پارٹی رہنماؤں کے آف دی ریکارڈ وچار ہوں یا پھر دستیاب نقطے جوڑ کر بنائی سیاسی تصویر، غالب گمان تھا کہ جیل بیٹھے عمران خان صوابی کے بعد کوئٹہ کراچی اور پھر لاہور میں نسبتاً سرد موسم میں سیاسی ماحول گرما کر راجدھانی اسلام آباد کے من پسند مقام ڈی چوک پر فائنل دھرنے کی کال دیں گے۔
اس بیچ باہر بیٹھی قیادت ٹرمپ سرکار کی جیت پر اب یہ فیلڈنگ لگائے بیٹھی ہے کہ ٹرمپ کی دہکتی ٹوئٹر ٹائم لائن پر 20 جنوری یعنی ان کے حلف سے پہلے پہلے کچھ شبد پاکستان کی سیاست بالخصوص کپتان کے نام ہو جائیں تو کیا ہی کہنے۔
لیکن وہ کیا ہے کہ،
ہوا سے کیا گلہ کیجیے کہ ہم نے
دیا دیوار پر رکھا ہوا تھا
اب یہاں ہوا بھی اس قدر ادھ چلی ہے کہ مکمل آندھیوں کی شکل اختیار کر چکنے کے بعد یہ قدرے ماند پڑ چکی، جھکڑ سہنے والے دیے اب ہلکی پھلکی ہوا کے سامنے دیوار پر رکھے جانے سے کچھ زیادہ خوفزدہ نہیں رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کپتان نے مومینٹم بنانے کے بجائے اچانک 24 نومبر کو فائنل کال دے دی۔ شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں۔
اب آنکھ لگے یا نہ لگے، اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا
لیکن شاعر کے برعکس یہاں یہ معاملہ قدرے پیچیدہ اور سنجیدہ معلوم ہوتا ہے۔ دستیاب قیادت اس کال کے بعد پریشان دکھائی دیتی ہے کہ حضرت! بندے کیسے نکالیں گے؟ اور وہ بھی اسلام آباد کے لیے؟ جہاں اس سے پہلے جب علی امین لشکر کے ہمراہ پہنچے تھے تو لگ بھگ تیس گھنٹے غائب رہے۔ (جناب گنڈا پور کسی من پسند مقام پر تعبیر کے لیے مراقبے میں تھے یا کسی کشٹ کو کاٹنے کے لیے چلے میں، اس کتھا کو تاحال نہیں سلجھایا جا سکا)
دو روز پہلے اگر سیاسی قیادت کو گرفتار کرنے کے بجائے خان سے اڈیالہ میں ملنے دیا جاتا تو غالب امکان تھا کہ وہ کپتان سے اسی کال سے پہلے کے بندوبست کی تیاریوں پر بات کرتے۔ لیکن آناً فاناً سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، شبلی فراز، ملک احمد بھچر اور صاحبزادہ حامد رضا کو آدھ پونا گھنٹہ گرفتار کر کے جیل بیٹھے کپتان کو خاص پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔
پیغام جو بھی تھا لیکن اس کا رد عمل اسلام آباد کی کال کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ لیکن یہ واقعہ بھی اس کال کی اصل وجہ نہیں۔ خان کی سیاست ہو یا کرکٹ، بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اکثر انتہائی غیر متوقع چال چلنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ایسی ہی غیر متوقع چالیں تواتر کے ساتھ کامیابی سے بھی ہمکنار ہوتی دکھائی دی ہیں۔ اس غیر متوقع فائنل کال کے محرکات البتہ تاحال چیس بورڈ پر دکھائی نہیں دے رہے۔
کپتان کے ساتھ جیل میں ملنے والوں میں سے ایک نسبتاً نئے چہرے سے بات ہوئی تو جانا کہ کل ملاقات کے دوران ایک اہم ملاقاتی نے کان میں کوئی پیغام دیا جسے انہوں نے یکسر جھٹک دیا اور اس کے بعد میڈیا کو بلاتے ہوئے فوراً اسلام آباد کی کال کا اعلان کر دیا۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ علی امین کے مراقبے یا چِلے نے کسی حد تک اعتماد سازی کی ابتدائی منازل طے کی تھیں اور اسی کے کارن بشری بیگم اور ہمیشرائیں ضمانت پر باہر آئیں۔ لیکن یہ فضا زیادہ دیر اعتماد کی خوشبو سے معطر نہ رہ سکی۔
فریقین اب ایک دوسرے کے وجود اور طاقت کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر بیچ کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ طاقت ور فریق کو بیچ کی راہ کے لیے مقبول ترین کی خاموشی اور سرکار کے سلسلے کو چالو رہنے دینے کی گارنٹی درکار ہے مگر مقبول ترین فریق کو طاقت ور کی طاقت کا ادراک ہونے کے باوجود اپنی مقبولیت کا زعم ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے مٹانا اب مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ؛
صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے
اس بیچ عالمی دباؤ سے امیدیں شاید کارگر نہ ہو سکیں کیونکہ مقبول ترین کو روایتی ڈیل کے طور پر بیرون ملک جانا کسی طور بھی قابل قبول نہ ہوگا۔ طاقت ور فریق ایسی کسی بھی صورت سے پہلے آئینی و عدالتی بندوبست مکمل کر چکا۔ تو پھر اس فائنل کال سے بلآخر کیا برآمد ہوگا؟
یہ ہے وہ اہم ترین سوال جس کی تلاش شاید آپ سبھی کو بھی ہو۔ عرض ہے کہ اس کال کے لیے بنائی کمیٹی کو پہلی بار مذاکرات کا اختیار بھی دیا گیا ہے جو خاکسار کی دانست میں انتہائی اہم پیشرفت ہے۔ اسکا یقینی مطلب ہے کہ ربط ٹوٹ چکا تھا، احتجاج کے ذریعے اگر ربط باہم کسی طور استوار ہوتا ہے تو فائنل کال دینے میں بھلا کیا مضائقہ۔
امریکی نئی سرکار کے لیے بھی یہ کال سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل ٹیگ ہوتی رہے گی جہاں سے فی الحال فوراً ایک دہکتا ٹویٹ درکار ہے۔ لیکن مدعا یہ بھی اتنا سادہ نہیں، ایک اور اہم رہنما جو قانون دان بھی ہیں کبھی کبھار اڈیالہ یاترہ کے دوران کپتان سے راز و نیاز کر لیتے ہیں، کہنے لگے کہ انہوں نے اس کال سے چند روز پہلے پوچھا کہ آپ کو کیا لگتا ہے آپ کب تک باہر ہوں گے؟ جواب ملا: نومبر میں! اس قدر تیقن مگر کیسے؟ خاکسار نے پوچھا۔ وہ رہنما قدرے سنجیدہ ہوتے ہوئے بولے؛
even I don’t know how
اس جواب کے بعد ہم بس اتنا ہی کہہ سکے؛
دوڑتا ہے سڑکوں پر اس طرح سے سناٹا
جیسے اضطراب دل کا ہی اک تسلسل ہو