منی پور میں پُرتشدد واقعات کے بعد موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند، کرفیو نافذ

image

انڈین ریاست منی پور میں نسل پرستانہ فسادات سے متاثرہ علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند کر دی ہے جبکہ غیرمعینہ معدت کے لیے کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کے روز سکیورٹی فورسز کو دریا سے تین افراد کی لاشیں ملی تھیں جن کا تعلق ممکنہ طور میٹی کمیونٹی سے تھا۔ 

میٹی کمیونٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق اُس فیملی سے ہے جن کے اہل خانہ کو کُکی کمیونٹی کے افراد پکڑ کر لے گئے تھے۔

پیر کو پرتشدد واقعات میں کُکی کمیونٹی کے دس مسلح افراد سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سے فیملی کے چھ افراد لاپتہ ہیں۔

منی پور میں سرکاری گرانٹس اور تعلیم اور نوکریں میں کوٹے کے معاملے پر گزشتہ سال مئی میں نسل پرستانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں کم از کم 250 افراد ہلاک ہوئے اور 60 ہزار کو ریاست سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔

پولیس اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ریاستی دارالحکومت امفال میں سنیچر کو بڑی تعداد میں مظاہرین اکھٹے ہوئے اور اراکین اسمبلی سے ملنے کا مطالبہ کیا۔

اہلکار نے مزید بتایا ’جب ان کے مطالبات کو نظرانداز کیا گیا تو انہوں نے گھروں پر دھاوا بولا، گاڑیوں کو آگ لگا دی اور املاک کو توڑا پھوڑا۔‘

سکیورٹی حکام اور سیاستدانوں کے مطابق ہجوم نے کم از کم نو ارکان اسمبلی کے گھروں کا گھیراؤ کیا جبکہ چار گھروں میں توڑ پھوڑ کی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی سوشندرو میٹی نے کسی اور مقام سے فون کے ذریعے روئٹرز کو بتایا کہ ہجوم نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا ہے اور اس وقت حملے کی زد میں ہے۔

انہوں نے مزید کہا ’میرے گھر کو کچھ نقصان پہنچا ہے۔ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں لیکن گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی سکیورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کر دیا تھا۔‘

گزشتہ ہفتے کُکی کمیونٹی کے حمر گروہ سے تعلق رکھنے والی 31 سالہ خاتون کو ضلع جریبم میں زندہ جلا دیا گیا تھا جس کا الزام میٹی عسکریت پسندوں پر عائد کیا گیا ہے۔

حکومت نے ریاست کے لیے اضافی سکیورٹی فورس بھیجی ہے اور دونوں کمیونیٹیوں کے پرتشدد افراد کے خلاف کارروائی کا کہا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.