انڈین وزارت خارجہ نے اب دہلی ہائی کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ شہزادی کو 15 فروری کو موت کی سزا دے دی گئی تھی اور ان کی نماز جنازہ پانچ مارچ کو ابوظہبی میں ادا کی جائے گی۔
شہزادی خان کو متحدہ عرب امارات میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔’مجھے 13 فروری کو رات 11 بجے میری بیٹی کا فون آیا۔ پہلے وہ روتی رہی اور پھر مجھے بتایا کہ اسے الگ قیدخانے میں ڈال دیا گیا ہے اور آج رات یا کل صبح تک سزائے موت ہو جائے گی۔ اس نے کہا کہ اب وہ زندہ نہیں رہ سکے گی۔ یہ اس کی آخری کال ہو سکتی ہے۔‘
یہ بتاتے ہوئے شہزادی کے والد شبیر احمد رونے لگے۔ وہ مسلسل کہہ رہے تھے کہ ان کی بیٹی بےقصور تھی۔
انڈین وزارت خارجہ نے اب دہلی ہائی کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ شہزادی کو 15 فروری کو موت کی سزا دے دی گئی تھی اور ان کی نماز جنازہ پانچ مارچ کو ابوظہبی میں ادا کی جائے گی۔
عدالت میں شہزادی کی نمائندگی کرنے والے وکیل معاذ ملک نے یہ بھی کہا کہ انڈین وزارت خارجہ نے عدالت سے تصدیق کی ہے کہ انھیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
ریاست اترپردیش کے علاقے باندہ کے گویرا موگلی گاؤں کی رہنے والی شہزادی روزگار اور بہتر علاج کی تلاش میں متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی گئی تھیں۔ ان کا گاؤں گوئرا موگلی باندہ شہر سے تقریباً دس کلومیٹر دور ہے جہاں ان کے والد شبیر اور والدہ ناظرہ رہائش پذیر ہیں۔
33 سالہ شہزادی دسمبر2021 میں ابوظہبی گئیں۔ وہ اگست 2022 سے وہاں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر رہی تھیں اور اس دوران ان پر چار ماہ کے اس بچے کو قتل کرنے کا الزام لگا جس کی دیکھ بھال کی وہ ذمہ دار تھیں۔
انھیں 10 فروری 2023 کو ابوظہبی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا اور عدالت نے 31 جولائی 2023 کو انھیں موت کی سزا سنائی تھی۔
شہزادی دسمبر 2021 میں ابوظہبی گئی تھیںعدالتی فیصلے کے برعکس شہزادی کے لواحقین کے مطابق چار ماہ کے بچے کی موت غلط ویکسینیشن کے باعث ہوئی۔ ان کا موقف ہے کہ اسی لیے اس معاملے میں پہلے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا، لیکن تقریباً دو ماہ بعد بچے کے اہل خانہ نے اس معاملے میں مقدمہ درج کرایا، جس کی وجہ سے ان کی بیٹی پھنس گئی۔
شہزادی کے والد شبیر کے مطابق ان کی بیٹی جس بچے کی آیا تھا وہ سات دسمبر 2022 کو ہلاک ہوا جبکہ مقدمہ دس فروری 2023 کو درج کیا گیا۔
جب شہزادی جیل میں تھیں تو بی بی سی نے اس معاملے کے حوالے سے متوفی بچے کے والد فیض احمد سے رابطہ کیا تھا۔
مقتول کے والد نے جواب میں لکھا کہ ’شہزادی نے میرے بیٹے کو بےدردی سے اور جان بوجھ کر قتل کیا اور یہ بات متحدہ عرب امارات کے حکام کی تحقیقات میں ثابت ہو چکی ہے، والدین کی حیثیت سے میری میڈیا سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے درد کو محسوس کریں۔‘
تاہم شہزادی کے والد نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی کو پھنسایا گیا۔
شبیر کا کہنا ہے کہ وہ بچے کے گھر والوں سے ملنے آگرہ بھی گئے تھے لیکن وہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ شبیر کے مطابق ’میں وزارت خارجہ کے حکام سے ملنے دہلی بھی گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔‘
شہزادی کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ روزگار اور بہتر علاج کی تلاش میں ابوظہبی گئی تھیںشہزادی کے دورہ ابوظہبی کی کہانی سوشل میڈیا پر ایک دوستی سے شروع ہوتی ہے۔
ان کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ملنسار لڑکی تھیں۔ انھیں لوگوں سے ملنے کا شوق تھا۔ شہزادی کی والدہ نے بتایا کہ ان کا چہرہ بچپن میں جل گیا تھا اوروہ اپنے چہرے پر موجود اس کے نشانات ہمیشہ کے لیے مٹانا چاہتی تھی۔
علاج ڈھونڈنے کی جدوجہد میں، ایک دن وہ فیس بک کے ذریعے آگرہ سے تعلق رکھنے والے عزیر سے رابطے میں آئیں۔ شہزادی کی والدہ کے مطابق، ’عزیر نے شہزادی کو بتایا تھا کہ وہ اسے ابوظہبی میں نوکری دے گا اور اس کا علاج بھی کرائے گا۔‘
شہزادی کے والد شبیر نے بتایا کہ شہزادی کا آگرہ میں سوشل میڈیا کے ذریعے جس شخص سے رابطہ ہوا اس نے اسے ابوظہبی اپنے رشتہ دار کے گھر کام کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ شبیر کے مطابق 2021 میں آگرہ کے عزیر نے شہزادی کو سیاحتی ویزے پر ابوظہبی بھیجا، جہاں اس نے عزیر کے رشتہ دار کے گھر کام کرنا شروع کر دیا، جس کی بنیادی ذمہ داری ان کے چار ماہ کے بچے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔
شہزادی کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی ابوظہبی سے باقاعدگی سے ویڈیو کال کرتی تھی۔ ’کبھی کبھی، وہ اس بچے کو بھی دکھاتی جس کی وہ دیکھ بھال کر رہی تھی۔ پھر ایک دن اچانک اس کی کالیں آنا بند ہو گئیں۔‘
کچھ عرصہ بعد شبیر کو اپنے رشتہ داروں سے معلوم ہوا کہ شہزادی ابوظہبی جیل میں قید ہے۔
شہزادی کا گھربانڈہ کے گاؤں گویرا موگلی کے لوگ شہزادی کو سماجی طور پر سرگرم شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
گاؤں کے رہائشی محمد نعیم نے بتایا کہ اس نے کبھی کوئی کام کرنے سے انکار نہیں کیا۔ وہ لوگوں کے راشن کارڈ اور ان کے چھوٹے چھوٹے سرکاری کام بھی کرواتی تھی۔
مقامی صحافی رانو انور رضا کا کہنا تھا کہ وہ گاؤں والوں کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی، اسی لیے وہ میڈیا سے لوگوں کو جانتی تھی، وہ ایک عام سی لڑکی تھی لیکن ابوظہبی میں جو ہوا وہ ناقابل یقین ہے۔