آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 چوٹیوں کو سر کرنا کتنا مشکل اور مہنگا کام ہے؟

اس مضمون میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی کوہ پیما کے لیے 8000 میٹر سے اونچی ان 14 چوٹیوں کو سر کرنا ایک ایسا خواب کیوں ہے جس کے لیے وہ اپنی جان کی پرواہ تک نہیں کرتے، یہ 14 چوٹیاں کہاں واقع ہیں، ان میں سے کسے سر کرنا مشکل ترین اور کونسی آسان ہے،ان چوٹیوں کو سر کرنے میں اندازاً کتنا خرچہ آتا ہے، کون سے ممالک اس خواب کی تکمیل کو کوہ پیماؤں کے لیے آسان بناتے ہیں اور کون سے ممالک ان کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

دنیا میں صرف 14 چوٹیاں ایسی ہی جن کی بلندی 8000 میٹر سے زیادہ ہے مگر انھیں سر کرنے کا جنون 100 سال سے بھی پرانا ہے۔

آٹھ ہزار میٹر سے بلندی پر ڈیتھ زون میں ناصرف اس کھیل بلکہ انسانیت کے اصول بھی کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہاں آپ کا مقابلہ قدرت سے ہے جہاں موت ہڈیوں کو جما دینے والی سردی، جلد چیر دینے والی یخ ہواؤں اور برفانی تودوں کی صورت میں کوہ پیماؤں کی منتظر رہتی ہے۔

اس بلندی پر اگر کوہ پیما مشکل میں پھنس جائے اور اس کے اردگرد باہمت ساتھی نہ ہوں تو عموماً اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

کوہ پیمائی کی دنیا میں رین ہولڈ میسنر سے بڑھ کر کوئی قابلِ احترام نہیں۔۔ انھیں ان 14 چوٹیوں کو سر کرنے میں 16 سال لگ گئے۔

رین ہولڈ کا ماننا ہے کہ آٹھ ہزار سے بلند ایک چوٹی سر کرنا ہے اپنے آپ میں بہت بڑا کارنامہ ہے اور 14 چوٹیاں سر کرنے کے لیے ایک زندگی کافی نہیں۔

البتہ دنیا میں 50 سے زائد کوہ پیما ایسے ہیں جنھوں نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور ان میں دو پاکستانی نوجوان شہروز کاشف اور سرباز خان بھی شامل ہیں۔

37 سالہ سرباز خان تین اکتوبر 2024 کو اس وقت یہ کارنامہ سرانجام دینے والے پہلے پاکستانی بنے جب انھوں نے چین میں واقع 8027 میٹر بلند دنیا کی 14ویں بلند ترین چوٹی ’شیشا پنگما‘ کو سر کیا۔ چھ دن بعد اس فہرست میں ’براڈ بوائے‘ کے نام سے مشہور 22 سالہ شہروز کاشف کا نام شامل ہوا جو یہ اعزاز حاصل کرنے والے سب سے کم عمر پاکستانی بھی ہیں۔

اسی دن نیپال کے 18 سالہ کوہ پیما نیما رنجی شیرپا نے دنیا کی بلند ترین 14 چوٹیوں کو سر کرنے والی کم عمر ترین کوہ پیما ہونے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز نیپال ہی کے منگما گیابو ڈیوڈ شیرپا کے پاس تھا جنھوں نے 30 سال اور 166 دن کی عمر میں تمام 14 چوٹیوں کو سر کیا تھا۔

یہاں یہ یاد رہے کہ نیما 14 چوٹیاں سر کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر ترین کوہ پیما ہیں تاہم وہ سب سے کم دورانیے میں ان چوٹیوں کو سر کرنے کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔ یہ ریکاڈر نیپال کے نرمل پرجا کے پاس ہے جنھوں نے چھ ماہ اور چھ دنوں (اپریل سے اکتوبر 2019) میں تمام 14 چوٹیوں کو سر کیا تھا۔

اس مضمون میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی کوہ پیما کے لیے 8000 میٹر سے اونچی ان 14 چوٹیوں کو سر کرنا ایک ایسا خواب کیوں ہے جس کے لیے وہ اپنی جان کی پرواہ تک نہیں کرتے۔

یہ 14 چوٹیاں کہاں واقع ہیں، ان میں سے کسے سر کرنا مشکل ترین اور کونسی آسان ہے،ان چوٹیوں کو سر کرنے میں اندازاً کتنا خرچہ آتا ہے، کون سے ممالک اس خواب کی تکمیل کو کوہ پیماؤں کے لیے آسان بناتے ہیں اور کون سے ممالک ان کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔

دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں کون سی ہیں اور کہاں واقع ہیں؟

دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں بالترتیب ایورسٹ (8849 میٹر)، کے ٹو (8611 میٹر)، کنچن جنگا (8586 میٹر)، لوتسے (8516 میٹر)، مکالو (8485 میٹر)، چو آویو (8188 میٹر)، دولاگیری ون (8167 میٹر)، مناسلو (8163 میٹر)، نانگا پربت (8165 میٹر)، انا پرنا ون (8091 میٹر)، گاشر بروم ون (8080 میٹر)، براڈ پیک (8051 میٹر)، گاشر بروم ٹو (8034 میٹر) اور شیشا پنگما (8027 میٹر) ہیں۔

اب جانتے ہیں کہ کونسی چوٹی کہاں واقع ہے:

چین: شیشا پنگما

پاکستان اور چین: کےٹو، براڈ پیک، گاشر بروم ون اور گاشر بروم ٹو

نیپال اور چین: ایورسٹ، لوسٹے، مکالو اور چوآئیو

نیپال: دولاگیری، مناسلو اور اناپورنا

نیپال اور انڈیا: کنچن جنگا

پاکستان: نانگا پربت

اب یہ کوہ پیماؤں پر میسر ہے کہ وہ کس چوٹی کو کس ملک کے راستے سر کرنا چاہتے ہیں۔

ان 14 چوٹیوں کو سر کرنا ہر کوہ پیما کا خواب کیوں ہے؟

ایک نیپالی کوہ پیما کے کارناموں پر بنائی فلم ’14 پیکس‘ میں رین ہولڈ کہتے ہیں آج کل اگر کسی سے پوچھو کہ آپ 14 چوٹیوں کو کیوں سر کرنا چاہتے ہیں تو وہ جواب دیں گے ’کیونکہ اس میں مزا آتا ہے‘ اس میں کوئی مزا نہیں ہے، کوہ پیمائی دردناک کام ہے اور 8000 میٹر کی بلندی پر آپ کو درد سے لڑنا سیکھنا ہوتا ہے۔

نیپال کے گیل جی شرپا نے آٹھ ہزار سے بلند 14 چوٹیاں سر کر رکھی ہیں اور ان نیپالی کوہ پیماؤں کے گروپ میں شامل تھے جنھوں نے موسمِ سرما میں پہلی مرتبہ کے ٹو کو سر کیا تھا۔ گیل جی آج کل کوہ پیماؤں کو گائیڈ کرنے اور لانگ لائن ریسکیو کا کام کرتے ہیں۔

نیپال سے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ ایڈونچر کے شوقین ہوتے ہیں جبکہ کچھ کوہ پیماؤں کو ریکارڈ بنانے کا شوق ہوتا ہے۔‘

آٹھ ہزار سے بلند 11 چوٹیاں سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ دنیا میں بہت کم لوگ ہیں جنھوں نے آٹھ ہزار سے بلند 14 چوٹیاں سر کر رکھی ہیں اور اگرچہ ان میں سے ایک چوٹی کو سر کرنا ہی بہت بڑا کارنامہ ہے مگر کوہ پیمائی میں ان 14 چوٹیوں کو سر کرنا اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے جیسا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔

سنہ 2022 میں نیپال کے سانو شرپا نے دو مرتبہ ان 14 چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا (اس میں سات مرتبہ ایورسٹ، تین تین مرتبہ انا پورنا، دولاگیری، گاشر بروم ون، لوٹسے، مناسلو اور نانگا پربت شامل ہیں جوکہ دیگر سات کو انھوں نے دو مرتبہ سر کیا ہے یعنی کل 39 مرتبہ وہ آٹھ ہزار سے بلند پہاڑوں کی چوٹی تک جا چکے ہیں۔)

رواں برس ان کی سر کردہ چوٹیوں کی تعداد بڑھ کر 42 تک جا پہنچی ہے۔

نیپال سے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے 48 سالہ سانو بتاتے ہیں کہ ’یہ میرا شوق نہیں تھا بس کوہ پیماؤں کا سامان لے کر جانا پڑتا تھا اس لیے جاتا رہا اور چوٹیاں سر ہوتی گئیں مگر اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔‘

14 چوٹیاں سر کرنے کا خواب کتنا مہنگا ہے؟

آٹھ ہزار سے بلند 14 چوٹیوں کو سر کرنا کا خواب سستا نہیں اور اس میں چوٹی پر جانے کے لیے پرمٹ سے لے کر جس ملک میں وہ پہاڑ ہو اس کا ویزا، جہاز کا ٹکٹ، ہوٹل، ٹرانسپورٹ، کھانے، کوہ پیمائی کے لباس سے لے کر جوتوں اور آکسیجن سلنڈر وغیرہ کے اخراجات شامل ہیں۔

اس پیشے سے 18 سال سے وابستہ سونو شرپا بتاتے ہیں آٹھ سے بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے کسی بھی کوہ پیما کو کم از کم دو سے تین گائیڈ شرپاؤں کی ضرورت پڑتی ہے جو خاصے مہنگے پڑتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہر ملک میں چوٹی پر جانے کے لیے پرمٹ کی اپنی فیس ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اخراجات کے اعتبار سے سب سے مہنگی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ ہے جس میں صرف ایک بندے کی رائلٹی 11 ہزار ڈالر ہے جو حکومت کو ادا کرنا ہوتی ہے، دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

تاہم سانو کا ماننا ہے کہ نیپال میں یہ سب چیزیں پاکستان اور چین کے مقابلے میں نسبتاً سستی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 14 چوٹیوں کو سر کرنے پر کل خرچہ تقریباً دو کروڑ پاکستانی روپے تک بنتا ہے۔

نائلہ کیانی بتاتی ہیں کہ جنھیں ہم سستی چوٹیاں کہتے ہیں ان پر بھی صرف مہم کا خرچہ 15-20 ہزار ڈالر ہے اور باقی سامان سمیت دیگر اخراجات شامل کریں تو سب سے سستی چوٹی بھی کم از کم 20 ہزار ڈالر تک پڑتی ہے۔

نائلہ کیانی اور گیل جی شرپا دونوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بالکل درست رقم تو نہیں بتائی جا سکتی مگر آٹھ ہزار میٹر سے بلند ہر چوٹی کو سر کرنے پر کم از کم صرف مہم پر 40 ہزار ڈالر تک خرچہ آتا ہے۔

گیل جی، سانو شرپا اور نائلہ کے مطابق سب سے مہنگا سفر ایورسٹ کا ہے۔

گیل جی بتاتے ہیں کہ سہولیات کے اعتبار سے کچھ کوہ پیما ہزار سے دو ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں جبکہ کچھ کو لگژری چاہیے ہوتی ہے اور کچھ ون آن ون کلائمبنگ کے چکر میں 55 -60 ہزار ڈالر تک بھی خرچ کرتے ہیں۔

گیل جی کے مطابق پرمٹ کے علاوہ ایورسٹ پر زیادہ خرچہ آنے کی ایک اور وجہ کیمپ ون اور ٹو کے بیچ کومبو آئس فال بھی ہے جو انتہائی خطرناک ہے اور کوہ پیما چونکہ آگے جانے سے ڈرتے ہیں تو زیادہ وقت کیمپ ون میں گزارتے ہیں جس کے باعث مہم کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اور شرپاؤں اور دیگر اخراجات کی مد میں بہت رقم خرچ ہوتی ہے۔

نائلہ کہتی ہیں اس کے علاوہ آپ کو سٹاف، شرپاؤں اور سیگر ہیلپرز کو بونس یا ٹپ وغیرہ بھی دینی پڑتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سپونسرز کے بغیر یہ بہت مشکل ہے۔

کس چوٹی کی مہم سب سے مشکل ہے؟

وبیکی آندریا سیف لینڈ نے آٹھ ہزار سے بلند آٹھ چوٹیاں سر کر رکھی ہیں اور وہ ماؤنٹین انسٹرکٹر بھی ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ کسی چوٹی کی مہم کتنی مشکل ہے اس کا تعلق بلندی سے ہرگز نہیں بلکہ اس کا انحصار موسم، وہاں پڑنے والی برف پڑی اور پہاڑی راستے پر ہے اور اس لحاظ سے ہر چوٹی کی صورتحال ہر سال مختلف ہوتی ہے۔

نائلہ کیانی بتاتی ہیں کہ زیادہ اموات کے اعداد و شمار کے حساب سے کےٹو، انا پورنا اور نانگا پربت باقی 11 کے مقابلے میں مشکل ہیں لیکن ہر کوہ پیما کا ہر چوٹی پر مختلف تجربہ ہوتا ہے کیونکہ شاید جو پہاڑ باقی کوہ پیماؤں کے لیے آسان ترین ہو وہ موسم، زمین اور دیگر عوامل جو ہر سال بدلتے رہتے ہیں، ان کے لحاظ سے آپ کے لیے سب سے مشکل بن جائے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے لیے سب سے مشکل گاشر بروم ون رہی کیونکہ موسم ایک دم خراب ہو گیا اور ہم صرف تین لوگ تھے۔۔ وہ کہتی ہیں کہ زیادہ لوگوں کا ساتھ ہو تو کوہ پیمائی آسان ہو جاتی ہے۔

سانو شرپا کا ماننا ہے سب سے مشکل نیپال میں واقعانا پرنا ون (8091 میٹر) اور چین میں 8027 میٹر کی بلندی پر واقع ’شیشا پنگما (8027 میٹر) ‘ ہے تاہم انھوں نے اسے بھی مشکل والے راستے سے سر کر رکھا ہے۔ وہ پاکستان میں واقع کے ٹو (8611 میٹر) اور نانگا پربت (8165 میٹر) کو بہت ٹیکنیکل اور مشکل چوٹیاں سمجھتے ہیں جنھیں سر کرنا ہر ایک کوہ پیما کے بس کی بات نہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے انگریز لوگوں سے پوچھا کہ سب سے مشکل کون سی چوٹی لگی تو ان میں سے زیادہ تر کوہ پیماؤں کا کہنا تھا کہ کےٹو اور نانگا پربت بہت مشکل اور خطرناک ہیں۔‘

یاد رہے پاکستان میں واقع کےٹو دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ (8849 میٹر) سے بھی زیادہ ٹیکنیکل اور خوفناک سمجھی جاتی ہے۔

گیل جی شرپا کا ماننا ہے کہ نانگا پربت مشکل پہاڑ ہے مگر زیادہ تر کوہ پیماؤں کے نزدیک کے ٹو ’کلر ماؤنٹین‘ ہے۔ گیل جی نے اسے زیادہ مشکل اس لیے بھی کہا کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ریسکیو کے حوالے سے نظام نیپال جتنا بہتر نہیں ہے۔

یاد رہے کے ٹو کی چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کے ٹو پر اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ پر یہی شرح چار فیصد ہے۔

شہروز کاشف کے لیےسب سے مشکل پہاڑ نانگا پربت ثابت ہوا تھا۔ جہاں سمٹ کے بعد خراب موسم اور رسیاں نہ نظر آنے کے باعث انھیں روٹ کی سجھ نہیں آئی اور وہ اپنے گائیڈ فضل علی کے ساتھ اس قاتل پہاڑ پر بھٹک گئے تھے۔ رابطہ منقطع ہونے کے اگلے دو روز کے دوران دونوں کوہ پیماؤں کو بذریعہ ہیلی اور زمینی راستے سے ریسکیو کرنے کی کوششیں کی گئی تاہم خرابی موسم کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام رہی تھیں۔

اپنی مدد آپ کے تحت یہ دونوں نیچے اُترے اور ابتدا میں بیس کیمپ تھری، اس کے بعد ٹو اور پھر بیس کیمپ ون تک پہنچے جس کے بعد پاکستان آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے 4948 میٹر سے انھیں ریسکیو کیا۔

کس چوٹی کو سر کرنا باقی 13 کے مقابلے میں آسان ہے؟

سانو شرپا کے نزدیک سب سے آسان تبت میں واقع چو آویو (8188 میٹر) ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف مجھے ہی نہیں سب کو چوآویو اور مناسلو (8163 میٹر) ایک جیسی لگتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں اس کے بعد مکالو (8485 میٹر) اور کنچن جنگا (8586 میٹر) ہیں جو زیادہ ٹیکنیکل نہیں اور ایسی چوٹیاں ہیں جنھیں سر کرنا آسان ہے کیونکہ ان کا اتنا سٹیپ پارٹ نہیں اور زیادہ تودوں کا خطرہ بھی نہیں رہتا۔

گیل جی شرپا کے نزدیک چوآویو اور مناسلو کو سر کرنا باقیوں کی نسبت آسان ہے۔

وہ کہتے ہیں رسک تو بہت ہوتے ہیں اور تودے وغیرہ بھی گرتے رہتے ہیں مگر مناسلو کم ٹیکنیکل پہاڑ ہے۔

نائلہ بتاتی ہیں کہ ان کے لیے سب سے آسان نانگا پربت رہی کیونکہ ’اس دن موسم اچھا تھا اور میں ذہنی اور جسمانی طور پر فل آف انرجی تھی‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ اگر موسم ٹھیک رہے تو چوآئیو اور گاشر بروم ٹو سب سے آسان ہیں۔

Getty Images
Getty Images

نیپال، چین اور پاکستان میں سے کونسا ملک زیادہ روڑے اٹکاتا ہے؟

سانو شرپا، گیل جی اور نائلہ کیانی کا کہنا ہے کہ پرمٹ سے لے کر ویزوں، ایکپیڈیشن کمپنی، شرپا، ریکسیو، ہیلی کاپٹر او رکلائمنگ گئیر۔۔ہر حوالے سے نیپال میں بہت آسانی ہے۔ تقریباً سبھی ممالک کے کوہ پیماؤں کے لیے ویزا آن آرائیول کی سہولت میسر ہے جبکہ پرمٹ بھی بہت جلدی مل جاتا ہے۔

ہم نے جتنے افراد سے بات کی سبھی نے ہمیں بتایا کہ پاکستان کے لیے کوہ پیماؤں کو 40 دن صرف ویزا کا انتظار کرنا پڑتا ہے پھر پرمٹ حاصل کرنے اور سکیورٹی کلئرینس میں بھی وقت لگتا ہے۔

سانو کہتے ہیں کہ چین سب سے مشکل ہے کیونکہ ’ان کا جب دل چاہتا ہے ماؤنٹین کو بند کر دیتے ہیں۔‘

بی بی سی نے جتنے کوہ پیماؤں اور شرپا سے بات کی، تقریباً سبھی کا ماننا ہے کہ پرمٹ اور ویزا کے حوالے سے چین بہت مشکلات کھڑی کرتا ہے۔

یاد رہے گذشتہ برس اپریل میں دنیا بھر سے بے شمار کوہ پیما چوآویو اور شیشا پنگما سر کرنے کے لیے ویزوں، ٹکٹس اور دیگر اخراجات کر کے کھٹمنڈو پہنچے تھے اور کئی دنوں سے ہوٹلوں میں انتظار کر رہے تھے جب چین نے کوہ پیماؤں کو پرمٹ دینے سے انکار کرتے ہوئے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اچانک دونوں چوٹیوں کو بند کر دیا۔۔۔ یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری۔

اور یوں کئی کوہ پیماؤں کا 14 چوٹیاں سر کرنے کا خواب ٹوٹ گیا جن میں پاکستان کے سرباز خان اور کاشف شہروز بھی شامل تھے۔

شہروز کاشف کے والد سلمان کاشف نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اگر چین نے شیشا پنگما کو بند نہ کیا ہوتا تو گذشتہ برس شہروز 14 چوٹیاں سر کرنے والا دنیا کا سب سے کم عمر کوہ پیما ہو سکتا تھا۔

برازیل کے موسیس فیامونسینی نے ایک پوسٹ میں لکھا تھا ’17 دن کے انتظار کے بعد ہمیں بتایا گیا ہے کہ تبت کے خطے میں کوہ پیمائی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اب ہمیں کچھ اور سوچنا پڑے گا۔‘

اس سے قبل چین نے کووڈ کے دوران بھی ماؤنٹینز تک رسائی روک دی تھی۔

گیل جی شرپا بتاتے ہیں کہ ’چین بہت مشکلات کھڑی کرتا ہے۔۔ آج بارڈر کھلا ہے تو ہو سکتا ہے کل وہ اچانک بند کر دیں۔‘

سانو شرپا کہتے ہیں وہ بس فیس بک پوسٹ لگاتے ہیں اور بارڈر تک پہنچنے والے کوہ پیماؤں کو ادھر سے ہی لوٹا دیتے ہیں ’چین کا بہت الگ ہی سسٹم ہے۔‘

نائلہ کہتی ہیں چائینیز موڈ پر چلتے ہیں، انھیں ملک میں ٹورازم اور ویزا اور پرمٹ سے آنے والی انکم کی کوئی پروا نہیں۔

تاہم نائلہ اور گیل جی نے چین کے بعد سہولیات کے حوالے سے پاکستان کو کوہ پیمائی کے لیے ایک مشکل ملک قرار دیا جہاں غیر ملکیوں کے لیے ویزا، پرمٹ کے مسائل کے علاوہ کوہ پیمائی کا کوئی انفراسٹرکچر نہیں اور چوٹی پر حادثہ ہو جانے کی صورت میں کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے ریسکیو کا بھی نظام نہیں۔ نائلہ کہتی ہیں کہ ہیلی ریسکیو صرف فوج کی ہیلی کاپٹروں میں ہوتا ہے جو بہت مہنگا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.