کیا آپ فاطمہ رشید کو جانتے ہیں جو ڈاکٹر کی بیٹی تھیں اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں لیکن وہ بعد میں انڈیا کی چوٹی کی اداکارہ بنیں۔وہ ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ان کے والد موہیال برہمن نے اسلام قبول کر لیا اور عبدالرشید بن گئے۔اس طرح ان کی والدہ کی بھی کہانی ہے جن کو انڈین سینما کی خشت اول میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی والدہ جدّن بائی ایک پنجابی مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں جو پہلے بنارس کا ہندو گھرانہ ہوتا تھا اور اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
جدن بائی سے آپ کو یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہم اداکارہ نرگس کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے چھ برس کی چھوٹی عمر میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر سینما کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔
نرگس نے پہلی بار سنہ 1942 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تقدیر‘ میں مرکزی کردار ادا کیا لیکن سنہ 1960 کی دہائی میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں سینما کا حصہ بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ڈاکٹر عبدالرشید کے ہاں پیدا ہونے والی نرگس ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں کیونکہ انہیں یہ احساس تھا کہ سینما کو پیشے کے طور پر حقیر سمجھا جاتا ہے اور آج بھی بہت سے گھرانے اس کو حقیر تصور کرتے ہیں۔انہوں نےایک ریڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی کیونکہ ان دنوں لوگ فلموں کے بارے میں زیادہ اچھا خیال نہ رکھتے تھے۔ یہ سوچا جاتا تھا کہ اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کو فلموں میں نہیں آنا چاہیے۔ فلموں میں کام کرنے والی خواتین کی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں تھی۔‘اس بات کا اظہار شرمیلا ٹیگور سمیت بہت سی دوسری اداکاراؤں نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح سکول میں ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا تھا۔فلم میگزن ’فلم فیئر‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار کہا کہ ’میں اس وقت تک روتی رہی جب تک میں رو سکتی تھی۔ جب آنسو سوکھ گئے تو میں نے سوچنا شروع کیا۔ میں نے سوچا، میری والدہ فلموں میں کام کرتی ہیں، لیکن وہ بُری نہیں ہیں، وہ دنیا کی شاندار خاتون ہیں۔‘نرگس اور اداکار راج کپور کی محبت کی داستان اکثر بیان کی جاتی ہے لیکن نرگس نے اداکار سنیل دت سے محبت کی شادی کی۔ آج ہم ان کا ذکر اس لیے کر رہیں کہ آج ہی کے دن یعنی تین مئی 1981 کو انڈیا میں بہترین اداکاری کا پہلا ایوارڈ جیتنے والی ادکارہ نے آخری سانسیں لی تھیں۔ دنیا سے رخصت ہونے کے وقت ان کی عمر صرف 51 برس تھی۔
نرگس ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن ان کے والد موہیال برہمن نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ (فائل فوٹو: دی اکنامک ٹائمز)
ان کی پہلی کامیاب فلم دلیپ کمار اور راج کپور کے ساتھ محبوب خان کی ’انداز‘ تھی۔ یہ فلم سنہ 1949 میں ریلیز ہوئی اور اس کا شمار اپنے زمانے کی کامیاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔
اس فلم میں نرگس کی اداکاری کے متعلق خود دلیپ کمار نے کہا کہ نرگس نے سکرین پر جس صلاحیت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اگرچہ وہ ان سے بڑی سٹار تھیں لیکن جب انہوں نے ایک ساتھ کام کرنا شروع تو نرگس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔انہوں نے یہ باتیں نرگس کی زندگی پر بنائی دستاویزی فلم کے لیے کہیں۔ دلیپ کمار نے کہا کہ ’جس طرح کی صلاحیت ان کے پاس تھی وہ کسی اور فنکار نے نہیں دکھائی۔ وہ ایک خوش مزاج انسان تھیں، ان کے ساتھ کام کرنا آسان تھا۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئی دباؤ نہیں تھا، آپ کو ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ آپ کسی سٹار کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘نرگس نے راج کپور کے ساتھ کوئی ایک درجن سے زیادہ فلمیں کی ہیں لیکن ان کی بہترین فلم محبوب خان کی ’مدر انڈیا‘ کو مانا جاتا ہے جس میں انہوں سنیل دت اور راجیندر کمار کے ساتھ اداکاری کی ہے۔ دونوں اداکاروں نے فلم میں نرگس کے بیٹوں کا کردار ادا کیا۔کہا جاتا ہے کہ سنیل دت کے دل میں نرگس شروع سے ہی بسی تھیں۔ ان دونوں کی ملاقات بلراج ساہنی کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کے سیٹ پر ہوئی تھی لیکن سنیل دت اپنے قد سے بڑی اداکارہ سے اپنے جذبات کا اظہار نہ کر سکے اور نرگس اس وقت بظاہر راج کپور کے ساتھ جذباتی رشتے میں تھیں۔
نرگس کی بہترین فلم محبوب خان کی ’مدر انڈیا‘ کو مانا جاتا ہے۔ (فوٹو: یوٹیوب)
جب ان کا بریک اپ ہوا تو نرگس بری طرح ٹوٹ گئی تھیں اور اسی زمانے میں ’مدر انڈیا‘ کی شوٹنگ شروع ہو گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سین کی شوٹنگ کے دوران سیٹ پر آگ لگ گئی اور نرگس اس آگ میں گھر گئیں کہ اسی وقت کسی فلم کے سین کی طرح سنیل دت بغیر کسی چیز کی پروا کیے آگ میں کود پڑے اور نرگس کو بچانے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن اس ہیروگری میں سنیل دت کے چہرے اور سینے پر آگ کے اثرات رہے۔ اس دوران دو ہفتے تک نرگس سنیل دت کی تیمارداری کرتی رہیں۔ یہ وہ دور تھا جب ان میں قربتیں بڑھیں۔ایک بار سنیل دت سے نرگس اور راج کپور کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا تو سنیل دت نے کہا تھا کہ ’میں نہیں جانتا تھا کہ ان کے درمیان کوئی رومانس تھا، میں صرف اتنا جانتا تھا کہ وہ میری زندگی میں آئیں، میں اس کے ماضی کے بارے میں نہیں سوچتا، لیکن میں اس شخص کی فکر کرتا ہوں جو میری زندگی میں آیا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ شخص اس دن سے میرے لیے کتنا مخلص ہے۔‘جب نرگس کو 1980 میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو سنیل نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کا بہترین علاج ہو اور وہ انہیں امریکہ لے گئے۔ لیکن ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی اور وہ ڈیپ کوما میں چلی گئیں۔سنیل دت نے سنہ 1997 میں اداکارہ سمی گریوال کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ یہ وہ مشینوں کی بدولت زندہ ہیں اور اگر وہ کوما سے واپس آ جائیں تو بھی وہ کسی ’سبزی‘ سے زیادہ نہیں ہوں گی۔ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ان کا ’خاتمہ‘ ہے اور مشین سپورٹ ہٹا کر انہیں جانے دیا جائے۔
جب نرگس کو 1980 میں کینسر کی تشخیص ہوئی تو سنیل نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کا بہترین علاج ہو اور وہ انہیں امریکہ لے گئے۔ (فائل فوٹو: ٹائمز آف انڈیا)
سنیل دت کا کہنا تھا کہ وہ ڈاکٹر کی بات کا جواب نہیں دے سکے اور جب اپنے بچوں سے اس بابت بات کی تو سب رونے لگے اور انہوں نے مشین ہٹانے سے منع کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگوں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ڈیپ کوما میں چلا جاتا ہے تو اگر اس کے پاس بیٹھ کر بات کی جائے تو وہ باتیں سنتا ہے، اس لیے وہ نرگس کے پاس بیٹھ کر گھنٹوں ان سے بات کرتے اور آخر کار وہ ایک دن کوما سے واپس آ گئیں۔نرگس نے سیمی گریوال کے ساتھ بات چیت میں اس کے بارے میں بات کی تھی۔ سیمی کے مطابق ’مجھے اب بھی یاد ہے نرگس جی نے یہ کہا تھا کہ میں نے آنکھیں کھولیں اور میں نے اپنے شوہر کو دعا کرتے دیکھا۔‘انہوں نے کہا کہ ’سیمی، میں بہت خوش قسمت ہوں، کیا میں خوش قسمت نہیں ہوں؟‘سنیل دت نے کہا کہ نرگس نے ان سے کہا تھا کہ ’میں اس ملک میں نہیں مرنا چاہتی۔ اگر مجھے مرنا ہے تو میں ہندوستان میں مرنا چاہوں گی۔‘اور پھر یوں ہوا کہ وہ امریکہ سے واپس آئیں لیکن پھر ان کی بیماری لوٹ آئی اور اپنے بیٹے سنجے دت کی پہلی فلم ’راکی‘ کی ریلیز سے قبل تین مئی کو انہوں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔اس کے ایک برس بعد سنیل دت نے ان کے نام پر ایک کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل وہ انڈین پارلیمان کی ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے لیے نامزدہ ہوئی تھیں۔نرگس کو فلموں کے علاوہ ان کے فلاحی کاموں کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔