"حادثے سے ایک دن پہلے زارا نے فون پر کہا، 'ماما میں آ کر آپ کو سرپرائز دوں گی'۔ لیکن وہ سرپرائز ہماری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ بن گیا۔ جس دن حادثہ ہوا، میں جمعے کی نماز میں مصروف تھی، اچانک کسی نے فون کر کے کہا ٹی وی آن کریں، جب ٹی وی کھولا تو میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ بیٹے کو کال کی تو وہ حادثے کی جگہ پر موجود تھا، اس نے کہا زارا کی لاش کی شناخت ہو چکی ہے۔ میرے دل نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ میری بیٹی اب کبھی واپس نہیں آئے گی۔ ہم نے اُسے عید کے دن دفنایا۔"
"اس کی آخری وائس نوٹ میرے پاس آج بھی محفوظ ہے، اس میں اس نے مجھے سالگرہ کی مبارکباد دی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ اب بھی کہیں قریب ہے۔ باپ کے انتقال کے بعد بہت چھوٹی عمر میں اس نے گھر کی ذمہ داریاں اٹھا لیں۔ وہ صرف میری بیٹی نہیں، میرا بیٹا بھی تھی۔ ایک بہادر لڑکی، جو ہر درد کے سامنے چٹان بن کر کھڑی رہی۔"
22 مئی 2020 کا دن ایک ماں کے لیے قیامت بن کر آیا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی پرواز 8303 جب کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوئی، تو اس میں صرف کئی قیمتی جانیں نہیں گئیں، بلکہ کچھ خاندانوں کی زندگی بھی وہیں رک گئی۔ انہی میں ایک نام تھا زارا عابد کا — ایک ابھرتی ہوئی ماڈل، جو کیمرے کے فلیشز میں جگمگاتی تھی لیکن اپنی ماں کے دل کا چراغ تھی۔
زارا کی ماں، تعظیم جمال، آج بھی وہ آخری کال بھلا نہیں پاتیں۔ جب بیٹی نے خوشی سے کہا کہ وہ سرپرائز دینے آ رہی ہے، تو کیا معلوم تھا کہ وہ آخری جملہ ان کے دل میں ہمیشہ کے لیے گونجتا رہے گا۔ انٹرویو کے دوران جب انہوں نے آنسوؤں کے ساتھ بیٹی کی آخری آواز سنائی، تو لمحہ بھر کو وقت تھم گیا۔
زارا، جس نے کم عمری میں باپ کی وفات کے بعد گھر کو سنبھالا، ماڈلنگ کی چمکتی دنیا میں اپنا نام بنایا، لیکن ماں کی نظر میں وہ کبھی صرف سلیبریٹی نہیں تھی وہ ان کا بیٹا، سہارا، اور ہمت کا پیکر تھی۔ آج بھی وہ اس کی آواز میں جیتا ہے، اُس وائس نوٹ میں جس میں وہ کہتی ہے: "ہیپی برتھ ڈے ماما"۔