گرمی کے موسم کا دورانیہ ہر گزرتے سال کے ساتھ میدانی علاقوں میں تو بڑھتا جا رہا ہے اب جیسے کراچی اور سندھ کے اندرونی علاقوں کا حال دیکھ لیجیئے۔ خصوصاً کراچی میں گرمی صرف نومبر کے آخری ایام تک رہتی ہے اور سردی کا اصل مہینہ دمسبر اور جنوری ہے جبکہ فروری میں ہلکی ٹھنڈک ہوتی ہے یعنی پورا سال ہی کراچی میں شدید گرمی رہنے لگی ہے ایسے میں یہاں ہر کوئی اے سی کا بل اور اخراجات نہیں اٹھا سکتا لہٰذا کراچی والے گرمی کو بھگانے کا متبادل ڈھونڈھتے ہیں کیونکہ کے الیکٹرک بجلی کے بل کو ہر ماہ فی یونٹ اضآفہ کرکے بھیجتی ہے۔

اس لئے اے سی کو چھوڑ کر ایئرکولر اور سٹینڈ فین سے کم بجلی کی بچت کرکے گرمی بھگائی جاسکتی ہے۔ ایئر کولر اکثر لوگوں کے گھروں میں پایا جاتا ہے جس میں وہ ٹھنڈا پانی ڈال ڈال کر یا پھر کچھ لوگ سادہ پانی ڈال کر بھی گرمی میں ایئرکولر کا استعمال رکھتے ہیں اور پھر کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو سٹینڈ فین کے سامنے یوں برف کے کیوبز رکھ پنکھا چلا دیتے ہیں جس سے ٹھنڈی ہوا سارے میں پھیلتی ہے درآصل یہ طریقہ کم وقت میں زیادہ ٹھنڈی ہوا حاصل کرنے کے لئے بہت عام بھی ہے اور فائدے مند بھی ہے اس طرح آپ اپنے ماہانہ بجلی کے بل کے 14 سے 15 فیصد یونٹ بھی کم جلائیں گے اور ظاہر ہے خرچہ بھی کم ہوگا۔

سٹینڈ فین شروع سے ہی ٹھنڈی ہوا دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہے ہیں، اگر ان کو تھوڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کریں تو یقیناً پائیداری کے ساتھ چلتے بھی ہیں اور اضآفہ بجلی کے یونٹ بھی استعمال نہیں کرتے۔ وہیں دوسری طرف ایئرکولر جہاں ہوا دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے وہیں اس میں پانی ڈلاتے وقت یہ خیال بھی رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں پلگ ان تو نہیں کیونکہ کرنٹ لگنے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔ البتہ ایک ایئرکولرنارمل وال فین کے مقابلے محض 2 سے 5 یونٹ اضآفی استعمال کرتا ہے جس سے بجلی کے بل میں بھی زیادتی نہیں ہوتی اور وہ استعمال کے حساب سے مناسب رہتا ہے۔