’مصنوعی ذہانت کے گاڈ فادر‘ جنھیں مشینوں کے انسانوں سے ذہین ہونے کا خوف ہے

سائنس دانوں جیفری ہنٹن اور جان ہاپ فیلڈ نے مشین لرننگ کے شعبے میں خدمات دینے پر فزکس کا نوبیل انعام جیت لیا ہے۔
AI
Getty Images

سائنس دانوں جیفری ہنٹن اور جان ہاپ فیلڈ نے مشین لرننگ کے شعبے میں خدمات پر فزکس کا نوبیل انعام جیت لیا ہے۔

برطانوی-کینیڈین اکیڈمک ہنٹن، جنھیں ’مصنوعی ذہانت کا گاڈ فادر‘ بھی کہا جاتا ہے نے ایوارڈ جیتنے پر حیرت کا اظہار کیا۔

سنہ 2023 میں ہنٹن نے گوگل سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ ایک عرصے سے اس حوالے سے خبردار کر رہے ہیں کہ مشینیں جلد انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی۔

رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے سٹاک ہوم میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دونوں سائنس دانوں کے لیے اس ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تھا۔

91 سالہ جان ہاپ فیلڈ امریکہ پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جبکہ 76 سالہ ہنٹن کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پڑھاتے ہیں۔

مشین لرننگ کو مصنوعی ذہانت کی بنیاد سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ کسی بھی مشین کو معلومات پیدا کرنے کے لیے تربیت دیتی ہے۔

آج ہم متعدد ٹیکنالوجیز کا استعمال صرف مشین لرننگ کے باعث ہی کر پا رہے ہیں جیسے انٹرنیٹ پر ہم کیسے سرچ کرتے ہیں اور اپنے فونز پر تصاویر کیسے ایڈٹ کرتے ہیں۔

اس اعلان کے چند لمحوں بعد اکیڈمی سے بات کرتے ہوئے ہنٹن نے کہا کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ ہونے والا ہے۔ میں بہت حیران ہوں۔‘

سائنسدان
Getty Images

اکیڈمی کی جانب سے ان اہم ایپلی کیشنز کے بارے میں بتایا گیا جو ان دو سائنسدانوں کی جانب سے پروگرام کی گئی تھیں جن میں سے کچھ ایسی بھی جو کلائمیٹ ماڈلز، سولر سیلز اور طبی شعبے میں تصاویر کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی تھیں۔

ہنٹن کی نیورل نیٹ ورکس سے متعلق تحقیق کے باعث موجودہ اے آئی نظام جیسے چیٹ جی پی ٹی کی بنیاد پڑی۔

مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نیورل نیٹ ورکس ایسے نظام ہوتے ہیں جو معلومات کا جائزہ لینے اور اس سے سیکھنے میں انسانی دماغ سے مماثلت رکھتے ہیں اور ان کے باعث مصنوعی ذہانت کو تجربے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے جیسے انسانوں کو ہوتا ہے، اسے ’ڈیپ لرننگ‘ کہا جاتا ہے۔

فزکس
Getty Images

ہنٹن کے مطابق ان کا نیورل نیٹ ورکس سے متعلق کام انقلاب برپا کرنے والا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ صنعتی انقلاب کی طرح تھا، یعنی ہماری ذہنی صلاحیت کو بہتر کرنے کی کوشش نہ کہ ہماری جسمانی صلاحیت کو۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کیے گئے کام پرملال ہے تو انھوں نے اس حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

تاہم اس کے جواب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر انھیں ماضی میں واپس جانے کا موقع ملے تو میں یہ دوبارہ بھی کروں گا۔ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے خدشہ اس بات کا ہے کہ اس کی وجہ سے ایسے نظام بن سکتے ہیں جو کہ ہم سے بھی زیادہ ذہین ہوں گے اور اس لیے وہ ہر چیز کنٹرول کر پائیں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ اب چیٹ جی پی ٹی 4 کو اپنے بہت سے کام کروانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ ایپلی کیشن ہمیشہ درست جواب نہیں دیتی۔

دوسری جانب جان ہاپ فیلڈ نے ایک ایسا نیٹ ورک ایجاد کیا جو ڈیٹا کو ذخیرہ کرتا ہے اور اس میں موجود پیٹرنز کو دوبارہ بناتا ہے۔ یہ نیٹ ورک کسی بھی کی خصوصیات کو فزکس میں موجود ’ایٹامک سپن‘ کے تصور کی بنیاد پر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

hunton
Getty Images

ہاپ فیلڈ نے ایک ایسا نیٹ ورک تیار کیا جو انسانی دماغ میں اعصابی نیٹ ورک کو نقل کرتا ہے۔ یہ متن کے سیاق و سباق سے متعلق الفاظ کو یاد کرتا ہے چاہے وہ مکمل نہ بھی ہوں — بالکل اسی طرح جیسے انسانی دماغ کام کرتا ہے۔ یہ نامکمل پیٹرنز کو دیکھتا ہے، اس سے مماثلت رکھنے والے پیٹرن کو تلاش کرتا ہے، اور اس سے جملہ مکمل کرتا ہے۔

نوبیل پرائز کمیٹی نے کہا کہ دونوں سائنسدانوں کا کام ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے جس میں چہرے کی شناخت اور مختلف زبانوں کے ترجمہ کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔

لیکن نوبل پرائز کمیٹی برائے فزکس کی سربراہ ایلن منز نے کہا کہ ’فزکس کی تیزی سے ترقی نے ہمارے مستقبل کے بارے میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔‘

خیال رہے کہ دونوں سائنسدان 11 ملین سویڈش کرونر (تقریباً 1.64 ملین امریکی ڈالر) کا انعام شیئر کریں گے۔

AI
Getty Images

ہنٹن نے گوگل سے استعفیٰ کیوں دیا تھا؟

خیال رہے کہ جیفری ہنٹن نے گذشتہ برس مئی میں گوگل سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے کچھ خطرات ’کافی خوفناک‘ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جتنا میں سمجھتا ہوں، اس کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال، وہ ہم سے زیادہ ذہین نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی (ہم سے زیادہ ذہین) ہو سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ اے آئی میں انسانیت کے لیے بہت زیادہ صلاحیت ہے، لیکن واضح ضابطوں اور حدود کے بغیر ترقی کی موجودہ رفتار پریشان کن ہے۔

نیویارک ٹائمز کو بھیجے گئے ایک بیان میں گوگل سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ہنٹن نے کہا کہ اب انھیں اپنے کیے پر پچھتاوا ہے کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ کچھ ’غلط عناصر‘ اے آئی کو ’بُرے کام‘ کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔

کمپیوٹر سائنسدان ہنٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ چیٹ بوٹ جلد ہی انسانی دماغ کی معلومات کی سطح کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ابھی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جی پی ٹی-4 کسی ایک شخص کے پاس موجود علم پر سبقت حاصل کرتا ہے۔ وضاحت دینے کے معاملے میں یہ (ٹیکنالوجی) اتنی آگے نہیں مگر یہ کچھ حد تک ایسا کر سکتی ہے۔‘

’اور اس کی ترقی کی شرح کو دیکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ چیزیں بہت تیزی سے بہتر ہوں گی۔ لہذا ہمیں اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔‘

نیویارک ٹائمز کے مضمون میں ڈاکٹر ہنٹن نے ’برے عوامل‘ کا حوالہ دیا جو ’بری چیزوں‘ کے لیے اے آئی کا استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔

جب بی بی سی نے اس کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ صرف بدترین قسم کا منظرنامہ ہے، ایک ڈراؤنے خواب جیسی صورت حال۔‘

’مثال کے طور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ (روسی صدر ولادیمیر) پوتن جیسا کوئی بُرا شخص روبوٹ کو اپنے مقاصد طے کرنے کے لیے استعمال کرے۔‘

سائنسدان نے متنبہ کیا کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے ایسے ذیلی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ جیسے ’مجھے مزید طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.