عہدے کا حلف اٹھانے سے قبل ہی امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت کے لیے اہم عہدوں پر نامزدگیاں کر دی ہیں۔ کس شخصیت کو کیا عہدہ ملا، جانیے ہماری اس تحریر میں۔۔۔
ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکا کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے تاہم حلف اٹھانے سے قبل ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت کے لیے اہم عہدوں پر نامزدگیاں کر دی ہیں۔
ان میں دنیا کا سب سے امیر شخص، ایک سابق فوجی افسر اور ٹرمپ کے گولف کے ساتھی بھی شامل ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اعلانات پر ہیں جن کے تحت وہ امریکہ میں اپنے صدارتی دور کے آغاز سے قبل اہم عہدوں پر تعینات ہونے والے لوگوں کی نامزدگی کا اعلان کر رہے ہیں۔
ان میں اب تک ایکس کے مالک ایلون مسک سے لے کر ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور دوست شامل ہیں۔ ان تعیناتیوں سے ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسی کیا ہو گی؟ مشرق وسطی پر امریکہ کیا موقف اپنائے گا اور کیا وہ اسرائیل کی حمایت ہی جاری رکھے گا؟
اس کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک میں بھی ان تعیناتیوں کو غور سے دیکھا جا رہا ہے اور اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ کون سی شخصیت اہم امور پر ماضی میں کیا موقف اپناتی رہی ہے۔
اب تک ڈونلڈ ٹرمپ نے چند افراد کے بارے میں فیصلے کا اعلان ایکس پر کیا ہے جس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ یہ واضح پیغام ہے کہ ٹرمپ قومی سلامتی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان ناموں سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے حامیوں کو نواز رہے ہیں۔ جیسا کہ مشرق وسطیٰ کے لیے نامزد خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف جو ٹرمپ کی مہم میں عطیات بھی دیتے رہے ہیں اور ان کے ساتھ گولف بھی کھیلتے رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کے لیے نامزد امریکی فیر مائیک ہکابی کو اسرائیل نواز ہونے کے لیے جانا جاتا ہے جو ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں۔
ایک اور سابق سفارت کار کا کہنا ہے کہ سٹیو وٹکوف کا مشرق وسطی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں رہا تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اہم عہدوں پر تعیناتی میں وفاداری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم سٹیو وٹکوف اور مائیک ہکابی کے علاوہ اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر کی نامزدگی سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کی کھل کر حمایت کریں گے۔
دوسری جانب بہت سے قدامت پسند چین کو امریکی اثرورسوخ کے لیے معاشی اور عسکری اعتبار سے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے چین پر تنقید کو تجارت تک محدود رکھا ہے تاہم ان کی خارجہ امور کی ٹیم چین کے نقادوں سے بھر رہی ہے۔
ٹرمپ نے مائیک والٹز، ایک سابق فوجی کرنل، کو قومی سلامتی امور کے مشیر نامزد کیا ہے جو ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ امریکہ اور چین سرد جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ اقوام متحدہ کے سفیر کے لیے نامزد ہونے والی الیز سٹیفنک نے بھی ماضی میں چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ الیکشن میں مداخلت کر رہا ہے جب یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ چینی حمایت یافتہ ہیکرز نے سابق صدور کے فون سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری جانب سیکرٹری خارجہ کے لیے ٹرمپ کے ممکنہ امیدوار، مارکو روبیو، بھی چین کے ناقد رہے ہیں۔ 2020 میں چینی حکومت نے ان پر پابندی عائد کر دی تھی جب انھوں نے ہانگ کانگ میں مظاہروں پر کریک ڈاون پکے بعد چین کے خلاف پابندیاں لگوانے کی مہم چلائی تھی۔
اس تحریر میں ہم اہم ترین عہدوں پر ہونے والی ان نامزدگیوں پر نظر دوڑائیں گے کہ ٹرمپ کی ٹیم کا حصہ بننے والی یہ شخصیات کون ہیں؟
مائیک ہکابی: اسرائیل میں ٹرمپ کے نامزد امریکی سفیر
مائیک ہکابی اسرائیل کے لیے امریکہ کے نئے سفیر ہوں گے۔ اگرچہ وہ 13 سال میں اس عہدے پر آنے والی وہ پہلی شخصیت ہیں جو یہودی نہیں لیکن 69 سالہ ہکابی ایک طویل عرصے سے اسرائیل کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
امریکی ریاست آرکنساس کے سابق گورنر نے اپنا پہلا دورہ اسرائیل سنہ 1973 میں کیا اور اس کے بعد سے وہ وہاں جانے والے درجنوں عیسائی مشنوں کی قیادت کرتے رہے۔
سنہ 2018 میں اسرائیل کے دورے کے دوران مغربی کنارے پر ایک نئے ہاؤسنگ کمپلیکس کے لیے اینٹیں بچھاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ ’کسی دن یہاں گھر خریدنا پسند کریں گے۔‘
سنہ 2008 میں مائیک ہکابی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’فلسطین نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔‘
مائیک ہکابی کی نامزدگی پر اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی ایتامیر بین گویر نے سوشل میڈیا ہر ان کا نام جھنڈے اور دل کی ایموجیز کے ساتھ شیئر کیا۔
سٹیو وٹکوف: مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی انتخابی مہم کے ڈونر اور رئیل سٹیٹ ٹائیکون سٹیو وٹکوف کو مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا گیا ہے۔
اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’سٹیو وٹکوف امن کے لیے ایک ان تھک آواز ہوں گے اور ہم سب کے لیے فخر کا باعث بنیں گے۔‘
منگل کو اپنے بیان میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وٹکوف ایک ایسے رہنما ہیں جنھوں نے ’ہر منصوبے اور کمیونٹی کو مضبوط اور زیادہ خوشحال بنایا۔‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی نامزد ہونے والے 67 سالہ وٹکوف صدر ٹرمپ کے قریبی دوست ہیں اور طویل عرصے سے ان کے گولف پارٹنر ہیں۔
درحقیقت، وٹکوف ستمبر میں ٹرمپ پر دوسرے قاتلانہ حملے کے دوران ان کے ساتھ گولف کھیل رہے تھے۔
سٹیو وٹکوف نے مین ہٹن فراڈ کیس میں ٹرمپ کے دفاع میں گواہی دی تھی۔ انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ دونوں کی ملاقات سنہ 1986 میں کاروباری لین دین کے بعد ہوئی تھی۔
سٹیو وٹکوف کے مطابق اس وقت انھوں نے ٹرمپ کو سینڈوچ خرید کر دیا تھا کیونکہ اس وقت ٹرمپ کے پاس کوئی کیش رقم نہیں تھی۔
جان ریٹکلیف: سی آئی اے ڈائریکٹر
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سابق ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس جان ریٹکلیف کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ڈائریکٹر نامزد کیا گیا ہے۔
انھیں پہلی بار سنہ 2019 میں سابق سپیشل کونسلر رابرٹ مولر سے کانگریس میں ہائی پروفائل سوالات کرنے کے چند دن بعد نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
ملر ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر تھے جنھوں نے روس اور ٹرمپ کی 2016 کی انتخابی مہم کے درمیان ملی بھگت کے الزامات کی تحقیقات کی قیادت کی تھی۔
ٹرمپ نے جان ریٹکلیف کی اہلیت کے بارے میں خدشات پر دونوں جماعتوں کے اعتراضات کے چند دن بعد ان کی نامزدگی واپس لے لی تھی۔
سنہ 2020 میں ٹرمپ نے جان ریٹکلیف کو دوبارہ نامزد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پریس نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔‘
پیٹ ہیگستھ: سیکرٹری دفاع
ٹرمپ نے پیٹ ہیگستھ کو سیکرٹری دفاع کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔
ٹرمپ نے پیٹ ہیگستھ کے بارے میں لکھا کہ ’وہ سخت، ذہین اور سب سے پہلے امریکہ کو حقیقی معنوں میں مانتے ہیں۔ پیٹ کی وجہ سے ہماری فوج دوبارہ بہترین بنے گی اور امریکہ کبھی گرے گا نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’فوجیوں کے لیے کوئی بھی نہیں لڑتا اور پیٹ ’طاقت کے ذریعے امن‘ کی ہماری پالیسی کے دلیر اور محب وطن چیمپیئن ہوں گے۔‘
پیٹ ہیگستھ ماضی میں امریکی فوج کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فاکس نیوز کے میزبان بھی رہ چکے ہیں۔
وہ فوجیوں کی وکالت کرنے والے دو گروپس کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ انھوں نے مینیسوٹا میں سینیٹ کی نشست کے لیے الیکشن میں بھی حصہ لیا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
مائیک والٹز: مشیر برائے قومی سلامتی
فلوریڈا کے رکن کانگریس مائیک والٹز کو ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں قومی سلامتی کے نئے مشیر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
50 برس کے والٹز ماضی میں امریکی فوج کا حصہ رہے اور کئی بار افغانستان، مشرق وسطی اور افریقہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
وہ طویل عرصے سے ٹرمپ کے حامی ہیں۔ ایکس پر اپنے پیغام میں انھوں نے لکھا کہ وہ ٹرمپ کی کابینہ میں خدمات سرانجام دینے پر ’بہت اعزاز‘ محسوس کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہماری قوم کی اقدار، آزادی اور ہر امریکی کی حفاظت کا دفاع کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔‘
مسلح افواج کی سب کمیٹی کے سربراہ مائیک والٹز چین کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بحرالکاہل میں تنازعات کے لیے امریکہ کو مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو یوکرین کے لیے اپنی حمایت برقرار رکھنی چاہیے لیکن حالیہ عرصے میں اس جنگ کے لیے امداد پر وہ امریکی اخراجات کے دوبارہ جائزے کی وکالت بھی کرتے ہیں۔
ایلون مسک اور وویک رامسوامی
ٹرمپ کے بڑے حامی اور فنانسر ایلون مسک اور سابق رپبلکن صدارتی امیدوار وویک رامسوامی کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی کارکردگی کے نئے محکمے کی قیادت کرنے کا کام سونپا ہے۔
ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ دو شاندار امریکی مل کر میری انتظامیہ کے لیے سرکاری بیوروکریسی کو ختم کرنے، اضافی ضابطوں میں کمی، فضول اخراجات میں کمی اور وفاقی ایجنسیوں کی تنظیم نو کرنے کے لیے راہ ہموار کریں گے، جو ’امریکہ بچاؤ‘ تحریک کے لیے ضروری ہے۔‘
ٹرمپ انتظامیہ میں ملنے والی اس ذمہ داری پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے لکھا کہ ’یہ نظام میں شامل افراد کو ہلا کر رکھ کے دے گا اور ایسے بہت سے لوگ ہیں۔‘
دوسری جانب وویک رامسوامی نے بھی لکھا کہ وہ ’کوئی رعایت نہیں برتیں گے۔‘
واضح رہے کہ ٹرمپ کے سب سے اہم حامی سمجھے جانے والے اور دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ایلون مسک نے ان کی انتخابی مہم کو 11 کروڑ 90 لاکھ کا فنڈ دیا۔
مسک نے امریکہ کے صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے والی ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کی اور اس دوران انھوں نے ہر روز 10 لاکھ ڈالر بھی تقسیم کیے۔
کرسٹی نوم: محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سربراہ
اسی طرح ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ وہ جنوبی ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوم کو محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی سربراہی کے لیے مقرر کریں گے۔
نوم کا نام موسم گرما میں ایک ممکنہ نائب صدر کے امیدوار کے طور پر سامنے آیا تھا۔ وہ طویل عرصے سے ٹرمپ کی اتحادی رہی ہیں اور انھوں نے منتخب صدر کے لیے بھرپور مہم بھی چلائی۔
رواں برس وہ میڈیا کی شہ سرخیوں میں بھی رہی تھیں، جب انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے اپنے کتے کو گولی سے مارا کیونکہ یہ ’غیر تربیت یافتہ‘ اور ’خطرناک‘ تھا۔