“ایک لڑکے نے میرا دوپٹہ پکڑا تو میں نے اس کے دو دانت توڑ دیے۔ لوگ بار بار پوچھتے ہیں کہ میں اب دوپٹہ کیوں نہیں لیتی اس کی وجہ یہی ہے۔ میں دفتر شلوار قمیض میں جاتی تھی، سر ڈھانپتی تھی، پانچ وقت کی نماز پڑھتی تھی، تہجد بھی ادا کرتی تھی۔ میری امی باپردہ تھیں، کسی نے کبھی ان کا چہرہ نہیں دیکھا۔ میرے والد کی طرف سے ہم پختون ہیں اور امی کی طرف سے سید۔ دونوں خاندانوں میں عورتیں میڈیا پر آنے کا تصور تک نہیں تھا۔ میرے کسی کزن یا بہن بھائی نے کبھی ٹی وی پر قدم نہیں رکھا۔ سب نجی، سادہ اور گھریلو زندگی گزارتے ہیں۔ میں میڈیا میں اس لیے آئی کیونکہ والد کی وفات کے بعد معاشی بوجھ تھا۔ ایک دن دفتر سے واپس آرہی تھی کہ ایک لڑکے نے پیچھے سے میرا دوپٹہ کھینچ لیا۔ میں سڑک پر اکیلی کھڑی تھی، دوپٹہ زمین پر تھا اور میں سن ہو گئی تھی۔ میں نے پلٹ کر اسے زور سے تھپڑ مارا اور اس کے دو دانت ٹوٹ گئے اس کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ اس نے پولیس بلا لی۔ آپ جانتے ہیں کسی کے دانت توڑنا قابلِ سزا جرم ہے؟ ہاں، اس وقت میں نے ایک ہی چیز پڑھی تھی ‘یا علی مدد’ اور اسی نے مجھے ہمت دی۔”
ڈاکٹر نبیہا علی خان، جو اپنے بے باک مؤقف اور وائرل بیانات کے باعث ہمیشہ بحث کا محور بنتی رہی ہیں، اس بار ایک الگ وجہ سے توجہ میں ہیں۔ ایک تازہ پوڈ کاسٹ میں انہوں نے اپنی زندگی کا وہ پہلو اُجاگر کیا جس سے بہت سے لوگ ناواقف تھے دوپٹہ چھوڑنے کی اصل کہانی۔
نیم حنیف کے پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نبیہا نے بتایا کہ وہ برسوں تک باقاعدہ باپردہ رہتی رہیں، سر ڈھانپتی رہیں اور خاندان کی روایات کا احترام کرتی رہیں۔ مگر ایک واقعے نے ان کی سوچ اور طرزِ زندگی دونوں کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس دن پیش آنے والا ہراسمنٹ کا لمحہ، اور پھر ایک عورت کا اپنے دفاع کے لیے اٹھایا گیا قدم، ان کے لیے زندگی کا موڑ بن گیا۔
واقعے کے بعد انہیں نہ صرف پولیس کا سامنا کرنا پڑا بلکہ خاندان اور معاشرے کی نظریں بھی جھیلنا پڑیں۔ مگر اسی تلخ تجربے نے انہیں یہ احساس دلایا کہ پردے کا احترام ایک طرف، مگر اپنی حفاظت اور آزادی بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ دوپٹہ ترک کرچکی ہیں اور اس فیصلے کے پیچھے کھڑی بھی ہیں۔
ڈاکٹر نبیہا، جو حال ہی میں اپنے دیرینہ ساتھی حارث کھوکھر سے رشتۂ ازدواج میں بندھی ہیں، پہلے بھی اپنی بے خوف گفتگو کے باعث وائرل ہوتی رہی ہیں۔ مگر اس بار موضوع کچھ اور تھا ان کی ذاتی زندگی، ان کی جدوجہد اور وہ لمحہ جس نے انہیں ایک مضبوط عورت میں تبدیل کیا۔
یہ انٹرویو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، جہاں لوگ ہراسمنٹ، خواتین کی حفاظت اور اپنے لیے کھڑا ہونے جیسے موضوعات پر بات کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر نبیہا نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ چاہے کوئی انہیں پسند کرے یا تنقید کرے، وہ اپنی بات رک کر نہیں کریں گی۔