پاکستان میں صدیوں سے گُڑ ایک روایتی قدرتی میٹھا کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے خاص طور پر سردیوں میں مٹھائیوں، حلووں، کھیر اور چائے میں اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق گُڑ میں قدرتی حرارت پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، جس سے نزلہ، زکام اور کھانسی جیسی موسمی بیماریوں میں کچھ حد تک فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
گُڑ سفید چینی کے مقابلے میں کم پراسیس شدہ ہے اور اس میں وٹامنز اور معدنیات بھی شامل ہیں، جن میں وٹامن B1، B2، B6، وٹامن C، آئرن، میگنیشیم، پوٹاشیم اور کیلشیم شامل ہیں۔ سادہ گُڑ میں فی 100 گرام کیلوریز تقریباً 380 سے 390 کے درمیان ہوتی ہیں، جو چینی کی کیلوریز سے معمولی زیادہ ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق اگرچہ گُڑ میں معدنیات موجود ہیں لیکن غذائیت کے لحاظ سے چینی اور گُڑ بنیادی طور پر سکروز پر مشتمل ہیں اور کیلوریز میں زیادہ فرق نہیں۔ تاہم، گُڑ خون میں شوگر کی سطح کو چینی کی نسبتاً آہستہ بڑھاتا ہے، اس لیے اعتدال سے استعمال زیادہ ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق سردیوں میں گُڑ کا استعمال جسم کو گرم رکھنے، قوتِ مدافعت بڑھانے اور خون میں ہیموگلوبن کی سطح بہتر بنانے میں مددگار ہے۔ یہ ہاضمے کے لیے بھی مفید ہے اور گلے کی خراش یا کھانسی میں بھی آرام پہنچا سکتا ہے، بشرطیکہ محدود مقدار میں استعمال کیا جائے۔
گڑ جسم کو ضروری منرلز اور وٹامنز فراہم کرتا ہےہاضمے کو بہتر بناتا ہے اور جگر کو صاف رکھنے میں مدد دیتا ہے اور قوتِ مدافعت کو بڑھانے میں معاون کے ساتھ ساتھ فوری توانائی فراہم کرتا ہے۔
لیکن گڑ کی زیادہ مقدار میں استعمال سے وزن بڑھ سکتا ہے کیونکہ اس میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں۔ شوگر لیول کو متاثر کر سکتا ہے خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے محتاط رہنا ضروری ہے اس کے علاوہ بعض افراد میں الرجی یا معدے کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق گُڑ کو مکمل طور پر چینی کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیے۔ چونکہ گُڑ کم میٹھا ہوتا ہے، لوگ اکثر اسے زیادہ مقدار میں استعمال کر لیتے ہیں، جو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ تھوڑی مقدار میں چینی کی جگہ گُڑ استعمال کی جائے اور حد سے تجاوز نہ کیا جائے، خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں کو گُڑ کے زیادہ استعمال سے محتاط رہنا چاہیے۔