پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کے تاجروں نے ’ایئر کراچی‘ کے نام سے نئی ایئر لائن کے قیام کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے باقاعدہ رابطہ کر لیا ہے۔کراچی کے تاجروں نے گزشتہ برس نومبر میں ایئر کراچی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے ایک سینیئر افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایئر کراچی کی جانب سے سی اے اے سے تحریری طور پر رابطہ کر کے لائسنس کے لیے درخواست دے دی گئی ہے۔‘انہوں نے بتایا کہ ’سول ایوی ایشن اتھارٹی درخواست کا جائزہ لے رہی ہے، تمام ضروری اقدامات پورے ہونے کے بعد اجازت نامہ جاری کیا جائے گا۔‘اس سے قبل کارگو ایئرلائن کے ٹو ایئرویز نے بھی پاکستان میں اپنے آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے۔فیڈریشن اف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے سابق سینیئر نائب صدر حنیف گوہر کے مطابق کراچی کے تاجروں نے پاکستان میں اپنی نئی ایئرلائن کراچی ایئرلائن کے نام سے لانے کا فیصلہ کیا ہے، اس ایئرلائن کی رجسٹریشن سمیت دیگر معاملات کو جلد سے جلد حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’نئی ایئرلائن کے نام ’ایئر کراچی‘ کو ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کروا دیا گیا ہے۔ اب ایئرلائن کے لائسنس کے لیے دستاویزات پر کام جاری ہے جو جلد ہی مکمل ہو جائے گا اور پاکستان کی فضاؤں میں ایئر کراچی کے طیارے پرواز کرتے نظر آئیں گے۔‘پاکستان میں ہوا بازی کے شعبے پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی طارق ابو الحسن پاکستان میں نئی ایئرلائنز کی آمد کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔
کراچی کے تاجروں نے گزشتہ برس نومبر میں ایئر کراچی کے قیام کا اعلان کیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
طارق ابوالحسن کا کہنا ہے کہ ’ایئر کراچی کی آمد سے ملک میں جہاں فضائی سفر کی سہولیات بڑھیں گی، وہیں مارکیٹ میں مقابلے کی فضاء بھی بنے گی، جس کا براہ راست فائدہ مسافروں کو ہو گا۔‘
’پاکستان کی فضائی سفر کی مارکیٹ میں کام کی بہت گنجائش موجود ہے۔ کئی مقامی اور بین الاقوامی ایئرلائنز پاکستان سے اچھا بزنس حاصل کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر ایک نئی ایئرلائن آتی ہے تو وہ مسافروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اچھی ڈیلز آفر کرے گی۔‘’ان ڈیلز سے جہاں ایئرلائن کو فائدہ ہو گا وہیں مسافر بھی ان سے مستفید ہوں گے۔‘نئی ایئرلائن کے کتنے طیارے ہونا ضروری ہیں؟پاکستان میں ایئرلائن آپریشنز کے لیے کم از کم تین طیارے مسافر آپریشنز اور ایک طیارہ کارگو آپریشنز کے لیے درکار ہوں گے۔ طیارے کو حکومت یا سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طے کردہ شرائط کے تحت ڈرائی لیز یا ملکیت کی بنیاد پر شامل کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں ایئر فلیٹ کی رجسٹریشن ایئرآپریٹنگ سرٹیفکیٹ (اے او سی) کے اجرا کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان میں نئی ایئرلائن کے اجراء سے قبل سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مقرر کردہ طریقے پر عمل لازم ہے (فائل فوٹو: سی اے اے)
’مسافروں کا پرسان حال کوئی نہیں‘
کراچی کے رہائشی محمد عمیر آٹو پارٹس کا کاروبار کرتے ہیں، انہیں اپنے کام کے سلسلے میں اکثر ملک کے دیگر شہروں میں جانا آنا ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں نئی ایئرلائن بالکل آنی چاہیے لیکن انتظامیہ کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ ایئرلائنز کام کیسے کر رہی ہیں؟‘محمد عمیر کے مطابق ’پاکستان میں کام کرنے والی بیش تر ایئرلائنز سے مسافروں کو شکایت ہے کہ فضائی کمپنیاں اندرون ملک پروازوں پر بین الاقوامی پروازوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایئرلائن اپنا منافع دیکھتے ہوئے اکثر ڈومسیٹک فلائٹس منسوخ کرکے انٹرنیشنل روٹ پر جہاز بھیج دیتی ہیں۔ اس وجہ سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
تاجر موہن لال کا کہنا ہے کہ کسی پرواز کے لیٹ ہونے تک کی معلومات مسافر کو نہیں دی جاتیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے مزید کہا کہ ’مہنگے ٹکٹ خریدنے کے باوجود مسافر کبھی فلائٹ کی تاخیر تو کبھی پرواز کے کینسل ہونے جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔‘
سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے تاجر موہن لال بھی پاکستان میں کام کرنے والی فضائی کمپنیوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کام کرنے والی کئی ایئرلائنز مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔موہن لال نے ایک ماہ میں اپنی تین فلائیٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’حیرت کی بات تو یہ ہے کسی پرواز کے لیٹ ہونے تک کی معلومات مسافر کو نہیں دی جاتیں، لوگ اپنے گھروں سے فلائٹ ٹائم پر ہونے کا سوچ کر مقررہ وقت پر ایئرپورٹ پہنچ جاتے ہیں اور ایئرپورٹ پہنچنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فلائٹ تین گھنٹے چار گھنٹے لیٹ ہے۔ ہوائی اڈے پر آیا مسافر اب واپس تو جا نہیں سکتا تو مجبورا ایئر پورٹ پرہی وقت گزارنا پڑتا ہے۔‘’مسافروں میں خواتین، بچے اور بزرگ سبھی شامل ہوتے ہیں وہ ایئرپورٹ پر مشکل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فضائی سفر کرنے والے تمام افراد مال دار نہیں ہوتے، کچھ مجبوری میں جانے والے مسافر بھی ہوتے ہیں جن کے لیے ہوائی اڈوں سے اپنے یا اپنے اہل خانہ کے لیے کھانے پینے کی اشیا خریدنا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ ایئرپورٹ پر موجود کاؤنٹرز پر اشیاء مارکیٹ کے مقابلے میں مہنگی ہوتی ہیں۔ اب گھنٹوں ایئرپورٹ پر انتظار کرنے والوں کو مجبوراً مہنگے داموں کھانے پینے کی اشیا بھی خریدنا پڑ جاتی ہیں۔‘موہن لال نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں نئی فضائی کمپنیوں کو کام کی اجازت ضرور دی جائے لیکن جو کمپنیاں کام کر رہی ہیں، ان پر بھی نگاہ رکھی جائے اور مسافروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔‘