گل بہادر گروپ: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنا

بی بی سی کو دستیاب نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی کالعدم جماعتوں کی فہرست کے مطابق گل بہادر گروپ کا نام 25 جولائی کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔ گل بہادر کون ہیں اور ان کا نام ’گڈ طالبان‘ کیوں پڑا جبکہ وہ باضابطہ طور پر کبھی کالعدم تحریک طالبان میں شامل ہی نہیں ہوئے اور افغان طالبان کے حقانی گروپ سے ان کا کیا تعلق تھا؟
حافظ گل بہادر گروپ
Getty Images
(فائل فوٹو)

پاکستان کی وزارت داخلہ نے بدھ کے دن دو عسکریت پسند گروہوں کا نام کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں سے ایک گل بہادر گروپ بھی ہے۔

وزارت داخلہ کے مطابق مجید بریگیڈ اور گل بہادر گروپ کی دو سال تک نگرانی کرنے کے بعد پاکستان کی کاوئنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے انھیں کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کیا۔

بی بی سی کو دستیاب نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کی کالعدم جماعتوں کی فہرست کے مطابق گل بہادر گروپ کا نام 25 جولائی کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔

اس فیصلے سے دس دن قبل ہی بنوں کینٹ میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری گل بہادر گروپ سے منسلک جیش فرسان محمد گروہ نے قبول کی تھی جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق کار سوار خود کش حملہ آور سمیت دس خود کش بمبار ہلاک ہوئے تھے۔

لیکن گل بہادر کی عسکریت پسندی کی تاریخ اس سے بھی بہت پرانی ہے جس کا آغاز سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو افواج کے حملے سے ہوتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب گل بہادر گروپ کا نام ’گڈ طالبان‘ سے مشہور ہوا کیونکہ شمالی وزیرستان میں فعال اس گروہ کے سربراہ نے پاکستان کی فوج پر حملوں سے اجتناب کیا۔

وہی عسکریت پسند کمانڈر اب موجودہ وقت میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑے چیلنج کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔

برطانیہ کے انفارمیشن فار رزیلینس مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ نے مئی 2023 سے جولائی 2024 تک 10 خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں مجموعی طور پر 22 خودکش حملہ آوروں نے بھی حصہ لیا۔

گل بہادر کون ہیں اور ان کا نام ’گڈ طالبان‘ کیوں پڑا جبکہ وہ باضابطہ طور پر کبھی کالعدم تحریک طالبان میں شامل ہی نہیں ہوئے اور افغان طالبان کے حقانی گروپ سے ان کا کیا تعلق تھا؟ اس تحریر میں ان تمام سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

حافظ گل بہادر
AFP
(فائل فوٹو)

مدرسے کا طالبعلم عسکریت پسند کیسے بنا؟

صحافی رسول داوڑ کے مطابق شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے گل بہادر نے مدرسے میں دور طالبعلمی کے فوراً بعد عسکریت پسندی اختیار کر لی تھی۔

رسول داوڑ کے مطابق گل بہادر ماضی میں دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی اہم مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان دھڑے کے فعال رکن تھے اور اس جماعت کی طلبا کی شمالی وزیرستان شاخ کے سربراہ بھی رہے۔

گل بہادر کی نجی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلات موجود نہیں یہاں تک کہ ان کی کوئی تصویر بھی عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔

مقامی صحافیوں کے مطابق گل بہادر کی دو بیویاں ہیں لیکن ان کے بچوں کی درست تعداد بھی معلوم نہیں۔

گل بہادر کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق انھوں نے عسکریت پسندی کے میدان میں باضابطہ قدم 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد رکھا تھا۔

صحافی رسول داوڑ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گل بہادر نےسنہ 2001 میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف لڑنےکے لیے جانیوالے مقامی قبائلی جنگجووں کو ’شوری مجاہدین‘ کے نام سے اکھٹا کیا۔

2001 کے بعد جب افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغان طالبان کے حامی مقامی عسکریت پسند گروہ یکے بعد دیگرے سامنے آئے تو ان میں شوری مجاہدین ایک اہم گروہ بن گیا جس نے شمالی وزیرستان میں افغان طالبان اور القاعدہ سمیت مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کوپناہ گاہیں فراہم کیں۔

شمالی وزیرستان اور حقانی گروپ

افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف طالبان کی جوابی کارروائیاں شروع ہوئیں تو ایسے میں شمالی وزیرستان ایک اہم مقام بن گیا۔

ڈاکٹر اسفند یار میر کے مطابق گل بہادر کا افغان طالبان کے نائب سربراہ سراج الدین حقانی سے قریبی تعلق تھا جو خود بھی شمالی وزیرستان میں ہی مقیم تھے۔

ڈاکٹر اسنفند یار میر کے مطابق اسی تعلق کی وجہ سے گل بہادر القاعدہ کی مرکزی قیادت کے بھی قریب ہوئے اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانیوالے اکثر اہم القاعدہ رہنما شمالی وزیرستان میں گل بہادر کے زیرکنٹرول علاقوں خصوصاً ان کے گڑھ دتہ خیل میں نشانہ بنے۔

ان کے مطابق القاعدہ کے زیادہ تر رہنما گل بہادر کی میزبانی میں رہتے تھے۔

بعض ماہرین کے مطابق شمالی وزیرستان کی اہمیت کی تین بڑی وجوہات میں علاقے کا نسبتا آسان جغرافیہ، شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان سنہ 2008 کا امن معاہدہ اور سب سے اہم گل بہادر کی شخصیت رہی۔

طالبان
Getty Images
(فائل فوٹو)

پاکستان حکومت سے معاہدے

ایک جانب گل بہادر القاعدہ رہنماوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا تھا اور افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہا تھا تو دوسری جانب اسی گروپ نے پاکستان حکومت سے معاہدہ بھی کیا۔

یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں حکومت پاکستان اور مقامی طالبان کے درمیان ستمبر 2006 میں امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت تمام غیر ملکی شدت پسندوں کو علاقے سے نکالنے جبکہ طالبان اور القاعدہ عناصر کے افغانستان آنے جانے پر پابندی پر اتفاق ہوا تھا۔

حکومت نے اس یقین دہانی کے جواب میں زمینی اور فضائی فوجی آپریشن بند کرنے، قبائلیوں کی مراعات بحال کرنے اور آپریسن کے دوران قبضے میں لیا گیا سامان واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے کی ایک اہم شق ٹارگٹ کلنگ پر پابندی بھی تھی جس کا اس معاہدے میں خصوصی طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے فریقین میں گل بہادر سمیت ملا نذیر گروپ بھی شامل تھا۔

یوں گل بہادر ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہونا شروع ہوا تاہم ان معاہدوں کی وجہ ایک حکمت عملی تھی۔

صحافی فیض اللہ خان کے مطابق گل بہادر پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کا مخالف نہیں تھا بلکہ اس نے ایک حکمت عملی کے تحت افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف کارروائیوں کو فوقیت دیتے ہوئے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف لڑائی سے اجتناب کیا۔

گل بہادر کی احتیاط اور حکومت سے معاہدے کی اہم وجہ شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کو محفوظ رکھنا بھی تھا جو افغانستان میں لڑنے والے افغان طالبان کے لیے اہم تھیں۔

دوسری جانب گل بہادرنے اپنے زیرکنٹرول علاقوں میں رہنے والے القاعدہ اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کی جانب سے پاکستان میں حملوں کی مخالفت نہیں کی لیکن حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے گل بہادر نے عسکریت پسندوں کوشمالی وزیرستان میں حملوں سے سختی سے روکے رکھا۔

اس کی ایک مثال2011 میں شمالی وزیرستان کے مرکز میران شاہ کے قریب تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی گرفتاری کے لیے ایک ٹھکانے پر سکیورٹی فورسز کے چھاپے کے بعد سامنے آئی جس کا ذکر پاکستانی طالبان کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود نے 2017 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’انقلاب محسود‘ جلد اول میں کیا۔

تحریک طالبان سمیت دیگر غیر مقامی عسکریت پسندوں نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف جوابی کارروائی کا منصوبہ بنایا تھا لیکن گل بہادر نے اسے مکمل نہیں ہونے دیا۔

اس کی تصدیق تحریک طالبان کے ایک کمانڈر نے راقم الحروف کو 2023 کے اوائل میں ہونے والے ایک انٹرویو میں بھی کی جن کے مطابق سکیورٹی فورسز پر جوابی حملے کے دوران گل بہادر نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا سختی سے اعلان کیا اور خلاف ورزی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی۔

اس دھمکی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سکیورٹی فورسز کے خلاف طالبان کی جوابی کارروائی روک دی گئی۔ گل بہادر شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر کسی بھی حملہ کو عسکریت پسندوں کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔

تاہم اسی دوران یہ معاہدے ٹوٹے بھی رہے اور کئی بار گل بہادر گروپ نے حکومت پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کارروائیاں بھی کیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی طالبان سے تعلق

پاکستانی طالبان نے اپنے قیام سے ہی گل بہادر گروپ کو ساتھ ملانے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا مگر یہ کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔

مفتی نور ولی محسود کی کتاب کے مطابق پاکستانی طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود نے دسمبر 2007 میں تنظیم کے رسمی قیام سے قبل ہی حافظ گل بہادر کو ساتھ ملانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں 2008 میں پاکستان کے اہم مذہبی رہنما شیر علی شاہاور 2009 میں القاعدہ کے مقامی سربراہ مصطفی ابویزید عرف حافظ سلطان نے بھی گل بہادر کو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ضم ہونے کی کوششیں کیں جو ناکام رہیں۔

سال 2023 میں پاکستانی طالبان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے دیگر عسکریت پسندوں کی طرح گل بہادر کو بھی تحریک طالبان پاکستان میں ضم کروانے کی بھرپور کوششیں کیں جس کے لیے دونوں گروہوں کے درمیان کئی مذاکرات ہوئے۔

گل بہادر نے تحریک طالبان پاکستان کا نائب سربراہ بننے کی پیشکش بھی ٹھکراتے ہوئے شمولیت کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔

گل بہادر نے تمام تر قریبی تعلقات کے باوجود تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہونے سے انکار کر رکھا ہے۔ صحافی ضیا الرحمان کا ماننا ہے کہ اس کی ایک وجہ محسود اور وزیر قبائل کی روایتی رقابت ہے اور اسی وجہ سے گل بہادر تحریک طالبان کا حصہ نہیں بنتے کیونکہ شدت پسند تنظیم کی قیادت ابتدا سے ہی محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی شدت پسند کے ہاتھ میں رہی۔

افغانستان منتقل ہو جانے اور گل بہادر گروپ کی جانب سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کے آغاز کے بعد بھی یہ کوششیں جاری رہی تاہم گل بہادر نے الگ تنظیم قائم رکھنے کو ہی ترجیح دی۔

محسود کے مطابق نومبر 2014 میں پاکستانی طالبان کے محسود دھڑے نے شمالی و جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم کے تحت اکھٹا کرنے کے لیے گل بہادر کو قیادت کی پیشکش بھی کی جو اس نے ایک بار پھر مسترد کر دی۔

طالبان
Getty Images
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے 2014 میں ضرب عضب ملٹری آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیا

شمالی وزیرستان سے بے دخلی

معاہدوں اور گڈ طالبان کی شہرت کے باوجود گل بہادر کے لیے شمالی وزیرستان کا ٹھکانہ محفوظ رکھنا طویل عرصے کے لیے ممکن نہ تھا۔ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد جب زیادہ تر شدت پسند شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تو اس علاقے میں بھی کارروائی کے لیے دباؤ بڑھتا گیا اور پھر آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔

پاکستانی سکیورٹی فورسز نے 2014 میں ضرب عضب ملٹری آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کیا جس کے نتیجے میں گل بہادر سمیت تمام شدت گروہ سرحدپار افغانستان منتقل ہو گئے۔

پاکستان میں عسکریت پسندی پر گہری تحقیق رکھنے والے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس کے سینئیر تجزیہ کار ڈاکٹر اسفند یار میر کے مطابق افغانستان منتقل ہونے کے بعد گل بہادر گروپ کافی کمزور ہوا تھا۔

طالبان کے ساتھ گل بہادر کی واپسی

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد گل بہادر کی افرادی اور عسکری قوت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور پھر انھوں نے پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کا آگاز کیا۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی رسول داوڑ کے مطابق اس وقت گل بہادر کے زیرقیادت دو سے ڈھائی ہزار تک شدت پسند ہیں جو سکیورٹی فورسز کے خلاف شمالی وزیرستان، بنوں، لکی مروت وغیرہ میں حملوں میں ملوث ہیں۔

سال 2023 کے اوائل میں گل بہادر گروپ نے شمالی وزیرستان اور بنوں میں ایک درجن کے قریب ذیلی گروہوں کے نام سے حملوں کی ذمہ داریاں قبول کیں۔

ان میں جیش فرسان محمد، جیش عمری، غازیانو کاروان، سفیان کاروان، اسود الخرسان، شیخ سعدی کاروان، اسود الحرب، جیش انصار المہدی خراسان وغیرہ شامل ہیں۔

یہ مختلف ذیلی گروہ بھی شاید گل بہادر نے ایک حکمت عملی کے تحت ہی قائم کیے ہیں۔

اس گروہ کی کارروائیوں میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے افغان طالبان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاہم رواں برس مارچ میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان کی حدود میں انٹیلیجنس معلومات کی بنیاد پر گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا گیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق یہ دہشتگرد پاکستان کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور یہ تسلسل سے پاکستان میں اپنی دہشتگرد کارروائیوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی، جس میں خواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.