پروفیسر اقبال چوہدری: سرکاری سکول سے پڑھنے والے سائنسدان جن کے نام پر چین میں تحقیقاتی مرکز قائم ہوا

حالیہ دنوں میں چین کی ہونان یونیورسٹی آف میڈیسن میں ایک نئے تحقیقاتی مرکز کا افتتاح کیا گیا اوراس تحقیقاتی مرکز کو پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری کے نام سے منسوب کیا گیا۔

’مجھے سکھایا گیا تھا کہ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، منزل صرف محنت سے ملتی ہے۔ سائنسدان بننا میرا شوق تھا، میں بہت سوالات کیا کرتا تھا۔‘

یہ الفاظ بائیو آرگینک اور نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کے پاکستانی سائنسدان پروفیسرڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کے ہیں۔

حالیہ دنوں میں چین کی ہونان یونیورسٹی آف میڈیسن میں ایک نئے تحقیقاتی مرکز کا افتتاح کیا گیا تو اسے پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری کے نام سے منسوب کیا گیا۔

یاد رہے کہ ہونان یونیورسٹی آف میڈیسن 1912 میں قائم کی گئی تھی۔

خود ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کے لیے یہ پہلا اعزاز نہیں بلکہ پوری دنیا میں ان کو اپنی تحقیقات پر کئی اعزازت مل چکے ہیں۔

علم و تحقیق کے شعبے میں بے شمار خدمات کے صلے میں پاکستانی حکومت کی جانب سے انھیں ہلال امتیاز، تمغہ امتیاز اور ستارہ امتیاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کون ہیں اور چین کی ہونان یونیورسٹی آف میڈیسن میں ایک نئے تحقیقاتی مرکز کو ان کے نام سے کیوں منسوب کیا گیا؟

’پیسے بنانے کے لیے تعلیم کا تصور نہیں تھا‘

پروفسیر ڈاکٹر محمد جاوید اقبال چوہدری کے والد چوہدری غلام حسین تقسیم برصغیر کے وقت انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور انھوں نے کراچی کو اپنا گھر بنایا تھا۔

پروفسیر ڈاکٹر محمد جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ ’میں اور میرے بہن بھائیوں نے تعلیم سرکاری سکولوں سے حاصل کی تھی۔ اس وقت سرکاری سکولوں کا معیار بہت اچھا ہوتا تھا۔ جہاں پر استاد طالب علم کو تعلیم دیتے ہیں اور طالب علم استاد کی عزت اور قدر کرتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھر کا ماحول بھی بہت علمی تھا۔ والد صاحب ہمیں ادیبوں، شاعروں اور اہم علم لوگوں کی مجالس میں لے کر جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہمارے گھر میں اردو ڈائجسٹ اور نونہال جیسے رسالے آیا کرتے تھے۔‘

پروفسیر ڈاکٹر محمد جاوید اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھر میں تعلیم کے لیے تمام وسائل دستیاب تھے۔ کتابیں، کاپیوں کے علاوہ بوائے سکاوٹس کی سرگرمیاں ان سب کے لیے تو سب کچھ دستیاب تھا مگر کسی قسم کی فضول خرچی اور فضولیات کا تصور محال تھا۔ ہر چیز اعتدال میں ہوتی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی نہیں تھا کہ تعلیم حاصل کرو گے تو پیسے کماؤ گے یا ڈاکٹر انجینیئر بنو گے۔ ہمارے والدین کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ہم مسقبل میں کیا کریں گے۔‘

’مجھے بچپن ہی سے سائنس کا شوق تھا۔ میرے نانا بیمار ہوئے تو سوچتا رہا کہ ان کے جسم میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ سکول و کالج کی لیبارٹری میں میرا زیادہ وقت گزرتا تھا۔‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید اقبال نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس کیا تھا۔

کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس کرنے کے بعد انھیں امریکہ میں فیلو شپ ملی۔ اس کےعلاوہ بھی انھوں نے امریکہ اور یورپ میں کئی فیلو شپ کی ہیں جبکہ 1987سے وہ چین کے ساتھ مل کر وہاں مختلف تحقیقات کر رہے ہیں۔

’مریض کا حق ہے کہ اس کو مکمل علاج ملے‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید اقبال چوہدری کی کئی تحقیقات ہیں۔ ان کی کئی تحقیقات ایسی ہیں جو اس وقت انسانیت کی خدمت کررہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’محسوس کیا گیا ہے کہ بیماریوں کا علاج کسی ایک طریقہ علاج کے ساتھ ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ایلوپیتھی طریقہ علاج میں اب دیکھا جا رہا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف جراثیم، بیکیڑیا یا بیماریاں طاقت ور ہورہی ہیں۔‘

’ایسے میں تحقیقات کی گئی ہیں کہ سائنسی طور پر قدیم طریقہ جیسا کہ یونانی طریقہ علاج جو ہزاروں سال پرانا ہے،اس کو مستند بنایا جائے کہ یہ بھی ایلوپیتھی کے ساتھ مل کر موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مریض کا حق ہے کہ اس کو بہتر اور مکمل علاج مل سکے۔ بہتر علاج اور تشفی کے ساتھ علاج ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس میں غذائی پودوں یا دیسی جڑی بوٹیوں پرتجربات ہوئے ہیں۔ ’اس میں دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک بیماری، وائرس، بیکٹریا کمزور نہیں ہو رہا تو اس کو اینٹی بائیوٹیکس کے ساتھ ملا کر قدیم طریقہ علاج سے اس بیکٹریا کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بریسٹ کینسر کے حوالے سے بھی تحقیقات ہوئی ہیں اور جاری ہیں۔ ان کو امید ہے کہ آنے والے وقت میں اس میں زیادہ بہتری اور تیزی آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین میں اس وقت 49 یونیورسٹیاں اور ایسے تحقیقاتی مراکز ہیں جو چین کے مقامی طریقہ علاج پر تحقیقات کرتے ہیں۔ ہم بھی ان کے ساتھ مل کر یہ تحقیق کرتے ہیں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کے دنیا بھر میں 1270 تحقیقاتی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔

ان کے زیر نگرانی 100 سے زائد سائنسدانوں نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی، جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے سائنسدان شامل ہیں۔

ان کی 94 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جس میں سے اکثرامریکہ اور یورپ کے بڑے پبلشیرز نے شائع کی ہیں۔

پروفسیر ڈاکٹر محمد اقبال کے اعزازات کا سلسلہ 1994سے شروع ہوتا ہے جب اٹلی کے ادارے تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس نے انھیں ینگ سائسندان کا ایوارڈ دیا تھا۔ ان کو چین کا سب سے بڑا ایوارڈ ’فرینڈ شپ‘ بھی دیا گیا۔

وہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے نیچرل پروڈکٹ کمیسڑی، بائیو آرگینگ اور میڈیکل کے 2019 سے 2024 تک چئیر ہولڈ ر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل ترک اکیڈمی نے سال 2022 میں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گولڈ میڈل دیا۔ اس کے علاوہ ایران، آزربائیجان اور دیگر ممالک کی حکومتوں اور یونیورسٹیوں نے اعزازات سے نوازا ہے۔

پروفسیر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کو اعزاز حاصل ہے کہ ان کو 94 تحقیقات کے پیٹنٹ (تنہا حقوق یا ملکیت) حاصل ہیں جس میں 64 امریکہ میں ہیں۔

اس وقت وہ پاکستان کے قومی پروفیسر اور سینیئر ایڈوائزر کےعلاوہ اسلامک تعاون تنظیم کے شعبہ سائنس وٹیکنالوجی میں کوارڈنیٹر جنرل کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.