دلی ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ جب اس طرح کا کوئی سرکاری نوٹیفیکشن موجود ہی نہیں تو اس قانونی درخواست کا کوئی جواز نہیں اور درخواست گذار اس کتاب کے حصول کے سلسلے میں وہ سبھی اقدامات کرنے کا مجاز ہے جو قانوناً دستیاب ہیں۔
انڈیا کی دلی ہائی کورٹ نے انڈین نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب ’سیٹانک ورسز‘ (شیطانی آیات) پر عائد پابندی کا سرکاری حکم نامہ کسی ریکارڈ میں نہ ملنے کے بعد اس پٹیشن کو خارج کر دیا، جس میں اس کتاب پر عائد کی گئی پابندی کو غیر آئینی قرار دینے اور اس کتاب کی دیگر ممالک سے انڈیا درآمد کی اجازت کی درخواست کی گئی تھی۔
دلی ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ جب اس طرح کا کوئی سرکاری نوٹیفیکشن موجود ہی نہیں تو اس قانونی درخواست کا کوئی جواز نہیں اور درخواست گزار اس کتاب کے حصول کے سلسلے میں وہ سبھی اقدامات کرنے کا مجاز ہے جو قانوناً دستیاب ہیں۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد سلمان رشدی کی متنازعہ کتاب پر پابندی عملی طور پر ختم ہو گئی ہے۔
کتابوں کے ایک مداح اور درخواست گزار سندیپن خان نے اپنی پٹیشن میں کہا تھا کہ وہ پانچ اکتوبر 1988 کو وزارت خزانہ کے سینٹرل بورڈ آف ان ڈائرکٹ ٹیکسز محکمے کے ذریعے ’سیٹانک ورسز‘ پر عائد پابندی کے نوٹیفیکیشن کے سبب اس کتاب کو دوسرے ملک سے انڈیا نہیں لا سکتے۔
انھیں مختلف کتب فروشوں نے بھی بتایا تھا کہ اس کتاب کو انڈیا میں فروخت کرنے اور شائع کرنے کی اجازت نہیں۔
یاد رہے کہ ’سیٹانک ورسز‘ کی اشاعت کے بعد چند مسلم ممالک میں مسلمانوں نے اسے توہین آمیز قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور دنیا بھر میں اس کتاب کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔
اس کتاب کی اشاعت کے فوراً بعد انڈیا میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ایران کے سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے سنہ 1989 میں ایک فتویٰ جاری کیا، جس میں سلمان رشدی کے قتل کا مطالبہ کیا گیا۔ جس کے بعد انڈین نژاد انعام یافتہ مصنف تقریباً ایک دہائی تک روپوش رہنے پر مجبور ہوئے تھے۔
دلی ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟
سندیپن خان نے دلی ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں کہا کہ اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کا نوٹیفیکیشن کسی بھی سرکاری ویب سائٹ پر موجود نہیں اور نہ یہ متعلقہ حکام کے پاس ہے۔
انھوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ کسٹمز ایکٹ 1962 کے تحت اس کتاب پر پابندی کے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کو غیر آئینی قرار دے کر اسے مسترد کر دے اور انھیں بیرون ممالک سے یہ کتاب درآمد کرنے کی اجازت دے۔
اس مقدمے میں کئی دیگر لوگوں کے علاوہ وزارت داخلہ کے سکریٹری اور وزارت خزانہ میں مالیات محکمہ کے سکریٹری کو فریق ثانی بنایا گیا تھا۔
سنہ 2019 سے دلی ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ کے سامنے دائر اس درخواست کی سماعت کے بعد عدالت نے پانچ نومبر 2024 کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’جو بات سامنے آئی وہ یہ کہ فریق ثانی میں سے کوئی بھی اس کتاب پر پابندی سے متعلق پانچ اکتوبر 1988 کو جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن پیش نہیں کر سکا۔ یہاں تک کہ اس اہلکار نے بھی اس نوٹیفیکشن کی ایک نقل پیش کرنے سے معذوری ظاہر کی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہی اس نوٹیفیکیشن کا متن لکھا تھا۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’ان حالات میں ہمارے سامنے سوائے یہ ماننے کے کوئی دوسرا آپشن نہیں کہ اس طرح کا کوئی نوٹیفیکیشن موجود ہی نہیں۔ اس لیے اسے چیلنج کرنے کی درخواست کا کوئی جواز نہیں اور اسے مسترد کیا جاتا ہے۔ درخواست گزار اس کتاب کے حصول کے سلسلے میں قانون کے تحت کوئی بھی قدم اٹھانے کا مجاز ہے۔‘
امریکہ میں مقیم مصنف سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹانک ورسز‘ لندن کے ناشر وائی کنگ/ پینگوئین گروپ نے 1988 میں شائع کی تھی۔ اس کی اشاعت سے قبل اس کتاب کو انڈیا کے معروف مصنف خوشونت سنگھ کو ریویو کے لیے بھیجا گیا تھا۔
خوشونت سنگھ نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے کتاب کے ناشر کو لکھا تھا کہ اس کتاب سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوں گے اور اس پر بڑا تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔
’سیٹانک ورسز‘ پر انڈیا میں پابندی کا پس منظر
اس کتاب کے شائع ہوتے ہی اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ انڈیا میں کانگریس کی حکومت نے کتاب پر تنازعہ شروع ہوتے ہی 1988 میں اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اگرچہ دانشورں اور آزادئ اظہار کے علمبرداروں نے کتاب پر پابندی لگانے کی سخت مخالفت کی تھی لیکن حکومت نے پانچ اکتوبر 1988 کو اس کتاب پر پابندی لگانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
اس وقت انڈیا میں راجیو گاندھی کی حکومت تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے انڈیا کے مسلمان بہت برہم تھے۔ عدالت عظمیٰ نے کیرالہ کی ایک بزرگ مسلم خاتون شاہ بانو کو شوہر کی جانب سے طلاق دیے جانے کے بعد اسلامی ضابطوں کے برعکس سیکولر قانون کے تحت ہر مہینے نان و نفقہ کا خرچ دینے کا حکم دیا تھا۔
شاہ بانو کی دلیل تھی کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور ان کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف انڈیا کے مسلمانوں کی قدامت پسند قیادت اور علما برہم ہو گئے تھے اور اس کے خلاف پورے ملک میں تحریک چل رہی تھی۔
مسلمانوں کی اس تحریک سے ہندو توا کی تنظیموں کو بھی زبرست طاقت ملی اور انھوں نے پوجا شروع کرنے کے لیے ایودھیا کی بابری مسجد کا تالہ کھولنے کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔
حکومت کے اشارے پر عدالت نے 1986 میں بابری مسجد کا تالہ کھولنے کی اجازت دے دی۔ مسلمان تالہ کھلنے اور شاہ بانو کیس کے فیصلے سے بری طرح برہم تھے۔
اسی ماحول میں سلمان رشدی کی کتاب ’سیٹانک ورسز ‘ برطانیہ اور امریکہ کے بک سٹورز پر آ گئی۔ اس کی شدید مخالفت ہونے لگی اور کئی جگہ مظاہروں میں اس کتاب کو جلایا بھی گیا۔
انڈیا کے علما اور مسلم رہنماؤں نے انڈیا میں اس کتاب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ ممبئی، دلی، لکھنؤ، حیدرآباد اور دیگر شہروں میں سلمان رشدی کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔
’سیٹانک ورسز ‘ کو اسلام مخلاف قرار دیا گیا اور سلمان رشدی کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
اس دوران ’سیٹانگ ورسز ‘ کی پہلی کھیپ برطانیہ سے ایک مال بردار بحری جہاز کے ذریعے کولکتہ کی بندرگاہ پر پہنچی۔ اس کے اترتے ہی پولیس نے ساری کتابیں ضبط کر لیں اور انھیں کتب فروشوں تک پہنچنے نہیں دیا۔
انڈیا میں پابندی لگنے کے بعد دوسرے ملکوں میں بھی اس کے خلاف مخالفت شدت اختیار کرنے لگی۔
انڈین نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کئی برس قبل برطانیہ سے امریکہ منتقل ہو گئے اور وہیں کی شہریت اختیار کر لی۔ انھوں نے اپنی روپوشی کے دنوں کے پس منظر میں اپنی سوانح حیات بھی لکھی۔
اگست 2022 میں نیویارک کے ایک تعلیمی ادارے کے ایک پروگرام میں ایک حملہ آور نے سلمان رشدی پر چاقو سے وار کیا تھا جس میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔
پابندی لگنے کے بعد ’سیٹانک ورسز ‘ انڈیا نہیں آ سکی لیکن اب جبکہ دلی ہائی کورٹ نے پابندی کا نوٹیفیکیشن نہ ملنے کے بعد اس کی برآمد کا راستہ ہموار کر دیا ہے تو اس کے بازار میں بہت جلد دستیاب ہونے کے امکانات ہیں۔