علی امین گنڈاپور اسلام آباد پہنچنے کے بعد کہاں گئے؟

علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا سے ایک قافلے کی شکل میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف آ رہے تھے جب برہان انٹرچینج کے مقام پر انھوں نے واضح اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف کا احتجاج ہر صورت ڈی چوک پر ہی ہوگا۔ مگر اسلام آباد پہنچنے کے بعد ریڈ زون کے قریب انھوں نے کارکنان سے ایک مختصر خطاب کیا اور وہاں سے چلے گئے۔

علی امین گنڈاپور خیبر پختونخوا سے ایک قافلے کی شکل میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی طرف آ رہے تھے جب برہان انٹرچینج کے مقام پر انھوں نے واضح اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف کا احتجاج ہر صورت ڈی چوک پر ہی ہوگا۔ مگر اسلام آباد پہنچنے کے بعد ریڈ زون کے قریب انھوں نے کارکنان سے ایک مختصر خطاب کیا اور وہاں سے چلے گئے۔

گذشتہ روز تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ریڈ زون میں ہی واقع خیبر پختونخوا ہاؤس میں ’حبس بے جا میں‘ رکھا گیا ہے جہاں رینجرز کی طرف سے ایک ریڈ بھی کی گئی تھی۔

تاہم وزیر داخلہ محسن نقوی نے اس کی تردید کرتے ہوئے اتوار کو کہا کہ وہ کسی ریاستی ادارے کی تحویل میں نہیں بلکہ اپنی مرضی سے خیبر پختونخوا ہاؤس سے ’بھاگ گئے تھے جس کے شواہد بھی ہیں۔‘

مگر علی امین گنڈاپور کی مبینہ گمشدگی پر خیبرپختونخوا اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے۔

ان کی جماعت تحریک انصاف نے ایکس پر ایسی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے دکھائے گئے اور یہ سوال پوچھا گیا کہ ’کیا آپ دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایک صوبے کے منتخب وزیرِاعلیٰ کو اغوا کرنے کے بعد ان کی بلٹ پروف گاڑی کو توڑ رہے ہیں؟ ۔۔۔ آخر مقصد کیا ہے؟‘

اس سوال پر کہ گنڈاپور کہاں ہیں، محسن نقوی نے کہا کہ اگر وہ اسلام آباد کی حدود میں ہوں گے تو پولیس انھیں ڈھونڈ نکالے گی۔

تحریک انصاف کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کی جماعت علی امین گنڈاپور کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔

پولیس
Getty Images

علی امین گنڈاپور تمام رکاوٹیں عبور کر کے اسلام آباد کیسے پہنچے؟

اتوار کو ڈی چوک پر پولیس کانسٹیبل کی نمازِ جنازہ کے بعد محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ’نہ تو ہماری حراست میں ہیں، نہ پاکستان کے کسی ادارے کی حراست میں ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے رات کو دو تین ریڈ کیے ہیں مگر وہ وہاں نہیں تھے جہاں ہمیں ان کے بارے میں شک تھا۔‘

وزیر داخلہ نے کہا کہ ’وہ جہاں پر ہمیں ملیں گے تو پولیس اپنی کارروائی کرے گی۔‘

سنیچر کو علی امین گنڈاپور پشاور سے اسلام آباد ایک قافلے کی صورت میں آ رہے تھے اور ہر صورت وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون داخل ہونے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔

تحریک انصاف کا یہ احتجاج حکومت کی طرف سے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف تھا۔

اسلام آباد کے قریب ان کے قافلے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے مطابق علی امین گنڈاپور کا قافلہ راستے سے تمام تر رکاوٹیں ہٹاتا ہوا اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوا۔

مگر 26 نمبر چونگی کے مقام پر وزیر اعلیٰ نے اپنے قافلے سے راہیں جدا کیں اور چند ساتھیوں کے ہمراہ اپنی گاڑی کا رُخ اسلام آباد کی مارگلہ روڈ کی طرف کر دیا۔

صحافی عادل تنولی یہ سب مناظر اپنے ٹی وی چینل کے لیے محفوظ کر رہے تھے۔

عادل نے بی بی سی کو بتایا کہ علی امین گنڈاپور مارگلہ روڈ سے ڈی چوک کے قریب چائنہ چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

انھوں نے وہاں دس سے پندرہ منٹ گزارے، جذباتی خطاب کیا، عمران خان کے حق میں نعرے لگوائے، کارکنوں کو پر امن رہنے کی تلقین کی اور پھر انھیں یہیں چھوڑ کر آگے نکل گئے۔

اسلام آباد کے ریڈ زون میں خیبر پختونخوا ہاؤس کا رُخ

چائنہ چوک میں پی ٹی آئی کے دھرنے کی کوریج پر مقامی صحافی امانت گشکوری بھی مامور تھے۔ امانت نے بی بی سی کو بتایا کہ علی امین نے چائنہ چوک میں پی ٹی آئی کارکنان کے ساتھ کچھ وقت گزارا، ان کی طرف ہاتھ ہلائے، فوٹیج بنوائی اور پھر وہاں سے چلتے بنے۔

ان کے مطابق جب صحافیوں نے استفسار کیا تو انھیں بس یہ کہا گیا کہ وزیراعلیٰ اہم مصروفیات کی وجہ سے ریڈ زون میں واقع کے پی ہاؤس چلے گئے ہیں۔

امانت کے مطابق جب وہ کے پی ہاؤس پہنچے تو وہیں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی بھی آ گئے تھے۔

بیرسٹر گوہر جب اپنی گاڑی پر باہر نکلے تو وہاں موجود صحافیوں نے ان سے علی امین سے متعلق پوچھا مگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔

دریں اثنا پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان چائنہ چوک سے نعرے لگاتے ہوئے ریڈ زون کی طرف بڑھنے لگے جہاں ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور پولیس سے تصادم ہوا۔

امانت کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور بھی اپنے سکیورٹی اہلکاروں سمیت چائنہ چوک سے ہی کے پی ہاؤس گئے تھے اور انھیں کسی نے نہیں روکا تھا۔

اس سوال پر کہ وہ اپنے قافلے کو چھوڑ کر کے پی ہاؤس کیوں گئے، پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ 36 گھنٹے سے سفر میں تھے اور ان کا موبائل سروسز کی معطلی کے باعث کسی سے رابطہ بھی نہیں ہو رہا تھا، اس وجہ سے وہ کے پی ہاؤس گئے جو ان کی سرکاری رہائشگاہ اور دفتر بھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ قیاس آرائیاں درست نہیں کہ وزیراعلیٰ کسی انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کارکنان کو تنہا چھوڑ کر نکل گئے۔

مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور کے پی ہاؤس میں جانے کے بعد کہاں غائب ہو گئے؟

پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’علی امین گنڈاپور کو بندوق کے زور پر پختونخوا ہاؤس سے اغوا کیا گیا۔‘

تاہم محسن نقوی نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا کہ ’جب کے پی ہاؤس پر پولیس نے ریڈ شروع کیا تو وہ مرکزی دروازے سے بھاگ گئے تھے۔‘

’ان کی بھاگتے ہوئے تصویریں بھی موجود ہیں، وہ ہم دکھا سکتے ہیں۔ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ خود بھاگے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اسلام آباد کی حدود میں ہوئے تو ہم انھیں ڈھونڈ نکالیں گے۔ اسلام آباد پولیس انھیں ڈھونڈ رہی ہے۔‘

’اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس گمشدگی پر خود گنڈاپور کا موقف کیا ہو گا‘

پی ٹی آئی اور حکومت کی جانب سے علی امین کی گرفتاری کے متضاد دعوؤں کے بعد ایک مرتبہ پھر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے کہ اگر وہ گرفتار نہیں ہوئے تو پھر ہیں کہاں؟

مگر یہ پہلی بار نہیں کہ علی امین گنڈاپور احتجاج کے دوران مبینہ طور پر لاپتہ ہوئے ہوں۔

آٹھ ستمبر کو علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد کے جلسے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی تو اس کے کچھ دیر بعد ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا اور رات بھر غائب رہنے کے بعد وہ اگلی صبح پشاور پہنچے تھے۔

علی امین نے بعد میں یہ بتایا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ سطح سکیورٹی اجلاس میں شریک تھے اور جس مقام پر وہ موجود تھے وہاں پر موبائل فون کے سگنلز نہیں تھے۔

اس واقعے کے اگلے روز عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو میں خود یہ الزام لگایا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو ’اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا تھا۔‘

اس کے چند دن بعد 21 ستمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے میں بھی وزیراعلیٰ علی امین سب سے آخر میں وہاں پہنچے اور پھر کارکنان سے گفتگو کر کے وہاں سے چلے گئے۔

وزیر اعلیٰ نے اس کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا تھا اور یہ الزام لگایا تھا کہ پنجاب حکومت نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں جس کی وجہ سے انھیں جلسے تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی تھی۔

مگر اس بار بھی وزیراعلیٰ کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف علی کا کہنا ہے کہ اس وقت صوبے کے انتظامی سربراہ کا ان کی جماعت اور اہل خانہ سے رابطہ نہیں ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب نے ایک ویڈیو پیغام میں وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی مبینہ گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے انھیں فوری طور پر ’رہا‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ ہو یا انٹیلیجنس ایجنسیز۔۔۔ ایک وزیرِ اعلیٰ کو آپ نے جس طرح اغوا کیا ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ جس طرح آپ نے خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد کا محاصرہ کیا، اندر رینجرز گئی، اسلام آباد پولیس گئی دروازے توڑے، اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔‘

’وہ ہمارے وزیرِ اعلیٰ ہیں، ہمارے صوبے کی عزت ہیں، پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے صوبائی صدر ہیں اور ریاست کا حصہ ہیں۔‘

خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں اور ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد اسلام آباد میں پارٹی کارکنان کے ساتھ احتجاج میں کھڑی نظر نہیں آئی۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق انھیں ارکان اسمبلی کی گرفتاری کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے انھیں اس احتجاج میں آنے کا نہیں کہا گیا تھا۔

ایک اور رہنما کے مطابق عمران خان پہلے ہی پارٹی قیادت کے جلسے، جلوسوں اور احتجاج سے دوری کی پالیسی پر پارٹی کی سینیئر قیادت کے رویے پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں۔

سینیئر تجزیہ کار نصرت جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ علی امین گنڈاپور کے بارے میں تحریک انصاف نے پہلے بھی ایک مؤقف اختیار کیا تھا مگر بعد میں انھوں نے خود اس کی تائید نہیں کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف تو علی امین کے معاملے کو اغوا قرار دے رہی ہے مگر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ علی امین خود کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔

’اگر وہ یہ کہہ دیں کہ وہ کہیں لاپتہ نہیں تھے تو پھر حکومت کی بجائے اس مؤقف سے ان کی اور ان کی جماعت کی سبکی ہوگی۔‘

ان کے مطابق جہاں تک گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور کے پی ہاؤس میں پولیس اور رینجرز کے گھس جانے کی بات ہے تو وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اندر ایسے عناصر موجود تھے جو ’پاکستان کی ریاست کے خلاف سازش کر رہے تھے۔‘

نصرت جاوید کے مطابق ابھی تک سب سے اہم سوال یہی ہے کہ ’آخر علی امین گنڈاپور اپنے کارکنان کو پولیس اور سکیورٹی فورسز کے سامنے سڑک پر تنہا چھوڑ کر کے پی ہاؤس کیوں چلے گئے تھے؟‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.