“ایمان بہت چھوئی موئی ہے۔ ڈاکٹر نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ سفر نہ کرے۔ شادی کے فوراً بعد وہ اُمید سے ہوگئی تھی اس لیے ہمارے ساتھ عمرہ پر نہیں گئی۔ میری بیٹی غزل بہت مضبوط ہے، وہ حاملہ ہوتے ہوئے بھی عمرہ، زیارت اور شمالی علاقوں کے سفر پر گئی تھی۔”
“میں ایمان کو کیسے کہہ سکتی ہوں کہ وہ افواہوں کی وضاحت کرے؟ میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ ایک دن وہ خود سب کچھ بتائے۔ میں اسے مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ کوئی بیان دے یا کچھ بولے۔”
یہ وہ باتیں ہیں جو رجب بٹ کی والدہ نے حالیہ پوڈکاسٹ میں کھل کر کیں، اور یہی گفتگو سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا باعث بنی ہوئی ہے۔
رجب بٹ پاکستان کے مشہور یوٹیوبرز میں سے ایک ہیں اور ان کا پورا خاندان ان کی ویڈیوز کا حصہ ہوتا ہے۔ ان کی والدہ بھی سوشل میڈیا پر خاصی سرگرم رہتی ہیں اور اکثر اپنے بیٹے یا گھر کے معاملات پر تبصرے کرتی رہتی ہیں۔ اس بار مگر ان کی گفتگو لوگوں کو ہضم نہ ہوئی، کیونکہ انہوں نے اپنی بہو ایمان رجب کے بارے میں ایسے جملے کہے جنہیں صارفین انتہائی نامناسب قرار دے رہے ہیں۔
ایمان اور رجب کا رشتہ پہلے ہی کئی آزمائشوں سے گزر چکا ہے۔ رجب کے افیئرز سامنے آنے کے بعد دونوں کے درمیان سخت مسائل پیدا ہوئے، تاہم ایمان اپنے بیٹے کے ساتھ دوبارہ رجب کے گھر آچکی ہے۔ راجاب خود برطانیہ میں اپنے قانونی کیسز کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں خاندان کی سربراہ کی جانب سے ایمان کا اپنی بیٹی سے تقابل کرنا لوگوں کو شدید ناگوار گزرا۔
پوڈکاسٹ میں رجب کی والدہ نے ایک جانب ایمان کو نازک قرار دیا اور دوسری طرف اپنی بیٹی غزل کو “طاقتور” اور “برداشت والی” عورت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہی تقابل سوشل میڈیا پر جلتی پر تیل بن گیا، اور کلپس تیزی سے وائرل ہونے لگے۔
ان کا یہ کہنا بھی صارفین کے غصے میں اضافے کا سبب بنا کہ ایمان نے کبھی افواہوں کی تردید نہیں کی، اور وہ (رجب کی والدہ) اسے اس بارے میں بولنے پر مجبور بھی نہیں کرسکتیں۔
جونہی یہ گفتگو سامنے آئی، انٹرنیٹ پر شدید ردعمل شروع ہوگیا۔ ایک صارف نے لکھا،
“ایمان سب سے مضبوط ہے کیونکہ وہ آپ کے کردار سے خالی بیٹے کو برداشت کر رہی ہے، غزل کو تو یہ نہیں کرنا پڑا تھا۔”
ایک اور نے کہا،
“ایمان ایسی بے حیا فیملی میں گزارہ کر رہی ہے، اس سے بڑی طاقت اور کیا ہوگی؟”
جبکہ ایک صارف نے غصے میں لکھا،
“اس عورت کی باتیں سن کر میرا خون کھول رہا ہے۔”
رجب بٹ کی والدہ کے تبصروں نے نہ صرف سوشل میڈیا پر بحث چھیڑ دی ہے بلکہ خاندان کے اندرونی مسائل کو بھی ایک بار پھر عوامی گفتگو کا موضوع بنا دیا ہے۔