بینک دولت پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے زور دیا ہے کہ پاکستان کو قلیل مدتی معاشی استحکام کی کوششوں کے بجائے ہنگامی بنیادوں پر ایک مضبوط، پائیدار اور بیرونی دنیا سے مربوط معاشی نمو کے ماڈل پر منتقل ہونا چاہیے۔
پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے "معیشت پر مذاکرات" کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر جمیل احمد نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان بار بار معاشی نمو اور اس کے بعد استحکام کے تکلیف دہ اقدامات کے ادوار سے گذر چکا ہے، اور موجودہ حالات طویل مدتی تبدیلی لانے کا حقیقی موقع فراہم کرتے ہیں، بشرطیکہ پالیسیوں میں تسلسل برقرار رہے اور نجی شعبہ حالات سے مطابقت کے لحاظ سے ہر اول دستے کا کردار ادا کرے۔
جمیل احمد نے وضاحت کی کہ موجودہ استحکام کا مرحلہ گذشتہ ادوار سے کیوں مختلف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب کلی معاشی نظم و ضبط ہم آہنگ اور مستقبل بین زری اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم ہوا ہے، اور اسی کی مدد سے اس قبل از وقت نرمی سے بچا جاسکا ہے جو ماضی میں استحکام کو متاثر کرتی رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی بینک کی پیش گوئی کی بہتر صلاحیت سے پالیسی سازوں کو قلیل مدتی اظہاریوں کے بجائے آٹھ سہ ماہیوں کے تخمینوں کی بنیاد پر فیصلے کرنے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے توثیق کی کہ مہنگائی نہ صرف ہماری پیش گوئی کے مطابق کم ہوئی ہے بلکہ توقع ہے کہ وسط مدت میں یہ 5 تا 7 فیصد کے ہدف میں برقرار رہے گی۔
جمیل احمد نے زور دیا کہ بہتر استحکام کا ایک اہم ستون بیرونی بفرز کا معیاری طور پر مضبوط ہونا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں قرض پر مبنی آمدنی پر انحصار کے بجائے زرمبادلہ ذخائر میں حالیہ اضافہ اسٹریٹجک زرِ مبادلہ خریداریوں اور کم ہوتے ہوئے مستقبل کے واجبات (forward liabilities) کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ 2022ء سے اب تک سرکاری شعبے کے بیرونی قرضے تقریباً مستحکم رہے ہیں، جبکہ بیرونی قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب 31 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد رہ گیا ہے۔ اسی مدت کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 2.9 ارب ڈالر کی بہت نچلی سطح سے بڑھ کر تقریباً 14.5 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جو اس میں تقریباً پانچ گنا اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
جمیل احمد نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان کے معاشی ماڈل کو تیزی اور مندی کے ایک اور چکر کو روکنے کے قابل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا ماضی میں حاصل ہونے والی نمو کی اوسطیں جو تقریباً 3 سے 4 فیصد کے آس پاس رہی ہیں اب 250 ملین سے زائد آبادی والے ملک کو سہارا نہیں دے سکتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 'پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے،' انہوں نے نجی شعبے پر زور دیا کہ وہ زرِ اعانت(subsidy) یا ملکی منڈی کے تحفظ پر انحصار کرنے کے بجائے عالمی مسابقت کی راہ کو اختیار کرے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کاروباری اداروں پر زور دیا کہوہ عالمی قدری زنجیروں (value chains) سے منسلک ہوں، پیداوار کو جدید بنائیں، امریکا، چین اور مشرق وسطیٰ کی معیشتوں جیسے شراکت داروں سے ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور جدّت طرازی میں سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ ' اگر ہماری فرمیں خود کو تبدیلی سے ہم آہنگ کرنا چاہیں تو تیز رفتار ڈجیٹلائزیشن، ماحول دوست تبدیلی، اور عالمی قدری زنجیر کی نئی ترتیب ہمارے لیے نئے مواقع کے دروازے کھول سکتی ہے۔
انہوں نے کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ منڈیوں سے استفادہ کر کے مالی ذرائع میں تنوّع پیدا کریں اور مالی آپریشنز میں جدید ڈجیٹل آلات اپنائیں۔ انہوں نے خاص طور پر قدری زنجیروں کی دستاویزیت پر زور دیا جو پیداواریت میں بہتری، مالیات تک رسائی، اور قدری زنجیروں کی مضبوطی کے لیے لازمی اقدام ہے۔
اختتامی کلمات میں گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 'ہمیں ایک ہی کام بار بار کرکے مختلف نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ جو استحکام ہم نے حاصل کیا ہے، اُسے اب طویل مدتی ترقی کی بنیاد بننا چاہیے۔ حکومت، اسٹیٹ بینک اور نجی شعبہ ایک ساتھ مل کر ہی پائیدار اور شمولیتی ترقی پر مبنی مستقبل یقینی بنا سکتے ہیں۔