ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار مالدیپ کا انڈیا کے ساتھ قرض معاہدہ: ’انڈیا آؤٹ‘ کہنے والے معیزو کی مودی سے ملاقات

ماضی میں ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ لگانے والے مالدیپ کے صدر محمد معیزو انڈیا کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے ایک قرض معاہدہ طے کیا ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران انڈیا اور مالدیپ کے درمیان سرد مہری رہی ہے۔ اس کے باوجود مالدیپ کے صدر کا انڈیا میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔
مودی، معیزو
Getty Images

انڈیا نے مالدیپ کی معاشی بحالی کے لیے ہزاروں ڈالر قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے پانچ روزہ دورۂ انڈیا کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے اور اسی ملاقات کے بعد ایک معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس میں 40 کروڑ ڈالر کی کرنسی سواپ ڈیل شامل ہے جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک طرح کا قرض معاہدہ ہے۔ جبکہ اضافی 30 ارب روپے کے ذریعے کمپنیاں امریکی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں کاروبار کر سکیں گی۔

گذشتہ مہینوں کے دوران انڈیا اور مالدیپ کے درمیان سرد مہری رہی ہے۔ اس کے باوجود مالدیپ کے صدر کا انڈیا میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ مودی نے اس موقع پر کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے بیچ تعلقات کا ’نیا باب‘ ہے۔

مودی نے کہا کہ ’انڈیا ہمیشہ مالدیپ کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے پیش پیش رہے گا۔‘

دونوں سربراہان کے بیانات اور انڈیا کی طرف سے قرض معاہدہ اس جانب اشارہ ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ تعلقات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے معیزو کے دور کی ابتدا میں نومبر 2023 کے دوران یہ تعلقات خراب ہوئے تھے۔

معیزو نے انتخابات جیتنے کے بعد انڈیا کی بجائے ترکی اور چین کے دورے کیے جبکہ روایتی طور پر مالدیپ کے سربراہان سب سے پہلے دلی کا دورہ کیا کرتے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے مالدیپ کے سربراہان کو انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنا پڑے ہیں۔

دراصل مالدیپ کے غیر ملکی ذخائر 44 کروڑ ڈالر تک گِر چکے ہیں اور اسے ڈیفالٹ کا خدشہ ہے۔ اس قدر کم فارن ایکسچینج ریزروز میں یہ صرف ڈیڑھ ماہ تک درآمدات جاری رکھ پائے گا۔

پیر کو معیزو نے کہا کہ انھوں نے مودی سے طویل گفتگو کی جو دونوں ملکوں کے بیچ مستقبل کے تعاون کے بارے میں تھی۔

انھوں نے انڈیا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس مالی مدد کے ذریعے مالدیپ ’غیر ملکی ذخائر کا مسئلہ حل کر سکے گا۔‘

دونوں ملکوں نے فری ٹریڈ (تجارت میں اضافے کے لیے ٹیرف میں کمی کے) معاہدے پر بات چیت پر بھی اتفاق کیا ہے۔

مودی سے ملاقات سے قبل معیزو نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں امید ہے کہ انڈیا ماضی کی طرح اس بار بھی مالدیپ کی مدد کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ تھا کہ ’انڈیا ہماری مالی صورتحال جانتا ہے۔ یہ ہمارا سب سے بڑا ترقیاتی شراکت دار ہے اور یہ ہمیشہ ہماری مشکل دور کرنے کو تیار رہے گا۔ یہ ہمارے چیلنجز دور کرنے اور بہتر متبادل تلاش کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔‘

انھوں نے اپنی ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کا حوالہ دیے بغیر کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ ہمارے بیچ غلط فہمیوں کو بات چیت اور باہمی سمجھ بوجھ سے دور کیا جاسکتا ہے۔‘

ان کا یہ بیانیہ پہلے کے اقدامات کے مقابلے کچھ الگ معلوم ہوتا ہے۔ وہ دلی کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتے تھے اور انڈیا کے حریف چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے۔

فروری کے دوران ان کی حکومت نے چین کے ایک تحقیقاتی بحری جہاز کو مالدیپ لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی۔ یہ بات دلی کو پسند نہیں آئی تھی۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس مشن کا مقصد ڈیٹا جمع کرنا تھا جسے چینی فوج اپنے آبدوز کے آپریشنز کے لیے استعمال کر سکے گی۔

دریں اثنا معیزو نے چین کی حمایت کے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف مالدیپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ مالدیپ اب بھی چین پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ اسے چین کی طرف سے اب تک 1.37 ارب ڈالر کا قرض ملا ہوا ہے۔

انڈیا اور چین کی مدد سے مالدیپ ڈیفالٹ سے کیسے بچا؟

گذشتہ مہینوں کے دوران یہ خدشات پائے جا رہے تھے کہ معاشی بحران سے دوچار مالدیپ وہ پہلا ملک بن سکتا ہے جو اسلامی شرائط کے تحت دیے جانے والے قرض کی ادائیگیاں کرنے میں ناکامی کی صورت میں دیوالیہ ہوسکتا ہے۔

لیکن یہ خدشات کافی حد تک کم ہوگئے ہیں کیونکہ چین اور انڈیا نے مالدیپ کی مدد کی ہے۔

مالدیپ سب سے زیادہ چین اور انڈیا کا مقروض ہے۔ ورلڈ بینک کے ڈیٹا کے مطابق اسے چین کی طرف سے 1.37 ارب ڈالر اور انڈیا کی طرف سے 12.4 کروڑ ڈالر قرض ملا ہے۔

کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران مالدیپ کی سیاحت کی صنعت بحران کا شکار ہوئی تھی اور اسی لیے اس ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات بڑھے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالدیپ اپنے بڑے پڑوسی کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مالدیپ کے تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں لیکچرار عظیم ظاہر کہتے ہیں کہ ’صدر معیزو کا دورہ کئی معنوں میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ ان میں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دورہ اس بات کا احساس ہے کہ مالدیپ کا انڈیا پر کتنا انحصار ہے۔‘

مالدیپ تقریباً 1,200 جزائر پر مشتمل ہے اور بحر ہند کے وسط میں واقع ہے۔ مالدیپ کی آبادی انڈیا کی 1.4 ارب آبادی کے مقابلے میں صرف 520,000 ہے۔

ایک چھوٹے اور جزیرے والے ملک کے طور پر مالدیپ اپنی خوراک، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے اپنے بڑے پڑوسی انڈیا پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

مالدیپ کے ایک سینیئر ایڈیٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معیزو کے دورے کی اہم ترجیحات میں گرانٹ ان ایڈ اور قرضوں کی ادائیگیوں کی تنظیم نو کی صورت میں مالی مدد کو محفوظ بنانا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’معیزو مالدیپ کے مرکزی بینک کی طرف سے 400 ملین ڈالر کی کرنسی کے تبادلے کا معاہدہ بھی چاہتے ہیں۔‘

ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے مالدیپ کی مالیاتی صورتحال پر مزید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’(غیر ملکی) ذخائر 2025 میں تقریباً 600 ملین ڈالر اور 2026 میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائيگیوں کے حساب سے نمایاں طور پر کم ہیں۔‘

مالدیپ کا عوامی قرض تقریباً 8 ارب ڈالر ہے، جس میں تقریباً 1.4 ارب ڈالر چین اور انڈیا کے واجب الادا ہیں۔

مالدیپ کے ایڈیٹر نے کہا کہ ’معیزو کے متعدد مواقع پر یہ کہنے کے باوجود کہ چین نے قرضوں کی ادائیگی کو پانچ سال کے لیے موخر کرنے کے لیے گرین سگنل دیا بیجنگ کی جانب سے مالی امداد آنے والی نہیں۔‘

کسی دوسرے ملک کو مدد کے لیے نہ آتا دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ معیزو اب کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے انڈیا کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔

عظیم ظاہر کہتے ہیں کہ ’یہ معیزو کی حکومت کے سینیئر عہدیداروں کی جانب سے لہجے اور منفی بیان بازی کو دوبارہ ترتیب دینے کے بارے میں ہے جس نے انڈین سیاحوں کی آمد کو کافی حد تک متاثر کیا۔‘

چینی صدر کے ساتھ معیزو
Reuters
معیزو چینی صدر کے ساتھ

مودی کو ’مسخرہ، دہشتگرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ کہا گیا

انڈیا کا مالدیپ پر ایک طویل عرصے سے خاصا اثر و رسوخ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سٹریٹیجک مقامات ہیں جن سے بحرِ ہند تک رسائی ممکن ہے لیکن معیزو نے چین کے قریب جا کر اسے تبدیل کرنا چاہا تھا۔

جنوری میں معیزو انتظامیہ نے انڈیا کو مالدیپ میں مقیم تقریباً 80 فوجیوں کو واپس بلانے کا الٹی میٹم دیا۔ دہلی نے کہا کہ وہ وہاں دو ریسکیو اور جاسوسی ہیلی کاپٹر اور ایک ڈورنیئر طیارے کی دیکھ بھال کے لیے تعینات ہیں جو برسوں پہلے انڈیا نے انھیں دیے تھے۔

آخر میں دونوں ممالک نے طیاروں کو چلانے کے لیے فوجیوں کی جگہ انڈیا کے سویلین تکنیکی عملے کو وہاں رکھے جانے پر اتفاق کیا۔

چارج سنبھالنے کے ایک ماہ بعد معیزو کی انتظامیہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ ہائیڈرو گرافک سروے کے معاہدے کی تجدید نہیں کرے گی جس پر پچھلی حکومت نے مالدیپ کے علاقائی پانیوں میں سمندری تہہ کا نقشہ بنانے کے لیے دستخط کیے تھے۔

پھر ایک تنازع اس وقت شروع ہو گیا جب معیزو کے تین نائب وزرا نے مودی کے بارے میں متنازعہ تبصرے کیے اور انھیں ’مسخرہ، دہشت گرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔

ان ریمارکس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور انڈین سوشل میڈیا پر مالدیپ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

مالدیپ نے کہا کہ یہ تبصرے ذاتی تھے اور حکومت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے اور اس کے بعد تینوں وزرا کو کابینہ سے معطل بھی کر دیا گیا۔

انڈین سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ردعمل پر معیزو نے اس وقت کہا کہ ’ہم چھوٹے ہوسکتے ہیں لیکن اس سے آپ کو ہم پر دھونس جمانے کا لائسنس نہیں ملتا۔‘

اس کے باوجود رواں سال نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ان کی حلف برداری کی تقریب میں معیزو کی شرکت کے بعد دو طرفہ تعلقات میں پگھلاؤ آیا۔

اگست میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے دورہ مالدیپ نے بھی دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ شروع کیا۔

جے شنکر نے اپنے دورے کے دوران کہا کہ مالدیپ ہماری ’سب سے پہلے پڑوسی‘ کی پالیسی کے سنگ بنیادوں میں سے ایک ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنے وزیر اعظم نریندر مودی کے الفاظ میں مختصراً یہ کہوں گا کہ انڈیا کے لیے پڑوس میں موجود مالدیپ ایک ترجیح ہے۔‘

انڈیا کے لیے، خطے میں یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کیونکہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی انڈیا نواز حکومت کا خاتمہ ہوا جبکہ انڈیا کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کے پی شرما اولی ایک بار پھر ملک کےوزیر اعظم بنے۔

معیزو کو احساس ہوا ہے کہ کہ انڈیا کی مخالفت کوئی آپشن نہیں۔ پچھلے سال مالدیپ جانے والے انڈین سیاحوں کی تعداد میں 50,000 کی کمی ہوئی، جس کے نتیجے میں ملک کو تقریباً 150 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔

معیزو کو معلوم ہے کہ اگر مالدیپ کو انڈیا سے مالی مدد نہ ملی تو مالدیپ ’گمشدہ جنت‘ بن سکتا ہے اور اسی لیے ان کا انڈیا کا حالیہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.