’پوتن سے بھی زیادہ‘ پوتن کی حامی روسی صحافی مارگریٹا کون ہیں جن پر امریکی پابندی عائد کی گئی

روس کے سرکاری خبر رساں ادارے آر ٹی کی مدیر مارگریٹا سیمونیئن ان روسی صحافیوں میں شامل ہیں جن پر امریکہ نے 2024 کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کے الزام پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
روس
EPA

روس کے سرکاری خبر رساں ادارے آر ٹی کی مدیر مارگریٹا سیمونیئن ان روسی صحافیوں میں شامل ہیں جن پر امریکہ نے 2024 کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کے الزام پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

44 سالہ مارگریٹا کو روس میں پروپیگینڈا کے لیے سب سے اہم شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بعض اوقات پوتن سے بھی زیادہ ان کے نظریات کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے پابندیوں کے اعلان کے بعد جب فہرست میں ان کا نام سامنے آیا تو مارگریٹا نے ایکس پلیٹ فارم پر یوں ردعمل دیا کہ ’اچھا وہ جاگ گئے ہیں۔‘

اپنے ادارے کے دیگر افراد کے ناموں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے لکھا ’بہت اچھے، میری ٹیم۔‘

مغربی دنیا کی جانب ان کے نظریات شاید مارچ میں بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو سے واضح ہوتے ہیں جب صدر پوتن پانچویں بار صدارت کا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پوتن کا کوئی سنجیدہ مخالف امیدوار بھی ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’کسی سنجیدہ امیدوار کی ضرورت ہے؟ کیوں؟ ہم آپ جیسے نہیں ہیں۔ اور ہم آپ کو زیادہ پسند بھی نہیں کرتے۔‘

آرمینین خاندان میں پیدا ہونے والی مارگریٹا کو ایکسچینج پروگرام میں امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو وہ 1995 میں نیو ہیمشائر پہنچیں۔ بعد میں روس لوٹ کر انھوں نے ٹی وی میں صحافت کا آغاز کیا۔

2004 میں جب چیچن عسکریت پسندوں نے روس میں بیسلان سکول پر حملہ کیا تو مارگریٹا نے اس واقعے پر رپورٹنگ سے نام کمایا۔ تین دن تک جاری رہنے والے اس واقعے کا اختتام 186 بچوں کی ہلاکت کے ساتھ ہوا تھا۔

مارگریٹا کو اس واقعے کے بعد 25 سال کی عمر میں ’رشیا ٹوڈے‘ نام کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی تشکیل کے لیے چُنا گیا جس کا نام بعد میں آر ٹی رکھ دیا گیا تھا۔

دو دہائیوں سے وہ مغرب کی بڑی ناقد اور پوتن کی حامی رہی ہیں اور ایک ایسے نیٹ ورک کی سربراہی کر رہی ہیں جسے امریکہ ’کریملن کے پروپیگینڈا کا مرکزی کردار‘ قرار دیتا ہے جنھوںنے صدارتی انتخاب میں بھی مبینہ مداخلت کی۔

وقت کے ساتھ ساتھ مارگریٹا اور انکے چینل کا بیانیہ شدت اختیار کرتا گیا۔ سنہ 2000 سے 2010 تک، جب روس اور مغرب کے تعلقات میں دراڑیں پڑ رہی تھیں، اس نیٹ ورک پر الزامات لگے کہ وہ کریملن کا پروپیگینڈا پھیلا رہا ہے۔

2014 میں کریمیا اور یوکرین کے مشرقی علاقوں پر قبضے کے بعد اس چینل نے یوکرین اور مغرب پر کھل کر تنقید شروع کر دی اور یوکرین کی حکومت کے لیے ’رجیم‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔

جبکہ مغرب پر الزام لگایا گیا کہ وہ ’روس کو تباہ‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مارگریٹا صرف ایک چینل کی سربراہ نہیں بلکہ روس کے سیاسی ٹی وی شوز میں باقاعدگی سے شرکت کرتی ہیں۔

2022 میں برطانیہ نے ان کے چینل پر پابندی عائد کر دی تھی اور روس میں یوکرین پر حملے کے بعد جب بہت سے صحافیوں نے جنگ کی مخالفت میں استعفی دیا تو مارگریٹا نے الزام لگایا کہ ’جنگ کی مخالفت کرنے والے روسی نہیں ہیں۔‘

یوکرین کی جنگ کے دوران جاسوسی کی ایک بڑی کہانی میں بھی انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور جرمنی کی ایئر فورس کے ایک افسر کی گفتگو لیک کی جس میں انھیں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی یوکرین کو فراہمی اور ان کے استعمال پر بات کرتے سنا گیا۔

ان کی عوامی رائے اب سرکاری بیانیے سے بالکل الگ نہیں ہے اور اکثر وہ روس کے دشمنوں کے خلاف تشدد کے استعمال کے حق میں بات کرتی ہیں۔

انھوں نے اس سرکاری بیانیے کو بھی فروغ دیا ہے کہ روس کو یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں ریفرینڈم کروانا چاہیے تاکہ ’لوگ فیصلہ کر سکیں کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔‘

دوسری جانب انھوں نے روس کی حزب مخالف کے سربراہان کو ’پھانسی دینے‘ کے ساتھ ساتھ ’یورپ کے اندر فوج بھیجنے‘ کی بھی بات کی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.