقف میں بمشکل ہی کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جنگ کے خاتمے کے لیے پوتن کی شرائط میں یہ نکات شامل ہیں:
- یوکرین کے پانچ علاقوں پر روسی خودمختاری کو تسلیم کرنا
- یوکرین کی غیر جانبداری
- یوکرینی فوج میں کمی
- روسی زبان کے لیے آئینی ضمانتیں
- مغربی پابندیاں اٹھانا
روس کا کہنا ہے کہ وہ ایک جامع سیاسی معاہدے کے بعد ہی جنگ بند کرے گا۔ یہ مؤقف واشنگٹن اور کئیو کے لیے ناقابل قبول ہے، جو یہ اصرار کرتے ہیں کہ جنگ بندی پہلے ہو جانی چاہیے۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ ایک جامع سیاسی معاہدے کے بعد ہی جنگ بند کرے گا۔اینڈریو پیک کا کہنا ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے تمام فریقوں کو تین امور پر متفق ہونے کی ضرورت ہو گی:
- علاقہ
- یوکرین کا سیاسی مستقبل
- یوکرین کے لیے سکیورٹی انتظامات
ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی بھی عنصر پر تقریباً کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔
ابتدائی طور پر ٹرمپ علاقائی سمجھوتوں کے لیے کچھ نرمی دکھانے کو تیار نظر آئے۔ اپریل میں انھوں نے کہا تھا کہ ’کریمیا روس کا حصہ رہے گا‘ اور میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کی ٹیم نے 2014 میں روس کے علاقے پر قبضے کو تسلیم کرنے پر غور بھی کیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر میں ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ اپنی ملاقات میں ٹرمپ نے ایک بار پھر ’علاقائی تبادلے‘ کا اعلان کیا۔
اکتوبر میں ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ اپنی ملاقات میں ٹرمپ نے ایک بار پھر 'علاقائی تبادلے' کا اعلان کیا۔روس نے بھی کسی حد تک لچک کا عندیہ دیا۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ماسکو جنوبی یوکرین کے کچھ حصوں میں موجودہ محاذوں پر سمجھوتہ کرسکتا ہے۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ روس اب بھی معدنیات سے مالا مال دونباس خطے پر مکمل کنٹرول کا خواہاں ہے، جس پر اس نے جزوی طور پر حملہ کیا ہے۔
کریملن نے کہا ہے کہ وہ علاقائی امور سمیت مذاکرات کی تفصیلات پر بات نہیں کرے گا۔
کئیو نے امریکہ اور نیٹو سے کڑی سکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے۔دوسری طرف سفارت کاروں کا اصرار ہے کہ یوکرین کی سرزمین پر کنٹرول سب سے پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے۔
ایک سینیئر یورپی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ اپنے کاروباری پس منظر کی وجہ سے روس کے ساتھ ’رئیل اسٹیٹ ڈیل‘ میں زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں یا امید رکھ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن پوتن کے لیے معاملہ صرف علاقے کا نہیں، بلکہ یوکرین پر حکومت اور خودمختاری کا ہے۔‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ کئیو کے سیاسی رجحان اور فوجی صلاحیتوں پر قابو پانا۔ ماسکو یوکرین کی غیر جانبداری اور یوکرین کی مسلح افواج میں زبردست کمی پر اصرار کرتا ہے۔
کئیو نے امریکہ اور نیٹو سے کڑی سکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے۔
اینڈریو پیک کا کہنا ہے کہ ’روس سیکیورٹی کی ضمانتوں پر نہ 2022 میں اور نہ ہی اب کسی قسم کی نرمی دکھا رہا ہے وہاں کا فرق علاقوں کے مقابلے میں بہت وسیع ہے۔‘
پیک کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فرق علاقے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اینڈریو پیک کا کہنا ہے کہ روس سیکیورٹی کی ضمانتوں پر نہ 2022 میں اور نہ ہی اب کسی قسم کی نرمی دکھا رہا ہےاس موسم خزاں میں بوداپیسٹ میں سربراہی اجلاس کی ناکام کوشش مذاکرات یا کسی پیشرفت میں تعطل کی نشاندہی کرتی ہے۔
اکتوبر کے وسط میں ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد ٹرمپ اور پوتن نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کو مذاکرات کی تیاری کا کام سونپا تھا۔
انھوں نے ایک بار بات کی، لیکن اس کے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
12 نومبر کو مارکو روبیو نے صحافیوں کو بتایا کہ 'ہم صرف ملاقات ملاقات کا کھیل نہیں کھیل سکتے۔'بلومبرگ کے مطابق مارکو روبیو نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماسکو کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق روس نے اپنے بھاری مطالبات کو دہراتے ہوئے ایک میمو بھیجا ہے جو ایک ایسا اقدام ہے جس نے امریکی حکام کو مزید مایوس کیا۔
12 نومبر کو مارکو روبیو نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم صرف ملاقات ملاقات کا کھیل نہیں کھیل سکتے۔‘
اگلے دن لاوروف نے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ روس مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماسکو ٹرمپ اور پوتن کی دوسری ملاقات کے لیے تیار ہے بشرطیکہ یہ ’الاسکا سربراہی اجلاس کے اچھی طرح سے کام کرنے والے نتائج‘ پر مبنی ہو۔
دریں اثنا یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ٹرمپ کے ساتھ رابطے کی بحالی کے لیے خوب جانفشانی سے کام کیا۔
اپنی صدارت کے اوائل میں، وہ کئیو کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے پوتن کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کے لیے پرعزم نظر آتے تھے۔ یہ ایک ایسی صورتحال تھی کہ جس نے یوکرین اور یورپ دونوں کو پریشان کردیا تھا۔
اس کے بعد ٹرمپ یوکرین کے بارے میں اپنے لہجے میں اعتدال لائے۔
روس کے برعکس، یوکرین نے واشنگٹن کے ساتھ ایک حد تک لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور جنگ بندی اور ماسکو کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے لیے امریکی تجاویز کا خیرمقدم کیا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق روس نے اپنے بھاری مطالبات کو دہراتے ہوئے ایک میمو بھیجا ہے جو ایک ایسا اقدام ہے جس نے امریکی حکام کو مزید مایوس کیا۔کئیو اور اس کے اتحادیوں کے لیے مقصد آسان تھا: ٹرمپ کو اس بات پر قائل کرنا کہ پوتن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے یورپی اور امریکہ کی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔
ایک یورپی سفارت کار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم جانتے تھے کہ انھیں بالآخر احساس ہو جائے گا کہ روس نیک نیتی سے بات چیت نہیں کر رہا۔ ہمارا کام وقت حاصل کرنا تھا اور اس میں ہمیں کامیابی ملی۔‘
ماسکو یورپ کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ لاوروف نے امریکہ کی پوزیشن میں ’بنیادی تبدیلی‘ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’یورپی ممالک اس انتظامیہ کے بازوؤں کو مروڑ رہے ہیں۔‘
الاسکا سربراہی اجلاس کے تین ماہ بعد کریملن اور وائٹ ہاؤس کے سمجھوتے کے قریب جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
اکتوبر میں واشنگٹن نے ٹرمپ کی صدارت میں روس کے خلاف پہلی بار نئی اور بڑی پابندیاں عائد کی تھیں جس میں اس کی سب سے بڑی تیل کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔اکتوبر میں واشنگٹن نے ٹرمپ کی صدارت میں روس کے خلاف پہلی بار نئی اور بڑی پابندیاں عائد کی تھیں جس میں اس کی سب سے بڑی تیل کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس کو بتایا کہ ’ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ پوتن کو میز پر لانے جا رہا ہے۔‘
پوتن نے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے پابندیوں کو ’دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ‘ قرار دیا لیکن اصرار کیا کہ روس ’دباؤ میں پالیسی تبدیل نہیں کرے گا‘۔
کچھ دن بعد ماسکو نے جوہری صلاحیت کے حامل میزائل کا تجربہ کیا جو اس بات کا اشارہ ہے کہ بات چیت جارحیت کے ایک اور دور کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
٭اس مضمون کی ایڈیٹنگ بی بی سی ورلڈ کے اینڈریو ویب نے کی ہے۔