پاکستان میں مقیم افغان باشندے ان دنوں ایک بے یقینی کی صورتحال میں جی رہے ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ حکومت یکم نومبر کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دے رکھی ہے۔
’اچانک اب بہت خوف بڑھ گیا ہے، مجھے اپنے مستقبل کا ڈر تو ہے ہی، ساتھ میں مجھے اپنی تعلیم کی فکر ہے کیونکہ میں اگر واپس افغانستان چلی گئی تو اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکوں گی۔‘
افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان آنے والی سعدیہ (فرضی نام) اس وقت ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔
جب سے پاکستان حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں مقیم ان افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے دستاویز نہیں تب سے سعدیہ سمیت کئی افغان شہری خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سعدیہ کہتی ہیں کہ ’رات کی نیند اڑ گئی ہے اور ایک خوف میرے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔ میری اور میرے گھر والوں کے ویزوں کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں توسیع ہو گی یا نہیں اور یہ سوچ کر بھی خوف آتا ہے کہ یکم نومبر کے بعد ہمارے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان میں مقیم افغان باشندے ان دنوں ایک بے یقینی کی صورتحال میں جی رہے ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ حکومت یکم نومبر کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔حکومت پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دے رکھی ہے اور یکم نومبر سے بے دخلی کے لیے ملک گیر آپریشن کی تنبیہ دی ہے۔
پاکستان نے افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 17 لاکھ افغان غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور ان کے پاس پاکستان میں رہنے کے کاغذات نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کے تارکین وطن کے ادارے کے مطابق پاکستان میں مختلف اداروں سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کی تعداد لگ بھگ 31 لاکھ تک ہے۔
پاکستان میں تشدد کے واقعات اور جرائم کی شرح میں اضافے، ڈالرز کی سمگلنگ اور دیگر واقعات میں کچھ افغان باشندوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے تاحال اس بارے میں مکمل شواہد عوام کے سامنے نہیں رکھے ہیں۔لیکن وفاقیسطح اور صوبائی سطح پر ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں افغان شہریوں کی واپسی سے متعلق متعدد فیصلے کیے گئے تھے۔
ان میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجا جائے گا اور اس کے لیے 31 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی جس کے بعد ان افغان باشندوں کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی عمل لائی جائے گی۔
اس کے لیے وفاقی حکومت نے یکم نومبر 2023 سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے اور یہ کارروائی فارن ایکٹ 1946 کے سیکشن تین کے تحت عمل میں لائی جائے گی۔
افغان حکومت کا مؤقف
افغانستان میں عبوری حکومت کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ افغان پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکالنے کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ مؤقف بھی درست نہیں ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغان شہریوں کی واپسی کا عمل مکمل طور پر رضا کارانہ ہونا چاہیے۔
افغانستان کی عبوری حکومت کے قطر میں پولیٹکل آفس کے انچارج سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’افغان حکومت وطن واپس آنے والے شہریوں کو افغانستان میں خوش آمدید کہے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’متعلقہ حکام نے اس بارے میں مختلف کمیٹیاں قائم کر دی ہیں تاکہ واپس آنے والے افغان شہریوں کو آباد کیا جائے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھاجائے۔‘
’مجھے اپنے خاندان کے ساتھ اپنی تعلیم کی فکر ہے‘
پشاور کے ایک ایسے علاقے میں جہاں زیادہ تر افغان باشندے رہتے ہیں وہاں گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک مکان کے باہر پہنچے۔ یہاں چھ افراد پر مشتمل ایک افغان خاندان رہائش پذیر ہے جو ایک سال کے ویزے پر لگ بھگ ایک سال پہلے پاکستان آیا تھا۔
سعدیہ (فرضی نام) بڑی بیٹی ہیں جو ایک مقامی کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے لیے پاکستان میں رہنے کی ایک بڑی وجہ تعلیم حاصل کرنا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’میری شادی افغانستان میں ہوئی لیکن میں وہاں خوش نہیں تھی، اس لیے اپنے والدین کے گھر واپس آ گئی۔
’افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ہم اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ روزمرہ کا سامان لینے بھی گھر سے باہر نہیں جا سکتے تھے، مجبوری کے عالم میں بھائی یا والد کے ساتھ باہر نکل سکتے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارا سکول بند ہو گیا تھا۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ کابل میں اس پر مظاہرے ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بس لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔‘
سعدیہ نے بتایا کہ ’ہمارے حالات ہر آنے والے دن کے ساتھ بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں، بہت کوشش کی کہ کسی طرح افغانستان میں حالات بہتر ہوں اور باہر کسی ملک جانا نہ پڑے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔‘
پھر ان کے ابو اور بھائی نے پاکستان جانے کے لیے کوششیں شروع کیں اور ان کا خاندان پاکستان آ گیا۔
یہ خاندان پہلے اسلام آباد گیا اور پھر پشاور منتقل ہوا۔ ’یہاں ہمارے کوئی جاننے والے نہیں ہیں۔ شروع میں مشکل تھی لیکن مسلسل کوششوں سے کچھ حالات بہتر ہو گئے تھے۔ زندگی کی گاڑی رواں ہوگئی تھی، میری تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور بھائی بھی کاروبار شروع کرنے کی تیاری کررہے تھے کہ اتنے میں حکومت پاکستان کا اعلان ہوا کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو یکم نومبر سے واپس بھیجا جائے گا۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ میں ذہنی تناؤ کا شکار ہوں اور انھی سوچوں میں رہتی ہوں کہ اب کیا ہو گا، کیا ہمیں واپس افغانستان بھیج دیا جائے گا جہاں ایک طرف ہمیں خطرات ہیں اور دوسرا یہ کہ میری تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اب گھر والے سب پریشان ہیں کہ کیا کریں۔ ہم کسی اور ملک نہیں جا سکتے واپس افغانستان میں خطرات ہیں اور پاکستان میں اب حکومت ہمیں رہنے نہیں دے گی۔‘
کہانی گھر گھر کی
پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد ان دنوں اس کشمکش میں ہیں کہ اب وہ کیا کریں۔ حکومت کی جانب سے بظاہر تو یہ ’غیر ملکیوں‘ کے بارے میں بتائی جا رہی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ کارروائی غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف نظر آتی ہے۔
اگرچہ افغانستان میں طالبان کے آنے سے پہلے بھی پاکستان میں بڑی تعداد میں ایسے افغان پناہ گزین موجود تھے جن کے پاس مکمل سفری دستاویز یا پاکستان میں رہنے کے کاغذات نہیں تھے۔
اس وقت وہ افغان جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے دستاویز نہیں ہیں ان کے لیے حالات پریشان کن ہیں۔ سجاد (فرضی نام) بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہیں۔
سنہ 2017 میں جب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی جانب سے ایک مہم شروع کی گئی تھی جس میں اپنی مرضی سے واپس جانے والے پناہ گزینوں کو دگنی مراعات دی جا رہی تھیں تو وہ واپس افغانستان چلے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ یہ سوچ کر گئے تھے کے اب افغانستان میں امن قائم ہو رہا ہے اور صدر اشرف غنی کی حکومت واپس آنے والے افغان شہریوں کو مراعات بھی دے رہی ہے تو ہم واپس افغانستان چلے گئے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے میرے پاکستان میں رہنے کے دستاویز ختم کر دیے گئے تھے یعنی میرا پی او آر کارڈ کینسل کر دیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ابتدائی طور پر میں اپنے بچوں کو ساتھ نہیں لے کر گیا تھا وہ پاکستان میں تھے۔ افغانستان پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں نہ کاروبار تھا اور نہ ہی کوئی کام تھا بلکہ حالات ویسے ہی خراب تھے۔
’مجھے احساس ہوا کہ یہ غلطی ہو گئی ہے اب واپس پاکستان کیسے جاؤں یہ بھی ایک مشکل صورتحال تھی۔‘
سجاد نے بتایا کہ وہ بڑی مشکل سے واپس پاکستان پہنچے اور یہاں آ کر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین میں دوبارہ درخواست دی جس پر انھیں تفصیل درج کر کے ایک ٹوکن دے دیا گیا۔
’اب میرے پاس وہ ٹوکن ہے لیکن کوئی کارڈ نہیں ہے جبکہ میرے بچوں کے پاس یہاں رہنے کا کارڈ ہے۔‘
سجاد اس وقت اس کشمکش میں ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا، اس لیے وہ گھر اور گھر سے اپنے کام کی جگہ تک ہی جاتے ہیں اور سودا، سلف اور دیگر کاموں کے لیے بچوں کو باہر بھیجتے ہیں۔
صرف سجاد ہی نہیں ان کی کام کی جگہ پر ان کے علاوہ بھی ایسے افغان کام کرتے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے دستاویز نہیں ہیں۔
عبدالسلام (فرضی نام) ایک نوجوان افغان ہے۔ وہ گھر گھر جا کر کباڑ کا سامان خرید کر بیچتا ہے۔
عبدالسلام نے بتایا کہ ان کے پاس پی او آر کارڈ ہے ان کی پیدائش پاکستان کی ہے اور ان کے والد عمر میں بہت چھوٹے تھے جب پاکستان آئے تھے یہیں شادی کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب علاقے میں خوف ہے کہ کیا جن کے پاس کارڈ ہے وہ بھی واپس جائیں گے یا نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں بتایا گیا ہے کہ جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے کارڈ ہیں انھیں ابتدائی طور پر نہیں بھیجا جائے گا لیکن بعد میں ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ ہو گا۔
اس وجہ سے وہ سب پریشان ہیں کہ اگر ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو وہ کیا کریں گے وہ تو افغانستان میں کسی کو نہیں جانتے۔
افغان فنکاروں کا کیا ہو گا؟
افغانستان میں دو سال پہلے طالبان نے اپنی عبوری حکومت قائم کی تو اس وقت افغانستان سے باہر نکلنے والوں میں نظریاتی مخالفین، یا سابق حکومت کے ساتھ اور یا غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بڑی تعداد میں موسیقی سے جڑے لوگ بھی افغانستان سے نکل گئے تھے۔
ان میں زیادہ ترلوگ پاکستان پہنچے تھے۔ ان فنکاروں کے مطابق صرف پشاور اور اس کے مضافات میں لگ بھگ 800 کے قریب افغان فنکار مقیم ہیں جن میں سے بیشتر کے پاس یہاں رہنے کے دستاویزات نہیں ہیں۔
سہیل (فرضی نام) ایک افغان گلوکار ہیں جو فارسی اور پشتو میں گانے گاتے ہیں۔ ان کے بھائی بھی ایک معروف گلوکار ہیں۔
وہ افغانستان میں دو سال پہلے طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان آ گئے تھے۔
کابل سے اسلام آباد تک کا ان کا سفر کسی ایڈوینچر سے کم نہیں تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کابل محل میں طالبان آ گئے تھے اور ہر طرف خوف کی فضا تھی اور لوگ بھاگ رہے تھے، غیر ملکی جن جہازوں پر سوار ہو رہے تھے ان کے ساتھ مقامی لوگ بھی دوڑیں لگا رہے تھے۔
سہیل اہل خانہ کے ساتھ بڑی مشکل سے اسلام آباد پہنچے تھے ان دنوں ان کے پاس بھی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کا ایک پروانہ ہے لیکن انھیں اب تک مکمل دستاویز یا کارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔
سہیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت ایک بے یقینی کی صورتحال ہے، ہم فنکار تو یہ سوچتے ہیں کہ افغانستان میں ان حالات میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ وہ موسیقی سے وابستہ لوگ ہیں اور افغانستان میں طالبان موسیقی کی اجازت نہیں دیتے تو ایسے میں وہ وہاں جا کر کیا کریں گے کیونکہ انھیں تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہاں اپنے گھر سے زیادہ دور نہیں جاتے بس روزمرہ کا سامان یہاں قریب سے ہی لے لیتے ہیں اس سے گزارہ کرتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں اب تک پولیس یا کسی ادارے کی جانب سے کچھ نہیں کہا گیا اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مہم زیادہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہے جس وجہ سے یہاں لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اب جا کر کچھ کام شروع کر سکے تھے، ہمیں یہاں موسیقی کے پروگرام میں مدعو کیا جا رہا تھا اور شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرتے تھے لیکن اب اس نئے اعلان کے بعد ان کے لیے حالات ویسے اچھے نہیں رہے۔‘
پشاور صدر، تہکال اور قصہ خوانی کے علاقوں میں ایسے افغان فنکار ہیں جنھوں نے بالاخانے لیے ہوئے ہیں اور وہاں وہ رہائش پزیر ہیں۔ ان میں زیادہ تر موسیقی سے وابستہ افراد ہیں۔
ان لوگوں میں خوف اور بے یقینی کی صورتحال اس حد تک تھی کہ یہ میڈیا سے بات کرنے پر راضی نہیں ہو رہے تھے اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ وہ میڈیا سے بات کریں بس وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
اسی طرح اسلام آباد کوئٹہ اور کراچی میں بھی موسیقی یا فن سے وابستہ افراد ان دنوں سامنے نہیں آ رہے لیکن ان میں خوف پایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ کیا کر رہا ہے ؟
اس وقت افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد نے رجسٹریشن کے لیے اپنے کاغذات اقوام متحدہ کے ادارے میں جمع کراوئے ہیں لیکن اب تک انھیں کوئی واضح احکامات نہیں دیے جا رہے۔
پشاور میں مقیم افغان شہریوں نے بتایا کہ ان کے پاس صرف ٹوکن ہیں جو یو این ایچ سی آر کی طرف سے دیا گیا ہے لیکن ان کے پاس کوئی کارڈ نہیں ہے۔
یو این ایچ سی آر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے چار دہائیوں سے زیادہ وقت تک افغان پناہ گزینوں کی مہمان نوازی کی ہے اور عالمی سطح پر اس کو قابل قدر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ طور پر ہونی چاہیے اور اس کے لیے اقوام متحدہ حکومت پاکستان کے ساتھ لائحہ عمل طے کر سکتی ہے۔
کیا یہی بہتر فیصلہ ہے؟
پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کے خلاف اچانک اس طرح کی کارروائی کے بعد تجزیہ کاروں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود اس سے سفارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پشاور میں صنعتکار محمد اسحاق نے بتایا کہ اگرچہ کسی حد تک اس فیصلے سے کاروبار پر اثر پڑے گا لیکن اتنا زیادہ نہیں ہو گا کیونکہ 2017 میں جب غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے خلاف پاکستان میں کارروائی کی گئی تھی اس وقت بیشتر نے اپنے کاروبار افغانستان منتقل کر دیے تھے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے قائم دفتر کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان حکومت کے لیے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنا انتہائی مشکل ہو گا کیونکہ ان افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کے لیے فنڈز درکار ہوں گے اور اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور دیگر انتظامات کرنا ہوں گے اور دوسری جانب اس کا ردِعمل بھی سخت ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون پر عمل درآمد ہونا چاہیے اور جو بھی غیر قانونی طور پر یہاں رہائش پذیر ہے اس کے بارے میں حکومت کو مناسب فیصلہ کرنا چاہیے۔