’دنیا میں موجود مریخ‘ پر ایک سال گزارنے والے سائنسدانوں نے مشکل حالات کا مقابلہ کیسے کیا؟

چار سائنسدانوں نے تقریباً 370 دن مکمل تنہائی میں گزارے تاکہ یہ جانچ سکیں کہ آیا انسان کامیابی کے ساتھ مریخ کو آباد کر سکتا ہے
from left to right: Anka Selariu, Ross Brockwell, Kelly Haston, Nathan Jones
NASA

محض نصف صدی پہلے تک مریخ پر جانے کی باتیں سائنس فکشن کہانی لگتی تھیں لیکن آج سائنس دان اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ مستقبل میں سرخ سیارے پر جانے والے نوآبادکاروں کو کن چیزوں میں مہارت کی ضرورت ہو گی، مریخ کے طویل سفر کے دوران وہ خود کو کیسے محفوظ رکھ سکیں گے اور انھیں وہاں کے ممکنہ حالات سے نمٹنے کے لیے کیسے تیار کیا جا سکتا ہے۔

ان سوالات کا جواب ڈھوندنے کے لیے گذشتہ سال 25 جون کو امریکہ سے تعلق رکھنے والے کیلی ہیسٹن، راس بروک ویل، ناتھن جونز اور انکا سیلاریو ایک ’خلائی سفر‘ پر روانہ ہوئے۔

ان کی منزل مریخ نہیں بلکہ اس کا ایک تھری ڈی (3D) پرنٹڈ ماڈل ہے جہاں سرخ سیارے کی آب وہوا اور وہاں کے حالات کی نقل کی گئی تھی تاکہ انھیں مریخ کے آب و ہوا سے روشناس کروایا جا سکے۔

یہ جگہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں واقع ناسا کے جانسن سپیس سینٹر کے ایک تربیتی اڈے پر بنائی گئی ہے۔ یہاں سائنسدانوں نے ان حالات کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے جن کا مستقبل میں مریخ پر جانے والوں کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سال بھر جاری رہنے والا یہ تجربہ آج تک کا سب سے طویل اور جامع خلائی پرواز کا تجربہ تھا۔

پچھلے ایک سال کے دوران سائنس دانوں نے مشن کے شرکا کی دور سے نگرانی کی اور انھیں وقتاً فوقتاً مختلف کام سونپے اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت کے بارے میں مسلسل ڈیٹا اکٹھا کرتے رہے۔

سنیچر 6 جولائی کو ’خلائی پرواز‘ کا یہ تجربہ باضابطہ طور پر مکمل ہو گیا ہے۔

محققین کو امید ہے کہ انھیں اس تجربے سے یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ لوگ اتنے لمبے عرصے تک اپنے پیاروں سے دور، بنا کسی تنازعے اور ذہنی صحت کو برقرار رکھتے ہوئے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔

The crew of the CHAPEA 1 Mars training mission
NASA
اس تجربے کے شرکا نے تقریباً ایک سال تک آسمان نہیں دیکھا تھا

تھری ڈی دنیا میں ایک سال

سوزین بیل جانسن سپیس سینٹر کے ناسا کے پرفارمنس لیبارٹری کی سر براہ ہیں
Reuters
سوزین بیل جانسن سپیس سینٹر کے ناسا کے پرفارمنس لیبارٹری کی سر براہ ہیں

اس تجربے کے شرکا نے تقریباً ایک سال تک آسمان نہیں دیکھا تھا۔

چاروں شرکا دی کریو ہیلتھ اینڈ پرفارمنس ایکسپلوریشن اینالاگ کے تحت تقریباً 370 دنوں تک بالکل اکیلے رہے۔

اس تجربے میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد کی کمی نہیں تھی۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی جانب سے اعلان کردہ چار رضاکاروں کی آسامیوں کے لیے 10 ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔

مریخ کے ایک طرفہ سفر کا دورانیہ تقریباً نو ماہ ہے۔ اس مشن کا مقصد اتنے طویل خلائی سفر سے شرکا پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینا ہے۔

mars
NASA

160 مربع کلومیٹر پر پھیلے مریخ کے اس ماڈل کو تھری ڈی (3D) پرنٹر کی مدد سے بنایا گیا ہے۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ میں تعمیرات کا ایک طریقہ 3D پرنٹرز کا استعمال ہے۔ زمین ے لاکھوں کلومیٹر دور ہونے کے باعث وہاں تک تعمیراتی سامان لے کر قابلِ عمل حل نہیں ہے۔

مریخ پر جانے والوں کو وہاں پہلے سے دستیاب مواد جیسے کہ اس سیارے کی مٹی کو ہی استعمال کرنا پڑے گا۔

امید کی جارہی ہے کہ ان مواد کو 3D پرنٹنگ کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

مسئلے کی صورت میں زمین سے رابطہ کرنے میں 22 منٹ لگیں گے

سوزین بیل جانسن سپیس سینٹر کے ناسا کے پرفارمنس لیبارٹری کی سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریخ کے مشکل حالات کے بارے میں بالکل درست معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔

مریخ کی آب و ہوا میں سانس نہیں لی جا سکتی اور اس کے علاوہ زمین کے مقابلے میں کم کششِ ثقل اور زیادہ تابکاری سرخ سیارے کو ناقابلِ رہائش بناتی ہے۔

تاہم اس تمام تجربے کے تحت عملے کے تمام افراد کو مریخ پر حقیقی مشن کے دوران پیش آ سکنے والے کسی بھی ممکنہ چیلنج کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

پورے سال کے دوران شرکا نے صرف وہی کھایا جو انھیں خلائی سفر کے دوران دستیاب تھا جیسے کہ ٹن پیک فوڈ یا ایسی خواک جو مریخ پر اگائی جا سکتی ہو۔

مریخ کے مشن کے دوران عملے کو جو سب سے بڑی پریشانی پیش آ سکتی ہے وہ کمیونیکشن میں تاخیر ہے۔

اگر مریخ پر موجود افراد زمین پر موجود مشن کنٹرول سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کی بات کو وہاں تک پہنچنے میں کم از کم 22 منٹ لگیں گے۔

مریخ
NASA

اس کا جواب آنے میں بھی 22 منٹ لگیں گے اس طرح دو طرفہ مواصلات میں کم و بیش 45 منٹ لگ جائیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عملے کو کوئی مشکل پیش آ جائے تو اس کے حل کے لیے کنٹرول روم سے حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔

منتظمین نے اس تجربے کو جامع بنانے کے لیے اس میں ہر طرح کے غیر متوقع مشکلات اور ناخوشگوار حالات کو شامل کیا ہے جن میں آلات میں گڑبڑ اور آڈیو مواصلات سے لے کر چھوٹے آلات کی ناکامی تک شامل ہے۔

سوزین بیل کا کہنا ہے کہ یہ جانچنا ضروری ہے کہ عملے کے ارکان اکیلے میں تناؤ پڑنے کی صورت میں کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

اس تجربے میں حصہ لینے کے لیے رضاکاروں کے پاس کم از کم نیچرل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری کے ساتھ ساتھ ہوائی جہاز چلانے کا تجربہ یا فوجی تربیت کا مکمل ہونا صروری تھا۔

کیلی ہیسٹن اس مشن کی کمنڈر تھیں۔ وہ ایک تربیت یافتہ معالج ہیں جو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے سٹیم سیل تھیراپی میں مہارت رکھتی ہیں۔

بروکویل ایک ڈیزائن انجینیر ہیں جبکہ جونز فوجی ڈاکٹر ہیں جنھوں نے ایمبولنس سروس میں کام کیا ہے۔

سیلاریو مائیکرو بیالوجست ہیں جنھوں نے امریکی بحریہ کے ساتھ کام کیا ہے۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ منتخب کردہ عملہ جسمانی اور نفسیاتی طور خلائی سفر کے لیے فٹ ہیں انھیں پیشہ ور خلابازوں کی طرح مختلف ٹیسٹوں سے گزارا گیا۔

ناقدین کا کیا کہنا ہے؟

وہ افراد جو مریخ پر انسانی مشن بھیجنے کی حمایت کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس مشن سے حاصل کردہ ڈیٹا خلابازوں کو تربیت دینے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز اور نئے طریقوں میں مددگار ثابت ہو گا اور اس سے طویل مدتی خلائی سفر کو محفوظ اور موثر بنانے میں مدد ملے گی۔

تاہم بہت سے ناقدین اسے کچھ زیادہ ہی پرامید قرار دیتے ہیں۔ وہ مریخ کے لیے پروازوں کو بہت خطرناک اور مہنگا گردانتے ہیں اور اس کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہیں۔

کیونکہ بیشتر کام جو مستقبل کے نوآبادکاروں کو سونپے جائیں گے وہ کام کہیں کم قیمت اور انسانی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر روبوٹ کے ذریعے بھی انجام دیے جا سکتے ہیں۔

سپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور روسی اکیڈمی برائے سائنسز کے نائب صدر لیو زیلینی کہتے ہیں کہ یہ پروگرام اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ آپ لوگوں کو محفوظ طریقے سے مریخ تک کیسے پہنچائیں گے۔

زمین کے مقناطیسی فیلڈ کے باہر موجود خطرناک تابکاری مریخ کے سفر پر جانے والے خلابازوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

زیلینی کا کہنا ہے کہ خلابازوں کو نقصان دہ شعاؤں سے بچانے کے لیے تکنیکی حل ابھی تک ایجاد نہیں کیا جا سکا ہے اور اس لیے وہ مریخ پر رہنے کے اس تربیتی پروگرام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.