"میرب 2014 میں پیدا ہوئی۔ میں جرمنی جانے کے فوراً بعد ہی حاملہ ہوگئی تھی، لیکن اس کے بعد لوگوں نے دوسرے بچے کے بارے میں سوال کرنا شروع کر دیے۔ جب آپ نے پوچھا کہ غلط مشورہ کون سا ملا، تو مجھے احساس ہوا کہ میں لوگوں کی غلط باتوں کا شکار بنی۔ میرب جرمنی میں اگست میں پیدا ہوئی اور آپ جانتی ہیں وہاں ستمبر، اکتوبر، نومبر میں موسم بہت سرد ہوتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ بچے کو گرم رکھو، لیکن مجھے یہ خیال نہیں آیا کہ ہمارا گھر پہلے ہی ہیٹنگ پر تھا۔ میں نے اسے ضرورت سے زیادہ لپیٹ کر رکھا اور وہی بخار اس پر بھاری پڑا۔ میری لاپرواہی اور بیوقوفی سے اسے پہلا فِٹ پڑا۔ شکر ہے عدنان جلدی آگئے اور ہم اسے ہسپتال لے گئے، اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ اب اس کا ہر سال چیک اپ ہوتا ہے۔ اس واقعے کے بعد اسے چار بار مزید فِٹس پڑے۔ وہ بیمار ہوئی ہی میری غلطی کی وجہ سے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ایک بار ایسا بخار شروع ہوجائے تو نو سال کی عمر تک ایسے دورے آسکتے ہیں۔"
پاکستانی ڈراموں کی مشہور اداکارہ اور مقبول میزبان سعدیہ امام نے برسوں بعد اپنی ذاتی زندگی کا وہ پہلو سامنے رکھا جس کے بارے میں وہ ہمیشہ محتاط رہی ہیں۔ جرمنی میں مقیم سعدیہ امام حال ہی میں مدیحہ نقوی کی مہمان بنیں، جہاں انہوں نے اپنی بیٹی میرب کی بیماری سے متعلق ایک دردناک واقعہ پہلی بار کھل کر بیان کیا۔
سعدیہ امام نے بتایا کہ شادی کے فوراً بعد جب وہ جرمنی منتقل ہوئیں تو میرب کی پیدائش نے ان کی زندگی بدل دی، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسی غلطی بھی ہوگئی جس نے چھوٹے سے بچے کی صحت کو شدید متاثر کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں اردگرد کے لوگوں نے مشورہ دیا کہ سرد موسم میں بچے کو زیادہ گرم رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے مشورے پر اتنا سختی سے عمل کیا کہ یہ بھول گئیں کہ گھر پہلے ہی مکمل طور پر گرم تھا۔ ضرورت سے زیادہ کپڑوں میں لپٹا ہوا نومولود بچہ شدید بخار میں مبتلا ہوگیا، اور یہی بخار میرب کے لیے خطرناک ثابت ہوا۔
پہلے دورے کے دوران بچے کے منہ سے جھاگ آ رہی تھی، اور صادیہ بتاتی ہیں کہ وہ گھبراہٹ میں سنبھل تک نہ سکیں۔ شوہر عدنان فوراً گھر پہنچے اور دونوں میرب کو اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹرز نے بتایا کہ شدید بخار کے نتیجے میں فِٹس شروع ہوئے ہیں، اور یہ سلسلہ نو سال کی عمر تک جاری رہ سکتا ہے۔ سعدیہ کے مطابق اس ایک غلطی کی وجہ سے میرب کو بعد میں چار بار مزید فِٹس پڑے۔
انہوں نے جذباتی لہجے میں اعتراف کیا کہ وہ اِن سب کا ذمہ دار خود کو سمجھتی ہیں۔ سعدیہ امام کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی اس لمحے کو یاد کرتی ہیں تو اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں، کیونکہ ایک ماں کے لیے اس سے بڑی سزا کوئی نہیں کہ اس کی کوتاہی سے اس کا بچہ تکلیف میں مبتلا ہوجائے۔
سعدیہ امام کا یہ اعتراف سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، اور صارفین اسے والدین کے لیے ایک اہم سبق قرار دے رہے ہیں کہ بغیر تحقیق کیے دوسروں کے کہنے پر چلنا کبھی کبھار بچوں کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔