اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو ایک ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے نقشے میں وہ ممالک ’نعمت‘ ہیں جو اسرائیل کے ساتھ امن چاہتے ہیں جبکہ وہ علاقے ’مکروہ‘ ہیں جو اسے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کا نظریہ کیا ہے جسے ایران سمیت کئی ملکوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے حال ہی میں اپنی گفتگو میں ایک ’نئے مشرق وسطیٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
طاقت کے توازن میں تبدیلی اور علاقائی منظر نامے کی تشکیل نو اسرائیل کا کوئی نیا خواب نہیں ہے۔
تاہم حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے خطے میں جاری کشیدگی اور بدلتی صورت حال میں اسرائیل کے اس تصور کو پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت کے قریب سمجھا جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے متنازع اسرائیلی نقشے
متعدد بین الاقوامی فورمز پر اسرائیلی حکام اپنے ملک اسرائیل کے نقشے پکڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام نقشوں میں کسی فلسطینی ریاست یا علاقے کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے اسرائیل کے دو نقشے پیش کیے۔ ان میں سے ایک نقشے میں ان تمام ممالک کو سبز رنگ میں دکھایا گیا جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا حصہ ہیں یا اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال رکھنے کے خواہاں ہیں۔
سبز رنگ والے ممالک میں مصر، سوڈان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور اردن شامل ہیں۔
دوسرے نقشے میں نتن یاہو نے نہ صرف ایران اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک شام،عراق اور یمن اور لبنان کو سیاہ رنگ میں پیش کیا بلکہ ان علاقوں کو ’مکروہ‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں اسرائیل کے عزائم کو نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ’وہ دجلہ اور فرات کے درمیان ہمارے وطن کی سرزمین ہتھیانے کا خواب دیکھتے ہیں اور کیونکہ وہ غزہ کو قبول نہیں کرنا چاہتے، وہ اس کا اظہار اپنے نقشوں سے کر رہے ہیں۔‘
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ایک سینئر فیلو پروفیسر یزید صایغ اس بات سے متفق نہیں کہ نتن یاہو کے ایسے عزائم ان کی حکومت کے اصل مقاصد کی جانب ایک اچھا اشارہ سمجھیں جائیں گے۔
پروفیسر صئیغ کہتے ہیں کہ ’اس وقت نتن یاہو جو نئے مشرق وسطی کی صورت میں مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا مقصد فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کی نوآبادی بنانا ہے۔‘
اسرائیل خاص طور پر مغربی کنارے میں اپنے آباد کاری کے منصوبے کو توسیع دینے کے ارادوں سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ وہ عرب اور بین الاقوامی تنقید کے باوجود بستیوں کی تعداد بڑھانے کے ارادے کا اعلان کر چکا ہے۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سینیئر فیلو ڈیوڈ شینکر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت میں متعدد وزرا دو ریاستی حل پر یقین نہیں رکھتے اور اب ہم 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد سے ایک فلسطینی ریاست سے سب سے زیادہ دور نظر آتے ہیں۔
’تاہم مجھے نہیں لگتا کہ امریکہ ان اسرائیلی نقشوں کو منظور کرے گا جن میں فلسطینی علاقے شامل نہ ہوں۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل ڈیوڈ شینکر مشرقی امور کے لیے بطور اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
شینکر کہتے ہیں کہ ’نئے مشرق وسطیٰ کے بارے میں اسرائیلی نظریہ ایرانی خطرات سے پاک خطہ ہے۔‘
’ایسا مشرق وسطی جس پر ایران کی سخت گیر حکومت اثر انداز نہ ہو‘
سکیورٹی امور کے ماہر اور ریٹائرڈ اسرائیلی انٹیلیجنس افسر میری آئزن نے بی سی سی سے بات کرتے ہوئے اس موقف کی نفی کی اور کہا کہ ’اسرائیل ایک نیا مشرق وسطیٰ مسلط کرنا نہیں چاہتا۔
’تاہم اسرائیل یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران کی سخت گیر حکومت مشرق وسطیٰ کی علاقائی ترتیب پر اثر انداز نہ ہو۔‘
دوسری جانب پروفیسر یزید صایغ کہتے ہیں کہ ’نتن یاہو کے الفاظ کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اب وہ اپنی اس تاریخی حیثیت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد متاثر ہوئی اور جس میں اسرائیل کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں کیے جانے والے ایک بڑے اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل حسن نصر اللہ کی ہلاکت کو جنگ میں ایک اہم جغرافیائی اور سیاسی موڑ سمجھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ایران نے اسرائیل پر متعدد بیلسٹک میزائلوں سے یکم اکتوبر کو حملہ کیا۔ اس حملے کو ایران اپنی سرزمین پر حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ قرار دے رہا ہے جبکہ اسرائیل نے ’اپنی مرضی کے وقت اور مقام پر‘ جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
کیا فوجی کارروائی مسائل کا حل ہیں؟
امریکہ اپنی سٹریٹیجک برتری کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث اس نے خطے میں اپنی فوج کی تعیناتی میں بھی خاطر خوا اضافہ کیا ہے۔
تاہم یہ حمایت اس بات پر مشروط ہے کہ اسرائیل ان حدوں (سرخ لکیروں) کو عبور نہ کرے جن کا اعادہ امریکہ سرکاری سطح پر کرتا رہا ہے۔ وہ حدیں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا اور دو ریاستی حل کی جانب جانا ہیں۔
آئزن نے کہا کہ ’ایران خطے میں ہتھیار اور نظریات اپنے پراکسی گروہوں کو برآمد کرتا ہے۔ یہ اسرائیل اور دیگر ممالک کے لیے خطرے کا باعث ہے اور اس کا مقصد اُن کی عسکری صلاحیت پر اثر انداز ہونا ہے۔ اسرائیل اس کا فوجی کارروائی کے ذریعے مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔‘
دوسری جانب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈیوڈ شینکر کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے خطے میں ایران کی ’پراکسیز‘ کو کمزور کرنے میں پیشرفت کی ہو گی لیکن یہ بھی واضح ہے کہ وہ عرب ریاستوں کی حمایت کے بغیر کوئی نئی ترتیب نہیں بنا سکتا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’فلسطینی اتھارٹی، عرب کوششوں اور عالمی سفارتکاری کے بغیر بھی حماس کی تشکیل نو ہوسکتی ہے۔ لبنانی برادری کی کوششوں کے بغیر بھی حزب اللہ اپنی تشکیل نو کر سکتی ہے۔‘
آئزن کا کہنا ہے اسرائیل صرف ان اتحادیوں کے ساتھ سکیورٹی، معاشی اور تکنیکی شراکت داری کو مضبوط بناتا ہے جو اس کے ’ایران کے خطرے‘ کے تصور میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
گذشتہ برسوں کے دوران واشنگٹن نے خطے میں حالات معمول پر لانے کے منصوبوں کے تناظر میں اقتصادی اور فوجی سپورٹ کی پیشکش کی اور اس دوران عرب ممالک پر زور دیا کہ اسرائیل ان کے لیے علاقائی خطرہ نہیں بلکہ اس کے برعکس، ایران کا مقابلہ کرنے میں ایک سٹریٹجک پارٹنر ہے۔
اسرائیل کے ساتھ خطے میں تعلقات کو معمول پر لانے کی رفتار میں گذشتہ چار سالوں میں تیزی آئی۔
مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدے پر دستخط کیے۔ لیکن سات اکتوبر 2023 کے حملے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل غزہ جنگ کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔
اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے جو خطے میں شیعہ اکثریتی ایران کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور اثر و رسوخ کی مخالفت کرتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس کی بالادستی سے خوفزدہ ہے۔
تاہم سعودی عرب نے فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون میں باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ ملک اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔
سات اکتوبر 2023 سے ہونے والی جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں نے مصر، شام، لبنان اور اردن سمیت دیگر عرب ممالک کی سوچ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ممالک نے 1948 میں فلسطین کی تقسیم کے فیصلے میں احتجاجاً اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
شینکر کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ممالک کی ہمدردیاں فلسطین کے ساتھ ہیں تاہم انھوں نے محسوس کیا ہے کہ اسرائیل واحد مسئلہ نہیں بلکہ فلسطینی فیصلہ ساز بھی اس میں شامل ہیں۔ انھوں نے فلسطین اسرائیل تنازع کو معمول پر لانے کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
معاشی شراکت داریاں
حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملوں سے قبل حالات معمول پر لانے کے اعلان کردہ معاہدوں میں دفاع، سائبر سکیورٹی، توانائی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے کے منصوبے شامل تھے۔
گذشتہ ایک سال قبل شروع ہونے والی جنگ نے اسرائیل اور عرب ممالک سے اس کے نئے شراکت داروں کے درمیان تجارتی تعاون کا حجم کم کر دیا ہوگا۔
تاہم اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نصف رواں مالی سال کے دوران اسرائیل اور پانچ عرب ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین اور مراکش شامل ہیں۔
اسرائیلی اخبار ماریو نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے پر رپورٹ کی ہے جس کے مطابق اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی راستہ سعودی عرب اور اردن سے گزر کر مصر تک پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیل کی گیس کو مصر کے کچھ پاور گرڈز کے لیے سپلائی کا ایک بڑا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
شینکر کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کو ایک نئے علاقائی نظام کی تشکیل کے لیے سفارت کاری، اقتصادی شراکت داری اور ایک مضبوط دفاعی اور فوجی کارروائی کو یکجا کرنا چاہیے۔‘
مڈل ایسٹ سینٹر کارنیگ کے پروفیسر یزید صایغ تیزی سے بڑھتی علاقائی اور عالمی تبدیلیوں کے بارے میں فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صورتحال مزید عالمی تنازعات کو جنم دے رہی ہے۔
ان کے مطابق ’مشرق وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں کو بین الاقوامی صورتحال سے الگ تھلگ نہیں دیکھا جا سکتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس سے امریکہ، روس، چین اور یورپ کی مقامی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
انھیں خدشہ ہے کہ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں سے ہم جنگ کے رجحان کو ہوا دے رہے ہیں۔