ماچھکہ حملہ: ’راکٹ لانچر سے لیس 131 ڈاکو‘ پنجاب پولیس پر کیسے حملہ آور ہوئے؟

رحیم یار خان میں گذشتہ ہفتے 12 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور ان پر راکٹ سے حملے نے اس علاقے اور یہاں موجود ڈاکو گینگز کی عسکری صلاحیت کے بارے میں نئے سوالات اٹھائے ہیں، لیکن بات یہاں تک کیسے پہنچی اور ڈاکو پولیس اہلکاروں پر کیسے حملہ آور ہوئے؟

زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک نوجوان ہاتھ جوڑ کر کہتا ہے کہ ’اگر اِن (ڈاکوؤں) کے مطالبے پورے نہ کیے گئے تو یہ مجھے مار دیں گے۔۔۔ اللہ کا واسطہ ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھر آتی ہے کہ ’باقی شہید ہو گئے ہیں، مجھے بچا لیں۔‘

یہ نوجوان دراصل صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع رحیم یار خان میں لیاقت پور کے پولیس کانسٹیبل احمد نواز ہیں جن کے اس پیغام کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گذشتہ چند روز سے شیئر کی جاتی رہی ہے۔

وہ معمول کے مطابق کچے کے علاقے ماچھکہ کے کیمپ ٹو سے اپنے باقی 19 ساتھیوں کے ہمراہ ڈیوٹی سے واپس آ رہے تھے جب اُن کی گاڑی کیچڑ میں پھنسی اور پھر ان پر ڈاکوؤں کے گروہ حملہ آور ہوئے۔

صوبہ پنجاب میں کچے کے گینگز کے اس حملے میں 12 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ ڈاکو احمد نواز کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔

تاہم اتوار کو ایک بیان میں رحیم یار خان کے موجودہ ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے بتایا ہے کہ کانسٹیبل احمد نواز کو دو روز بعد باحفاظت بازیاب کروا لیا گیا ہے جو پولیس کی ایک ’اہم کامیابی‘ ہے۔

واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سنیچر کو رحیم یار خان کا دورہ بھی کیا اور ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِخانہ سے تعزیت بھی کی۔ اس دوران ایک پیغام میں انھوں نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا انتقام لیا جائے گا جبکہ آئی جی پنجاب عثمان انور نے اس موقع پر کہا کہ ’کچے کے ایریا سے تمامشرپسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

تاہم 12 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور ان پر راکٹ حملے نے اس علاقے اور یہاں موجود ڈاکو گینگز کی عسکری صلاحیت کے بارے میں نئے سوالات اٹھائے ہیں۔

جمعرات کی شب ماچھکہ میں کیا ہوا؟

تھانہ ماچھکہ کی حدود میں کماد کی گھنی فصلوں کے بیچ و بیچ ایک کچی سڑک پر پولیس کی دو گاڑیاں رواں دواں تھیں۔

مقامی شہری شاہو کوش کے گھر کے قریب بارش اور کیچڑ میں پولیس کی گاڑیاں اچانک رُک گئیں تو پولیس والوں نے گاڑیوں کو دھکا لگا کر سٹارٹ کرنے کی کوشش بھی کی مگر یہ بے سود رہا۔

ایسے میں پولیس اہلکار تھک کر زمین پہ بیٹھ گئے اور مدد کا انتظار کرنے لگے۔ مقامی لوگوں کے مطابق بعض جوانوں نے اس دوران ٹک ٹاک اور فیس بُک پر ویڈیوز بنا کر شیئر بھی کیں۔ یہ ویڈیوز اب بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں تاہم بی بی سی اس حوالے سے آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے کہ آیا یہ حملے سے کچھ لمحوں پہلے کی ہیں یا نہیں۔

اس حملے پر تھانہ ماچھکہ میں درج ہونے والے مقدمے کے مطابق راکٹ لانچر، جی تھری اور کلاشنکوف سمیت دیگر اسلحے سے لیس 131 ڈاکو کماد کی فصل سے نکل کر سامنے آئے اور ’پولیس کو جان سے مار دینے کی خاطر سیدھی فائرنگ شروع کر دی۔‘

مقامی لوگوں نے اس دوران ہر طرف گولیاں چلنے اور چیخ و پکار کی آوازیں سنیں۔

حکام کے مطابق اس حملے میں موقع پر ہی پولیس کے 12 جوانوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ سات اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ کانسٹیبل احمد نواز کو ڈاکو اپنے ساتھ اغوا کر کے لے گئے جن کی اگلے ہی روز سوشل میڈیا پر ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر اعظم شہباز شریف سے مدد کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔

پولیس کے مطابق اس حملے کے لیے ڈاکوؤں کی سربراہی لکھی، منی اور گڈو شر کر رہے تھے۔ پولیس نے کوش گینگ، سیلرا گینگ اور اندھڑ گینگ سمیت 131 جرائم پیشہ افراد کے خلاف قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ ’اس کی جوابی فائرنگ میں انتہائی مطلوب ڈاکو بشیر شر ہلاک ہوئے تھے اور ڈاکو ان کی لاش کے علاوہ سرکاری اسلحہ بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘

’ڈاکو پولیس کو دشمن قبیلہ سمجھتے ہیں‘

اگرچہ پولیس کے جوانوں پر ڈاکوؤں کے اس حملے میں بڑا جانی نقصان ہوا ہے لیکن یہ غیر متوقع نہیں تھا۔

مقامی پولیس اور لوگوں کا کہنا ہے کہ بظاہر ڈاکو کافی عرصے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی ایسے بیان دیتے تھے کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے بدلے ’10 پولیس والوں کو ماریں گے۔‘

پولیس پر ہونے والے اس حالیہ ہلاکت خیز حملے کے دوران عمران احمد ملک رحیم یار خان کے ڈی پی او تھے جنھیں دو روز قبل اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس حملے کے حوالے سے کسی پیشگی خطرے کے بارے میں سوال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہر طرح سے تیار تھے کہ ڈاکو کبھی بھی حملہ کر سکتے ہیں۔‘

عمران ملک بتاتے ہیں کہ وہ خود ماچھکہ گئے تھے اور اس وقت انھوں نے پولیس کانسٹیبلز کا مورال بلند کیا تھا اور انھیں متنبہ کیا تھا کہ کسی بھی خطرے سے نمٹتے ہوئے ایس او پیز پر عمل کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ کچے کے علاقے میں ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں کو یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ ’شام کو بلاضرورت نہ نکلیں۔ اپنے ناکے پر رہیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال نہ کریں۔‘

اس الزام پر کہ آیا بارش کے دوران پولیس اہلکاروں کی جانب سے سوشل میڈیا استعمال کرنے کی وجہ سے ڈاکوؤں کو ان تک پہنچنے کا موقع ملا تھا، عمران ملک نے بتایا کہ ’جب پولیس والوں کی گاڑی خراب ہوئی تھی تب ان کو سوشل میڈیا بالکل استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

’ہمیں شر گینگ، کوش اور اندھڑ گینگز کی طرف سے تھریٹس تھے۔ ہم الرٹ تھے۔‘

عمران ملک کا کہنا ہے کہ ’کچے میں بسنے والے ڈاکو قبائلیوں کی طرح رہتے اور سوچتے ہیں۔ وہ پولیس کو دشمن قبیلہ سمجھتے ہیں۔‘

ان کے مطابق پولیس کو معلوم ہے کہ کچے کے علاقے میں رہنے والے تمام گینگز کی برادریاں ہیں۔ ’وہ حملے بھی کرتے ہیں اور ان کے کچھ لوگ جو ڈاکو نہیں وہ ڈاکوؤں کے لیے مخبری کرتے ہیں۔ یہ لوگ قتل کا بدلہ لینے پر یقین رکھتے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس جوانوں پر حملے کے ردعمل میں رسپانس سست کیوں تھا تو اس پر انھوں نے کہا کہ ماچھکہ کا کچھ علاقہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں آتا ہے۔ ’رحیم یار خان سے وہاں پہنچنے کے لیے تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں سندھ پولیس کو بھی فوری ردِ عمل دینا چاہیے تھا۔‘

عمران ملک کا دعویٰ ہے کہ یہ رحیم یار خان کے بعض پولیس اہلکاروں کی نااہلی تھی کہ وہ تھریٹ کو سمجھنے کے باوجود بھی اسے ہینڈل نہیں کر پائے جس کی وجہ سے اتنی قیمتی جانیں چلی گئیں۔

23 اگست کو محکمۂ داخلہ پنجاب نے ڈی پی او رحیم یار خان عمران ملک سمیت تین افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔

عمران ملک کچے کے علاقے میں پولیس کے ناکوں پر پرانے اسلحے یا اسلحے کی عدم موجودگی کے الزام کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’تمام اہلکاروں کے پاس جدید اسلحے کے باوجود یہ بدقسمت واقعہ ہوا ہے۔‘

خیال رہے کہ پولیس اور کچے کے ڈاکوؤں کے درمیان مخاصمت نئی نہیں ہے۔ جولائی 2023 میں پنجاب اور سندھ کی پولیس نے ایک مخبر عثمان چانڈیہ کے ذریعے رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے کچے کے ڈاکوؤں کے ایک گینگ کے سرغنہ جانو اندھڑ کو کشمور میں ان کے پانچ ساتھیوں سمیت ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

رواں برس مئی میں بگٹی قبیلے کی شاخ کلپر نے سندھ کے سرحدی علاقے گھوٹکی میں کچے کے ڈاکوؤں کے شر گینگ پر حملہ کیا تھا اور اس حوالے سے مقامی پولیس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے ان کی معاونت کی گئی۔

اسی طرح اگست 2024 کے اوائل میں گھوٹکی میں ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس میں تین پولیس اہلکار اور چار ڈاکو ہلاک ہوئے تھے۔

جب بی بی سی نے سابق ڈی پی اور رحیم یار خان عمران ملک سے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بلوچستان سے آئے کلپر بگٹیوں کی اس حملے میں حمایت کے دعوے کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب آپ سٹریٹیجک فیصلے لیتے ہیں تو اس کے نتائج سامنے آتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ اپریل 2023 میں پولیس کی جانب سے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس کے بارے میں اس وقت کی نگران حکومت نے کہا تھا کہ ایسا ’کچے کے علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملنے کے بعد کیا گیا تھا۔‘

کچے کا علاقہ
AFP

کچے کا علاقہ کیا ہے؟

دریائے سندھ جیسے جیسے جنوب کی جانب بڑھتا ہے اس کی موجوں کی روانی سست اور اس کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے قریب اس کی وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں تبدیل کر دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہوتے ہیں جن تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہوتی ہے۔

اسی مشکل کو ڈاکو اپنی آسانی میں بدل کر یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے ہیں اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ بھی لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔

یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوؤں اور آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجوؤں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ رہا ہے۔ یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔

جس کچے علاقے کی ہم بات کر رہے ہیں وہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کا علاقہ ہے۔

یہاں کے رہائشی زمیندار میرل خان بتاتے ہیں کہ کہنے کو تو یہ بمشکل بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے لیکن ندی نالوں کے درمیان جزیروں پر ڈاکووں کی پناہ گاہوں تک پلوں کی عدم موجودگی میں پہنچنا مشکل کام ہے۔

میرل خان کے مطابق اس علاقے کی ساخت ایسی ہے کہ کہیں جنگل ہے، کہیں پانی ہے اور کہیں خشکی۔ اسی لیے پولیس کے لیے یہاں کے ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا خطروں سے پُر ہوتا ہے اور عام طور پر پولیس کے لیے یہ 'نو گو ایریا' سمجھا جاتا ہے۔

پنجاب حکومت نے ڈاکوؤں کے سروں کی قیمت بڑھا دی

اس واقعے کے بعد پنجاب حکومت نے کچے کے ’20 خطرناک ڈاکوؤں‘ کے سروں کی قیمت 10 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے مقرر کر دی ہے اور اعلان کیا ہے کہ جو ان کے خلاف مخبری کرے گا یا اطلاع دے گا اس کو انعام دیا جائے گا۔

کچے کے علاقے میں رہنے والے جماعت اسلامی کے بااثر رہنما عبدالکریم مزاری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ڈاکو کہیں چھپے ہوئے ہیں بلکہ وہ ’سرِعام بیٹھے ہیں۔ (سب کو) ان کے گھر کا اتا پتا بھی معلوم ہے۔ پولیس وہاں جا نہیں سکتی۔ تو سر کی رقم بڑھانے کا کیا فائدہ؟‘

دریں اثنا پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ مغوی کانسٹیبل احمد نواز کے بدلے جبار اندھڑ لولائی کو ڈاکوؤں کے حوالے کیا گیا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔ جبار اندھڑ کے خلاف پولیس ریکارڈ کے مطابق چار مقدمات درج ہیں جن میں سے ایک مقدمے میں انھیں سزا بھی ہو چکی ہے۔

بی بی سی نے آئی جی پنجاب، ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب اور آر پی او بہاولپور سے فون پر یہ پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ پولیس اس حملے سے نمٹنے میں کیوں ناکام ہوئی تاہم اس حوالے سے ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

میڈیا کو جاری کیے گئے ایک بیان میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ’بزدلانہ کارروائیاں ملک و قوم کی حفاظت میں جانیں قربان کرنے والی پولیس فورس کا مورال پست نہیں کر سکتیں۔

’کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن بھرپور طاقت سے جاری رہے گا اور جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔‘

مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق پنجاب پولیس نے کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف ’بھرپور کریک ڈائون‘ کے لیے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے بھی رابطہ کیا ہے اور ڈاکوؤں کے خلاف ’انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔‘

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی کے ممبر ممتاز چانگ کی رائے ہے کہ کچے کا واحد حل وہاں فوج اور سی ٹی ڈی کی موجودگی ہے۔ ’پولیس کو ہٹا کر ان پکٹس پر فوج کو تعینات کیا جائے۔ اگر فوج کو بلوچستان، کراچی اور شورش زدہ علاقوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے تو کچے کے علاقوں میں کیوں نہیں؟‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.