بکتاشی ایک صوفی سلسلہ ہے جس کی بنیاد خراسان (موجودہ ایران) کے شہر نیشا پور میں سنہ 1248 میں پیدا ہونے والے حاجی بکتاش ولی نے رکھی تھی۔ حاجی بکتاش ولی کی وفات 92 سال کی عمر میں سنہ 1340 میں ہوئی تھی۔
البانیہ کے وزیر اعظم ایڈی راما نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی حکومت ملک کے دارالحکومت ’تیرانا‘ کی حدود کے اندر صوفی فرقے ’بکتاشی‘ کے لیے ایک چھوٹی سی اور خودمختار ریاست قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق حال ہی میں امریکہ میں ہونے والے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے دوران البانیہ کے وزیراعظم ایڈی راما نے پہلی بار اِس منصوبے سے متعلق مختصراً اپنا خیال پیش کیا ہے۔
البانیہ کے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارا مقصد دارلحکومت تیرانا میں پہلے سے موجود ’بکتاشی سینٹر‘ کو اعتدال پسندی، رواداری اور پُرامن بقائے باہمی کے نئے مرکز کے طور پر ایک خودمختار ریاست میں تبدیل کرنے کی حمایت کرنا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس نئی ریاست کا مقصد اسلام کے ایک ایسے رواداری پر مبنی ورژن کو فروغ دینا ہے جس پر البانیہ کے عوام فخر محسوس کر سکیں۔ ہمیں مذہبی رواداری کے اِس خزانے کا خیال رکھنا چاہیے اور ہمیں اسے کبھی بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔‘
اس موقع پر وزیراعظم ایڈی راما نے تسلیم کیا کہ ملک کے دارالحکومت تیرانا میں ایک خودمختار اسلامی ریاست بنانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔
یہ منصوبہ پیش کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’شاید سب کہیں گے کہ یہ آدمی پاگل ہے۔۔۔ وہ میرے بارے میں پہلے بھی ایسا کئی بار کہہ چکے ہیں، مگر مجھے کوئی پرواہ نہیں، چاہے میں پاگل ہوں یا نہیں، اہم بات اچھائی کے لیے کوشش کرنا ہے۔‘
سُنی مسلمانوں کے بعد دوسرا بڑا مسلم گروہ
دوسری جانب تیرانا میں بسنے والی بکتاشی برادری نے وزیراعظم کے اس بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بکتاشی برادری کو خودمختار بنانے کا فیصلہ ایک منقسم دنیا میں جامعیت، مذہبی ہم آہنگی اور مکالمے کی اقدار کو فروغ دینے میں ایک اہم قدم ہے۔‘
البانیہ کی آبادی تقریباً 27 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس آبادی میں لگ بھگ 50 فیصد مسلمان ہیں، جبکہ باقی کا تعلق کیتھولک، آرتھوڈوکس اور دیگر چھوٹے مذہبی فرقوں سے ہے۔ یہ ملک اپنی مذہبی ہم آہنگی اور پُرامن بقائے باہمی کے لیے جانا جاتا ہے۔
ملک میں سنہ 2023 میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق بکتاشی ملک کی مسلم آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں۔ وہ سُنی مسلمانوں، آرتھوڈوکس اور کیتھولک مسیحیوں کے بعد البانیہ میں چوتھا بڑا مذہبی گروپ ہیں۔
وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد قانونی ماہرین کی ایک ٹیم اب ایسے مسودہ قانون پر کام کر رہی ہے جو البانیہ کے اندر نئی ریاست کی خود مختار حیثیت کی وضاحت کرے گا۔
اس مسودہ قانون کی پارلیمنٹ سے توثیق کی ضرورت ہو گی۔ یاد رہے کہ البانیہ میں فی الوقت سوشلسٹ پارٹی برسراقتدار ہے۔
تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ البانیہ کے علاوہ کوئی ایسا ملک ہے جو کہ بکتاشیوں کی اس مجوزہ خودمختار ریاست کو تسلیم کرنے پر رضامند ہو گا۔
بکتاشی برادری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد بنیادی طور پر البانیہ میں مقیم ہیں جہاں اُن کا ایک عالمی مرکز بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس مذہبی گروہ کے پیروکار ترکی، یونان، ایران، امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔
سنہ 1805 سے 1952 تک مصر میں محمد علی خاندان کے دور حکومت کے دوران بکتاشی تحریک نے ایک بڑا کردار ادا کیا تھا۔ مؤرخ الجبرتی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مصر میں محمد علی پاشا کے انتہائی قریبی افراد (معتمدین خاص) میں عبداللہ بکتاش بھی شامل تھے، جو بکتاش فرقے کے ایک بڑے مفسر تھے۔
بکتاش: صوفی سلسلہ
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق بکتاشی ایک صوفی سلسلہ ہے جس کی بنیاد خراسان (موجودہ ایران) کے شہر نیشا پور میں سنہ 1248 میں پیدا ہونے والے حاجی بکتاش ولی نے رکھی تھی۔ حاجی بکتاش ولی کی وفات 92 سال کی عمر میں سنہ 1340 میں ہوئی تھی۔
بکتاشی سلسلہ معروف صوفی شاعر جلال الدین رومی اور اسلامی سکالر اور صوفی و فلسفی ابن عربی کے نظریات سے متاثر ہے۔ ابتدا میں وہ دراصل سُنی اسلام کے اندر رائج بہت سے صوفی سلسلوں سے متاثر تھے تاہم بعدازاں وہ شیعہ نظریات سے متاثر ہوئے جس کا اظہار پیغمبر اسلام کے داماد اور اسلام کے چوتھے خلیفہ علی ابن ابی طالب کے ساتھ اُن کی بے پناہ عقیدت سے ہوتا ہے۔
بکتاشی صوفی سلسلے کی خانقاہیں عثمانی دور حکومت میں بلقان اور خاص طور پر البانیہ میں پھلی پھولیں۔ ہر خانقاہ کے شیخ کو ’بابا‘ کہا جاتا تھا جبکہ درویشوں کو ’مرید‘ کہا جاتا تھا اور جو خانقاہ کے سلسلے میں شامل ہوتا تھا اسے ’منتسب‘ کہا جاتا تھا۔
بہت سے صوفی سلسلوں کی طرح بکتاشیوں کے بارے میں بھی یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ دیگر اسلامی فرقوں کے برعکس اسلامی قانون کی مختلف تشریح رکھتے ہیں۔ جیسا کہ اس فرقے کے پیروکاروں کو شراب پینے کی اجازت ہے اور مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔
بکتاشی فرقے پر مختلف مذہبی تحریکوں کے اثرات نمایاں ہیں اور یہ اثرات صرف اسلام تک محدود نہیں ہے بلکہ اُن پر مسیحیت کے بھی اثرات ہیں۔
بکتاشی صوفیا کی تحریروں نے صوفیانہ شاعری میں بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔
بکتاشی اور ترکی کے جاں نثار فوجی
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس صوفی فرقے کی ابتدا کرنے والے حاجی بکتاش ولی کا سلطنت عثمانیہ کے ساتھ گہرا تعلق تھا، خاص طور پر جاں نثار فوج کے ساتھ۔ اُن کی یہ فوج صدیوں تک عثمانی فوج میں بطور حملہ آور دستہ شامل رہی۔
سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی کہانیوں میں رقم ہے کہ عثمانی سلطان اورحان غازی نے حاجی بکتاش ولی کی شہرت سُنی تو وہ اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ ان سے دعا لینے گئے۔ بکتاش ولی نے اُن سے ملاقات کی، اُن کے لیے دعا کی اور انھیں ایک علم (پرچم) دیا جس پر ذوالفقار (علی ابن ابی طالب کی تلوار) بنی ہوئی تھی۔ اس دن سے جاں نثاریوں کا تعلق شیخ بکتاش ولی سے اور بعد میں اُن کے صوفی سلسلے سے ہو گيا۔
جاں نثار فوج بنیادی طور پر جنگوں میں پکڑے گئے عیسائی بچوں پر مشتمل تھی، جنھیں مذہبی تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد میں بکتاشی فرقے کے تحت ان جاں نثاروں نے اپنی مذہبی تعلیم حاصل کی۔
ڈاکٹر عبدالعزیز الشیناوی اپنی کتاب ’عثمانی ریاست، حصہ اول‘ میں لکھتے ہیں کہ جاں نثار بکتاشی سلسلے سے مضبوطی سے وابستہ تھے اور اپنے شیخوں کی مکمل اطاعت کرتے تھے، اور یہ اطاعت وفاداری کے انتہائی درجے تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس لیے جاں نثاروں کو بعض اوقات ’بکتاشی سپاہی‘ کہا جاتا تھا۔
درحقیقت بکتاشی سلسلے کو جو سیاسی اہمیت حاصل تھی، اس کی وجہ جاں نثاروں کے ساتھ اُس کے تعلقات تھے، جو اس سلسلے کے شیخوں کو اپنا امام سمجھتے تھے۔
سنہ 1340 میں حاجی بکتاش ولی کی موت کے بعد بکتاشی سلسلہ اور جاں نثاروں کے درمیان کا تعلق سنہ 1825 تک بہت قریبی رہا۔ جب جاں نثاروں کی قوت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ اقتدار کی باگ ڈور پر قابض ہو گئے اور جسے چاہتے اسے مقرر کرتے اور جسے چاہتے اسے معذول کر دیتے تو عثمانی سلطان محمود دوم نے جاں نثار دستے کو ختم کر دیا۔
بکتاشی تحریک کی قیادت سنہ 1935 میں اُس وقت البانیہ منتقل ہو گئی جب ترکی میں تمام صوفی فرقوں کو جدید ترک ریاست کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے تحلیل کر دیا۔
البانیہ کا دارالحکومت تیرانا میں واقع بکتاشی کمپلیکس جو اصل میں تقریباً 90 ایکڑ پر محیط تھا، البانیہ کے سابق کمیونسٹ ڈکٹیٹر اینور ہوکسا کی جانب سے سنہ 1967 میں تمام مذاہب پر پابندی عائد کرنے کے بعد سے دو تہائی سکڑ گیا، جبکہ ہوکسا حکومت نے بکتاشیوں کی زمین پر گودام بنانا شروع کر دیے تھے۔
سنہ 1991 میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد بکتاشیوں نے مزید زمین اس وقت کھو دی جب نجی ڈویلپرز نے کمپلیکس کے کنارے پر بغیر اجازت گھر بنانے شروع کر دیے۔
دنیا کا سب سے چھوٹا ملک
بکتاشیوں کے لیے ایک خودمختار ریاست البانیہ کے دارالحکومت تیرانا میں قائم کیجائے گا جو کہ مسیحیوں کے ویٹیکن کی طرح ایک خودمختار انکلیو ہو گا اور یہ تیرانا شہر کے پانچ بلاکس پر مشتمل علاقے کو کنٹرول کرے گا۔
رپورٹ میں یہ عندیہ دیا گیا کہ یہ ملک شراب کی اجازت دے گا، اور خواتین کو جو وہ پہننا چاہیں، انھیں پہننے کی اجازت ہو گی اور کسی کے طرز زندگی پر کوئی اصول نافذ نہیں کیے جائيں گے۔
بکتاشی سربراہ ایڈمنڈ براہیماج اپنے پیروکاروں میں ’بابا مندی‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ کس طرح 24 ایکڑ اراضی پر حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جسے البانیہ اپنی انتظامیہ، پاسپورٹ اور سرحدوں کے ساتھ ایک خودمختار ریاست میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس ریاست میں تمام فیصلے پیار اور مہربانی کے ساتھ کیے جائیں گے۔
65 سالہ بابا مندی ایک سابق البانوی فوجی افسر ہیں۔ بکتاشیوں میں ان کا سرکاری ٹائٹل ’عزت مآب ہدجی دیدے بابا‘ ہے اور فی الوقت وہ بکتاشی سلسلے کے سپریم لیڈر ہیں۔
تیرانا میں بکتاشی ورلڈ سینٹر (ٹیکے) میں ایک گنبد نما ہال ہے جو عبادت اور اجتماع کے لیے ہے۔ یہاں تاریخی حوالوں سے بھرا ایک میوزیم ہے، ایک کلینک، ایک آرکائیو، اور بابا مندی کے انتظامی دفاتر ہیں۔ بابا سفید داڑھی والے ایک خوش مزاج شخص ہیں جنھیں سخت گیر نظریوں اور تشریحات سے سخت نفرت ہے۔
بابا مندی نے کہا کہ مسلم انتہا پسند جو بم دھماکے کرتے ہیں اور اپنے عقیدے کو پھیلانے کے لیے تشدد کا استعمال کرتے ہیں وہ ’کاؤ بوائے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔‘
بابا مندی نے البانیہ میں بکتاشی ریاست کے قیام کے منصوبے کو ایک ’معجزہ‘ قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اگر پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کے منصوبے کی منظوری دے دی تو امریکہ اور دیگر مغربی طاقتیں ان کے ملک کی خودمختاری کو تسلیم کر لیں گی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم ایک ریاست کے مستحق ہیں۔ دنیا میں صرف ہم ہی ہیں جو اسلام کے بارے میں سچ کہتے ہیں اور اسے سیاست سے نہیں ملاتے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’نئی ریاست کو ایک چھوٹی انٹیلیجنس سروس کی ضرورت ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے دشمن ہیں، لیکن ہمارے پاس فوج، سرحدی محافظ یا عدالتیں نہیں ہوں گی۔‘
اگر یہ منصوبہ البانیہ کی پارلیمان سے منظور ہو جاتا ہے تو بکتاش دنیا کی سب سے چھوٹی ریاست بن جائے گی جس کا رقبہ 0.44 مربع کلومیٹر یا 10 ہیکٹر (24 ایکڑ) پر محیط ہو گا اور یہ ویٹیکن کے حجم کا محض ایک چوتھائی ہے۔
دوسری طرف پین البانوی مسلم تنظیم نے وزیر اعظم ایڈی راما کے اپنے ملک کے اندر ویٹیکن ماڈل کی طرح ایک چھوٹی، خودمختار اسلامی ریاست کے قیام کے منصوبے پر سخت تنقید کی۔
البانیائی مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم نے وزیراعظم ایڈیکے منصوبے کو ’مذہبی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالنے‘ کے مترادف بیان کیا۔