"اگر میں ٹک ٹاک پر نہ آتی تو گھر کیسے چلتا؟ بھائی کی شادی، والد کی سرجری اور باقی خرچے کہاں سے پورے ہوتے؟ میرے پاس صرف دو راستے تھے… یا تو کسی امیر آدمی سے شادی کر کے اس کے ظلم سہیں، یا پھر خود کماؤں۔ میں نے خود محنت کرنے کا راستہ چنا۔ ہم جو بھی کرتے ہیں، لوگوں کی گالیاں ہمیں ہی پڑتی ہیں۔ میں بھی انسان ہوں، دل دکھتا ہے۔ مگر میں پھر بھی اپنا کام نہیں چھوڑوں گی۔"
ٹک ٹاک پر شہرت پانے والی ویڈیو کری ایٹر وردہ ملک اس وقت جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں جب ایک پوڈکاسٹ میں ان سے ان کی زندگی، جدوجہد اور مسلسل تنقید کے بارے میں سوالات پوچھے گئے۔ گفتگو کے دوران وہ کئی بار رُکیں، آواز بھاری ہوئی اور آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آئی، جیسے برسوں کا بوجھ اچانک سامنے لا کھڑا ہو۔
وردہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر مسکراہٹوں کے پیچھے ایک ایسی کہانی ہے جسے لوگ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کے مطابق گھر کے خرچے، والد کی طبی صورتحال اور بھائی کی شادی جیسے بڑے تقاضے ان پر تھے، جس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ خود روزگار کے لیے باہر نکلیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں شروع سے معلوم تھا کہ یہ راستہ آسان نہیں ہو گا، لیکن بیٹھ کر مدد کا انتظار کرنے کے بجائے انہوں نے خود محنت کرنے کو ترجیح دی۔
انہوں نے شکایت کی کہ جوں ہی کسی ٹک ٹاکر کی کوئی ویڈیو وائرل ہوتی ہے، تنقید کی یلغار شروع ہو جاتی ہے۔ وردہ کے مطابق لوگ ان کی کسی اچھائی کو نہیں دیکھتے، صرف نشانہ بنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک شادی کی تقریب میں ان کے بارے میں ایسے جملے کہے گئے جنہیں وہ آج تک ذہن سے نہیں نکال سکیں۔ وہ لمحہ یاد کرتے ہوئے وہ خود کو بھی روک نہ پائیں اور کہنے لگیں کہ معاشرے کی تیز زبانیں بعض اوقات انسان کو اندر تک کاٹ دیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خاندان کے کچھ افراد بھی ان کے اس شعبے سے خوش نہیں، لیکن گھر کے حالات اور ذمہ داریوں نے انہیں پیچھے مڑنے نہیں دیا۔ وردہ کے مطابق لائیو سیشنز سے وہ چند منٹوں میں لاکھوں روپے کما لیتی ہیں، مگر اسی دوران کچھ فالوورز ایسی حرکتیں یا خواہشات کرتے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہیں۔
پوڈکاسٹ سامنے آتے ہی سوشل میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے وردہ کے مؤقف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ غریب ہونے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا پر اوٹ پٹانگ حرکتیں کر کے یا ڈانس کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کی جائے جبکہ کئی صارفین نے اینکر کو بھی غیر ضروری مداخلت اور سخت سوالات پر آڑے ہاتھوں لیا۔