"یہ جو رائیڈرز ہوتے ہیں نا… یہ ہمیشہ پیسے پورے نہیں رکھتے۔ چینج کبھی نہیں ہوتا اِن کے پاس۔ یہ آتے ہیں اور پھر کہتے ہیں باجی چینج نہیں ہے، کچھ تو رکھ لیں۔ میں تو کبھی اِن کو ٹِپ دینے کے حق میں نہیں رہی۔ ہمیشہ پورے پیسے دیا کریں تاکہ یہ آپ سے یوں پیسے نہ نکال سکیں۔"
ندا یاسر ایک بار پھر تنقید کی زد میں، فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز پر متنازعہ بیان نے سوشل میڈیا کو ہلا ڈالا
پاکستان کی مارننگ شو کوئین ندا یاسر گزشتہ پندرہ سال سے اسکرین پر راج کر رہی ہیں۔ بے شمار سیلیبریٹیز ان کے سامنے اپنی زندگی کی کہانیاں کھولتے آئے ہیں، اور بے شمار تنازعات بھی ان کے نام کے ساتھ جڑے۔ مگر اس بار معاملہ زیادہ سنگین اس لیے بن گیا کہ ان کا تازہ بیان اُس طبقے کے بارے میں تھا جو روزانہ شہر کی مشقت بھری سڑکوں پر زندگی خطرے میں ڈال کر چند سو روپے کماتا ہے۔
گزشتہ دہائی میں پاکستان میں فوڈ ڈیلیوری سروسز نے زبردست اُبھار دیکھا ہے۔ ہزاروں نوجوان اس شعبے میں کام کر کے گھروں کا خرچ اٹھاتے ہیں۔ خراب سڑکیں، ٹریفک کا عذاب، بارشوں میں پھسلتی گلیاں اور کم اجرت… ان سب کے باوجود یہی لوگ گرم، ٹھنڈا، نمکین، میٹھا ہر آرڈر وقت پر پہنچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
لیکن ندا یاسر اس محنت کش طبقے کی ’ٹِپ کلچر‘ سے کچھ زیادہ خوش نہیں۔ اپنے شو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے شکایت کی کہ ڈیلیوری رائیڈرز اکثر چینج نہیں رکھتے اور چند سو روپے جانے دیتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کو چاہیے کہ پورے پیسے دیں اور رائیڈرز کے ہاتھوں ’چند سو روپے نکلوانے‘ سے بچیں۔
ندا کا یہ جملہ سامنے آتے ہی سوشل میڈیا بھڑک اٹھا۔ ٹویٹر، انسٹاگرام اور فیس بک پر صارفین نے نہ صرف نیدا بلکہ شو میں موجود مہمانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ "یہ کون سے امیر لوگ ہیں جنہیں 200 روپے دینے کا بھی دکھ ہے؟"
ایک اور نے کہا: "شرم نہیں آتی؟ یہ لوگ محنت کرتے ہیں، آپ کے 300 روپے سے اِن کی دولت نہیں بن جائے گی۔"
جبکہ ایک تبصرہ کچھ یوں تھا: "آپ کے لیے یہ رقم کچھ بھی نہیں لیکن انہی چند سو روپوں سے ایک گھر میں کھانا بنتا ہے، انہیں ٹِپ دینی چاہیے۔"
ندا یاسر کا بیان اس لیے بھی زیادہ متنازع بن گیا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں محنت کش طبقہ پہلے ہی بدترین مہنگائی اور کم اجرت کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ ایسے میں ایک بڑے پلیٹ فارم سے ایسا مؤقف سامنے آنا عوام کے دلوں پر چبھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نیدا اس تنقید کا سامنا کرتی رہیں گی یا کسی وضاحت کے ساتھ سامنے آئیں گی، لیکن ایک بات طے ہے کہ فوڈ ڈیلیوری رائیڈرز کیلئے سوشل میڈیا پر ایثار اور ہمدردی کی لہر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔