بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن بلیم گیم کا حصہ نہیں بننا چاہتا: وہاب ریاض

image
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے برطرف کیے گئے رکن اور سابق سینیئر ٹیم مینیجر وہاب ریاض نے کہا ہے کہ ’میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں لیکن میں بلیم گیم کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔‘

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے تفصیلی بیان میں لکھا کہ ’سلیکشن کمیٹی میں رکن کے طور پر خدمات انجام دینے کا میرا وقت ختم ہو گیا ہے۔ میں لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے خلوص کے ساتھ کام کیا اور پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سلیکشن پینل کا حصہ بن کر کام کرنا میرے لیے اعزاز رہا، سات رکنی کمیٹی کے مل کر قومی ٹیم کے فیصلے کرنا اعزاز تھا۔‘

وہاب ریاض کے بقول ’ہر کسی کا ووٹ یکساں تھا، ہم نے بطور ٹیم فیصلے کیے۔ ہر کسی نے اس عمل میں برابر ذمہ داری لی۔‘ 

انہوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے حوالے کہا کہ گیری کرسٹن کو سپورٹ کرنا بھی اعزاز ہے۔

سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ ’مجھے اعتماد ہے کہ ٹیم آگے بڑھے گی۔ کوچز اور ٹیم کے لیے میری نیک خواہشات ہیں۔‘

وہاب ریاض کا مزید کہنا تھا کہ میں اُن لوگوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے لیے دعائیں کیں۔ میری صرف یہی خواہش ہے کہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو کامیابی ملے۔‘

گزشتہ ماہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے گروپ مرحلے سے ہی باہر ہونے کے بعد پی سی بی میں یہ پہلی تبدیلی سامنے آئی ہے جس میں وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو سلیکٹر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

وہاب ریاض کو اس سے قبل چیف سلیکٹر کے عہدے سے ہٹا کر سات رُکنی سلیکشن کمیٹی کا رکن بنایا گیا تھا۔

اس سات رکنی سلیکشن کمیٹی کا کوئی بھی ہیڈ نہیں تھا۔

دوسری جانب عبدالرزاق پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کے رکن کے طور پر بھی کام کر رہے تھے۔

جون میں نیویارک میں ٹی20 ورلڈ کپ میں انڈیا سے شکست کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے ٹیم میں ’بڑی سرجری‘ کا اشارہ دیا تھا۔

کرک انفو کا مزید دعویٰ ہے کہ سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کر کے ایک مرتبہ پھر چیف سلیکٹر کو تعینات کیا جا سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.