آئی سی سی کے چیف پراسیکوٹر پاکستانی نژاد کریم اسد احمد خان کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور حماس رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے کے کیس کی پیروی کے بعد سے وہ عالمی توجہ کا مرکز ہیں
انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی) نے اپنے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے خلاف جنسی ہراسانی کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔
مئی میں کریم خان نے عالمی فوجداری عدالت کو یہ درخواست دی تھی کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور حماس رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔
جنسی ہراسانی کی تحقیقات پر کریم خان نے کہا کہ وہ اس عمل میں تعاون کریں گے مگر اپنے عہدے میں موجود رہیں گے۔
چیف پراسیکیوٹر نے عالمی فوجداری عدالت کے ایک نگران ادارے کو تحقیقات کی درخواست کی تھی تاہم پیر کو آئی سی سی کی گورننگ باڈی نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات باہر سے کروائی جائے گی۔
ذرائع ابلاغ میں ایسی دستاویزات گردش کر رہی ہیں جن میں کریم خان پر الزام ہے کہ انھوں نے خاتون کو جنسی طور پر چھوا اور انھیں ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ کریم خان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ایک بیان میں کریم خان نے کہا کہ ماضی میں وہ اس معاملے پر تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
ان کے مطابق اِن الزامات پر تحقیقات سے جڑے معاملات نائب پراسیکیوٹرز دیکھیں گے جو انھیں جوابدہ نہیں ہیں ’تاکہ تمام لوگوں کے حقوق کا مکمل احترام کیا جائے۔‘
کریم خان پر کیا الزام ہے؟
اخبار گارڈین کے مطابق ایک خاتون وکیل کا دعویٰ ہے کہ کریم خان نے انھیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے یہ معاملہ آئی سی سی کے نگران ادارے انڈیپنڈنٹ اوورسائٹ مکینزم (آئی او ایم) کے سامنے اٹھایا تھا۔
اخبار کے مطابق کریم خان نے مبینہ طور پر متاثرہ خاتون پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اپنا دعویٰ واپس لیں۔ کریم خان کو مبینہ طور پر مذکورہ خاتون سے ذاتی طور پر کسی رابطے سے پرہیز کا کہا گیا تھا۔
گارڈین کے مطابق کریم خان نے اس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ انھوں نے خاتون پر الزام واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔
آئی او ایم نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اس نے متاثرہ خاتون سے رابطہ کیا ہے تاہم اس مرحلے پر وہ کوئی تحقیقات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
پیر کو ایک بیان میں آئی او ایم نے کہا کہ ادارہ تحقیقات کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم موجودہ حالات میں اس معاملے کی تحقیقات اب باہر سے کرائی جائے گی تاکہ اسے آزاد، غیر جانبدار اور شفاف بنایا جا سکے۔
یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے کہ جب آئی سی سی اور اس کے چیف پراسیکیوٹر غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر غور کر رہے تھے۔
مئی میں کریم خان نے کہا تھا کہ اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کے بعد سے جاری غزہ جنگ کے تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو، ان کے سابقہ وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور حماس کی قیادت پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
حماس کی قیادت میں شامل یحییٰ سنوار، محمد ضیف اور اسماعیل ہنیہ اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
اپنے ماضی کے ایک بیان میں کریم خان نے اپنے خلاف جنسی ہراسانی کے الزام پر اسرائیل کا نام لے کر اسے قصوروار نہیں ٹھہرایا مگر یہ ضرور کہا کہ ’یہ ایسا لمحہ ہے جب مجھے اور عالمی فوجداری عدالت کو وسیع پیمانے پر حملوں اور دھمکیوں کا سامنا ہے۔‘
جنسی ہراسانی کے الزام غزہ جنگ سے پہلے کے بتائے گئے ہیں۔
آئی سی سی کے ایک پینل میں شامل تین ججز کریم خان کی درخواست پر اِن وارنٹ گرفتاری پر غور کر رہے ہیں۔
ایڈنبرا سے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ تک کا سفر: کریم خان کون ہیں؟
کریم اسد احمد خان 30 مارچ 1970 کو سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ڈاکٹر سعید احمد پاکستانی تھے۔
وہ 1960 کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئے۔ اسد خان کی والدہ برطانوی شہری ہیں۔
1992 کے دوران کریم خان نے لندن کے کنگز کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت کا آغاز کیا۔ وہ لندن کی ایک قانونی فرم ٹیمپل گارڈن چیمبرز کے ممبر ہیں۔
عالمی فوجداری قانون اور انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر انھیں 30 سال سے زیادہ کا پیشہ ورانہ تجربہ حاصل ہے۔
وہ ملکی اور بین الاقوامی فوجداری ٹربیونلز میں بطور پراسیکیوٹر، متاثرہ فریق کے وکیل اور وکیل صفائی کی حیثیت سے کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
وہ اب تک بین الاقوامی فوجداری عدالت، بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل برائے روانڈا، بین الاقوامی ٹریبونل برائے سابق یوگوسلاویہ، خصوصی عدالت برائے لبنان اور خصوصی عدالت برائے سیرا لیون میں بطور وکیل پیش ہو چکے ہیں۔
کریم خان 1997 اور 2000 کے درمیان سابقہ ملک یوگوسلاویہ کے لیے قائم بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل اور روانڈا کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل کے استغاثہ میں قانونی مشیر رہے ہیں۔
انھوں نے عالمی فوجداری عدالت میں بطور لیڈ کونسل فرائض سر انجام دیتے ہوئے 2016 سے 2018 کے دوران لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کے وکیل دفاع کے طور پر ان کی نمائندگی بھی کی ہے۔
اس کے علاوہ 2017 سے 2018 کے دوران کریم اسد خان آئی سی سی کے بار کونسل کے صدر بھی رہے۔ وہ افریقی بار اسوسی ایشن کے عالمی سفیر بھی ہیں۔
2018 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے انھیں عراق میں نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے پہلے خصوصی مشیر اور سربراہ کے طور پر تعینات کیا تھا۔
12 فروری 2021 کو نیویارک میں ہونے والے روم سٹیٹیوٹ کی ممبر ریاستوں کی اسمبلی کے نویں اجلاس کے دوران کریم اسد خان کو آئی سی سی کا پراسیکیوٹر منتخب کیا گیا تھا، جس کا حلف انھوں نے 16 جون 2021 کو اٹھایا۔
وہ نو سال تک بطور آئی سی سی پراسیکیوٹر اپنے فرائض سر انجام دیں گے۔ جولائی 2002 میں قائم ہونے والی عالمی فوجداری عدالت کی تاریخ کے وہ تیسرے پراسیکیوٹر ہیں۔
آئی سی سی کے پراسیکیوٹر نے غزہ جنگ کے دوران پانچ افراد کے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کیوں دی؟
حالیہ تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں کہ آئی سی سی نے کسی عالمی رہنما کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست دی ہے۔
قریب ایک سال قبل آئی سی سی کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور روس میں بچوں کے حقوق کی کمشنر ماریہ لیووا بیلووا کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے میں بھی کریم خان نے بطور پراسیکیوٹر اپنا کردار ادا کیا تھا۔
اس فیصلے کے کچھ ہی دنوں کے بعد روس نے کریم خان اور آئی سی سی کے تین ججوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ بعد ازاں روس نے آئی سی سی حکام کا نام ’مطلوب مجرموں‘ کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔
مگر اب غزہ جنگ کے معاملے پر کریم خان اور ان کی ٹیم نے حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے متاثرین سے انٹرویوز کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حماس نے متاثرین کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنا کر بنیادی انسانی اقدار پر حملہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ شواہد کی بنا پر انھیں یقین ہے کہ حماس کے تین رہنماؤں پر اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں کم از کم سات اکتوبر سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرم میں ملوث ہیں۔
اسی طرح آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کا کہنا ہے کہ نتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع یوو گالانٹ نے غزہ میں مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم سرزد کیے ہیں اور اس بات پر یقین کرنے کی معقول وجوہات ہیں۔
کریم خان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس دفاع کا حق ہے لیکن یہ جرائم اس کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری نہ کرے۔
انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے میں ناکامی نتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع کے گرفتاری وارنٹ کا جواز ہیں جن کے جرائم میں جنگی ہتھیار کے طور پر عام شہریوں کو بھوکا رکھنا، قتل اور عام شہریوں پر جان بوجھ کر حملے شامل ہیں۔
’ہم دھمکیوں سے رُکنے والے نہیں‘
سی این این کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران کریم خان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اپنی درخواست میں نسل کشی کی اصطلاح کیوں نہیں استعمال کی، جس کا دونوں فریقین دعویٰ کرتے ہیں۔
انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ ایک جاری تحقیقات ہے۔۔۔ تحقیقات کے موجودہ مرحلے میں ججز کے سامنے رکھے گئے چارجز میں نسل کشی شامل نہیں۔ لیکن ہماری تحقیقات جاری ہیں، یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسرائیلی حکام نے ہمیں غزہ تک رسائی نہیں دی ہے۔ حماس کے حملے پر بھی ہماری تحقیقات جاری ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ حتمی فیصلہ ججز کو کرنا ہے کہ آیا وارنٹ گرفتاری جاری کرنے ہیں یا نہیں۔
کریم خان نے کہا ہے کہ یہ درخواست وارنٹ گرفتاری کے لیے درکار شواہد سے بھی زیادہ مواد کی بنا پر دائر کی گئی ہے۔
ان کے مطابق ’(ماضی میں) وارنٹ گرفتاری کے لیے معقول وجوہات کی شرط تھی، اس کا تعین ججز کرتے ہیں۔ جب میں پراسکیوٹر بنا تو میں نے آفس کے لیڈرز، ٹیموں کے سربراہان سے گزارش کی کہ آیا سزا عائد ہونے کا حقیقی امکان ہے۔ اس طرح کے کیسز میں یہ (معقول وجہ) کافی نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق ان کی ٹیم نے حماس کے تین رہنماؤں، نتن یاہو اور گالانٹ کو سزا ملنے کا حقیقی امکان ظاہر کیا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل آئی سی سی کے قوانین کو نہیں مانتے۔ سی این این کی اینکر نے کریم خان سے پوچھا کہ امریکی سینیٹرز اور کانگریس کے ارکان نے، اکثر ریپبلکنز، نے آپ کو خط لکھا ۔۔۔ (جس میں لکھا ہے کہ) اسرائیل کو نشانہ بنایا تو ہم آپ کو نشانہ بنائیں گے۔۔۔ کیا یہ دھمکی ہے؟‘
اس کے جواب میں کریم خان نے کہا کہ ’ایک بار ایک سینیئر رہنما نے مجھے کہا تھا کہ یہ عدالت افریقہ اور پوتن جیسے چوروں کے لیے بنی ہے۔‘
’مگر ہم ایسے کام نہیں کرتے۔۔۔ یہ عدالت طاقت اور بے پناہ قوت کے خلاف قانون کی فتح کی عکاسی کرتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم دھمکیوں یا دیگر سرگرمیوں سے رکنے والے نہیں ہیں۔‘
کریم خان کہتے ہیں کہ قانون کے سامنے سب کو برابر ہونا چاہیے اور قومیت کی وجہ سے کسی کو اسثنیٰ حاصل نہیں ہونی چاہیے۔