افغان باشندے کی جانب سے امریکی نیشنل گارڈز کے اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سخت اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور اب امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے تمام ممالک سے لوگوں کی امریکہ نقل مکانی کے سلسلے کو مستقل طور پر روک دیں گے۔

وائٹ ہاؤس کے نزدیک افغان باشندے کی جانب سے نیشنل گارڈز کے اہلکاروں پر فائرنگ کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سخت اقدامات کا سلسلہ جاری ہے اور اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’تیسری دنیا کے تمام ممالک‘ سے لوگوں کی امریکہ نقل مکانی کے سلسلے کو ’مستقل طور پر روک دیں گے۔‘
جمعرات کو ٹروتھ سوشل پرسلسلہ وار پیغامات میں امریکی صدر نے اگرچہ اس پابندی کے نفاذ کے طریقۂ کار اور ٹائم لائن کا کوئی ذکر نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد ’امریکی نظام کی مکمل بحالی‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ضروری ہے کیونکہ بےقابو نقل مکانی نے امریکی معاشرے کو کمزور کیا ہے اور اس کے وسائل پر دباؤ ڈالا ہے۔ جب تک نظام مستحکم نہیں ہوتا، ان ممالک سے آنے والے کسی نئے تارکِ وطن کو داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
صدر ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب نیشنل گارڈز کے اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے نہ صرف افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستوں پر کارروائی روک دی ہے بلکہ 19 ممالک سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کے کیسز کی دوبارہ جانچ کا بھی کہا ہے جن کے پاس گرین کارڈ یا امریکہ میں مستقل رہائش کا اجازت نامہ ہے۔
امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ان تارکین وطن کی شہریت ختم بھی کر دیں گے جو ’داخلی امن و سکون کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ اور کسی بھی ایسے غیرملکی کو ملک بدر کریں گے جو کہ کسی جرم کا مرتکب اور سلامتی کے لیے خطرہ ہو یا مغربی تہذیب کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی امیگریشن پالیسیوں نے ملک کو کمزور کیا ہے اور ملک کو ’امیگریشن کے حملے سے مکمل بحالی‘ کے لیے وقت درکار ہے۔
ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کا سلسلہ روک دینا ہی صرف کافی نہیں بلکہ ’صرف ریورس مائیگریشن ہی اس صورتحال کو مکمل طور پر ٹھیک کر سکتی ہے۔ وہ افراد جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے ہیں یا امریکی معاشرے میں خلل کا باعث ہیں، انھیں ان کے آبائی ملک واپس جانے کی ترغیب دی جائے گی۔‘
امریکی صدر کے مطابق یہ قدم امریکہ میں قانون، نظم و نسق اور استحکام بحال کرنے کا واحد طریقہ ہو سکتا ہے۔

گرین کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ جانچ
جمعرات کو ہی ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ امریکہ میں مقیم 19 ممالک کے گرین کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ جانچ کی جائے گی۔
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے سربراہ جوزف ایڈلو نے کہا کہ صدر نے انھیں ہدایت کی ہے کہ وہ ’امریکہ کے لیے تشویش کا باعث بننے والے ممالک سے آنے والے ہر اجنبی کے لیے گرین کارڈ کی مکمل اور سخت جانچ پڑتال کریں۔‘
جب بی بی سی نے پوچھا کہ کون سے ممالک اس فہرست میں شامل ہیں؟ تو ایجنسی نے جون میں وائٹ ہاؤس کے اعلان کی طرف اشارہ کیا جس میں افغانستان، کیوبا، ہیٹی، ایران، صومالیہ اور وینزویلا شامل ہیں۔
دیگر ممالک جن کے گرین کارڈ ہولڈرز کی دوبارہ جانچ کی جائے گی ان میں میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، برونڈی، یمن، لاؤس، ترکمانستان، گیانا، ایریٹیریا، سیر الیون، ٹوگو اور لیبیا شامل ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا، جب بدھ کو وائٹ ہاوس کے قریب افغان باشندے کی فائرنگ کے نتیجے میں نیشنل گارڈز کی ایک اہلکار ہلاک جبکہ ایک شدید زخمی ہوئے ہیںیہ اعلان واشنگٹن ڈی سی میں ایک افغان شہری کی جانب سے نیشنل گارڈ کے دو فوجیوں پر فائرنگ کے بعد سامنے آیا، اس واقعے میں نیشنل گارڈ کی ایک اہلکار جان کی بازی ہار گئی تھیں جبکہ ایک اہلکار شدید زخمی ہے۔
ملزم رحمان اللہ لکنوال 2021 میں ایک پروگرام کے تحت امریکہ آیا تھا جس میں افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے تناظر میں افغانوں کو خصوصی امیگریشن کی پیشکش کی گئی تھی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ فائرنگ سے قومی سلامتی کو لاحق ایک بڑے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
تاہم گرین کارڈ کے جائزے کے بارے میں جمعرات کو ایڈلو کی سوشل میڈیا پوسٹ میں واضح طور پر اس حملے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
ایڈلو نے کہا کہ ’اس ملک اور امریکی عوام کا تحفظ سب سے اہم ہے اور امریکی عوام سابقہ انتظامیہ کی دوبارہ آبادکاری کی لاپرواہ پالیسیوں کی قیمت برداشت نہیں کریں گے۔‘
یاد رہے کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد امریکہ کے شہریت اور امیگریشن سروسز کے محکمے نے ’سکیورٹی اور جانچ کے پروٹوکولز‘ کے جائزے تک افغان شہریوں کی امیگریشن کی تمام درخواستوں پر کارروائی معطل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
ایکس پر جاری ایک بیان میں محکمے کا کہنا ہے کہ اپنے ملک اور امریکی عوام کی حفاظت اُن کا واحد مشن ہے اور اسی مقصد کے تحت یہ فیصلہ لیا گیا۔
گرین کارڈ کیا ہے؟
امریکہ میں کسی دوسرے ملک سے ہجرت کر کے آنے والے افراد کو یہاں مستقل رہائش کے لیے ایک اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ اس اجازت نامے کو ’گرین کارڈ‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ایک طرح کا امریکہ میں مقیم افراد کا شناختی کارڈ ہوتا ہے اور کیونکہ ابتدا میں اس کا رنگ سبز ہوتا تھا اس لیے اسے گرین کارڈ کہا جاتا ہے۔
کسی بھی گرین کارڈ کے حامل فرد کو بہت سے وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ایک امریکی شہری کو حاصل ہیں۔
گرین کارڈ حاصل کرنے والا شخص تین سے پانچ سال کی مدت کے بعد امریکی شہریت حاصل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔
یقیناً امریکہ جانے والے ہر فرد کو فوری گرین کارڈ نہیں ملتا بلکہ اس کے لیے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
کسی بھی امریکی شہریت کے حامل فرد کے خاندان کے افراد جن میں (شوہر، بیوی، غیر شادی شدہ بچے، امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے بہن بھائی، وغیرہ) ’فیملی بیسڈ گرین کارڈ‘ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
ایک زمانے میں گرین کارڈ حاصل کرنے میں پانچ سے سات سال لگتے تھے لیکن اب یہ وقت کافی بڑھ گیا ہے اور اس کے پیچھے کچھ وجوہات ہیں۔
سنہ 1990 میں متعارف کرائے گئے قواعد کے مطابق روزگار کی بنیاد پر گرین کارڈز کی تعداد سالانہ ایک لاکھ 40 ہزار مقرر کی گئی ہے۔
اب یہ ایک لاکھ 40 ہزار گرین کارڈز خاص قواعد و ضوابط کے تحت تقسیم کیے جاتے ہیں جیسا کہ امریکہ نے گرین کارڈ کے حصول کے لیے سالانہ ہر ملک کا ایک کوٹہ طے کر رکھا ہے۔ اس کے مطابق کسی ملک کو زیادہ سے زیادہ سات فیصد گرین کارڈز ملیں گے۔
اس کوٹے کا مقصد امریکہ آنے والی تارکین وطن کی آبادی میں تنوع کو برقرار رکھنا اور تمام ممالک کو یکساں مواقع فراہم کرنا تھا۔

اقتدار میں آنے کے بعد صدر ٹرمپ کی سخت پالیسیاں
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی امریکہ میں ویزا اور امیگریشن پالیسی میں تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔
رواں برس جون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغانستان اور ایران سمیت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے سات دیگر ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر جزوی طور پر پابندی عائد کی تھی۔
یہ پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی تھی جب امریکی ریاست کولوراڈو میں اسرائیل کے حق میں ایک ریلی پرنامعلوم شخص نے حملہ کیا جس سے چھ افراد زخمی ہوگئے تھے تاہم حملہ آور کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق اس حملے میں ملوث شخص غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوا تھا۔
صدر ٹرمپ نے اس پابندی کے حوالے سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'کولوراڈو میں کیے جانے والا دہشت گرد حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ غیر ملکی شہری جو درست طریقے سے ویریفائی نہیں ہوتے، ہمارے ملک کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔'
یہ نئی سفری پابندی امریکی امیگریشن پالیسی میں ایک اہم تبدیلی سمجھی جا رہی ہیں جس کے ممکنہ طور پر ان ممالک کے شہریوں پر سنگین اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے ’ٹریول بین‘ سے متاثر ہونے والے 12 ممالک کی فہرست میں افغانستان، ایران، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔
دوسری جانب جزوی پابندیوں کی ذد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں: برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی شہریوں اور ان کے مفادات کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے اس پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ملازمت کے لیے امریکہ آنے والے غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے سالانہ ویزا فیس پندرہ سو ڈالر سے بڑھا کر ایک لاکھ ڈالر کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔